سپریم کورٹ نے اویس شاہ کے اغوا سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ مسترد کر دی
کراچی(اسٹاف رپورٹر)سپریم کورٹ نے اویس شاہ کے اغوا سے متعلق پولیس حکام کی تحقیقاتی رپورٹ مسترد کردی ہے ۔عدالت عظمیٰ نے رپورٹ کو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے غفلت برتنے والے پولیس افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیاہے۔جبکہ عدالت نے رینجرز کے اختیارات کے حوالے سے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ انتظامی معاملہ ہے ،ہم اس میں مداخلت نہیں کرسکتے ہیں ۔جمعرات کو سپریم کورٹ رجسٹری میں جسٹس امیر ہانی اسلم کی سربراہی میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت ہوئی۔ وفاقی سیکرٹری داخلہ عارف احمد خان،چیئرمین پیمرا ابصارعالم، چیف سیکرٹری سندھ صدیق میمن اور آئی جی سندھ اللہ ڈنوخواجہ سمیت دیگرپیش ہوئے۔دوران سماعت چیف سیکرٹری سندھ صدیق میمن اور آئی جی سندھ اللہ ڈنوخواجہ کی جانب سے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سجاد علی شاہ کے بیٹے جسٹس اویس شاہ اغوا کیس پر رپورٹ پیش کی گئی۔رپورٹ پیش میں بتایا گیا کہ ڈی ایس پی رینک کے 24 جب کہ ایس ایس پی اور ایس پی رینک کے 4 افسران کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے، ان میں ایس ایس پی فاروق احمد، ایس پی اسد اعجاز، ایس پی امجد حیات اور اے ایس پی طارق نواز بھی شامل ہیں، چاروں افسران کے خلاف فرائض میں غفلت برتنے پر کارروائی کی جارہی ہے۔چیف سیکرٹری سندھ صدیق میمن نے عدالت کو بتایا کہ سول سرونٹ رول کے تحت یہ افسران وفاق کے ماتحت ہیں ان افسران کے خلاف مزید کارروائی اور انکوائری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کرے گا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے سندھ پولیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صرف وارننگ دینے سے کام نہیں چلے گا، رپورٹ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے خلاف مترادف ہے،وفاقی سیکریٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت کے پاس تحقیقات کا اختیار ہے۔جسٹس امیر ہانی اسلم نے سیکریٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ کیا 20 جون کو شہر میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے خراب تھے ؟، جس پر سیکریٹری داخلہ عارف احمد خان نے عدالت کو بتایا کہ شہر میں لگے کیمرے ٹھیک ہیں مگر وہ بہت ہلکی کوالٹی کے ہیں جس کی وجہ سے ملزمان کی نشاندہی نہیں ہوسکی۔ چیف سیکریٹری نے بتایا کہ ان کیمروں پر تقریبا تین سے چار سو ملین کا خرچہ آیا ہوگا ۔جسٹس امیر ہانی اسلم نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اتنے بڑے شہر میں 2 میگا پکسل کے کیمرے لگا کر عوام کے 50 کروڑ روپے ضائع کئے گئے، اس کا جواب کون دے گا۔ جدید دور میں ناکارہ کیمرے لگانے کی منظوری کس نے دی؟، کوئی بھی ادارہ اپنے کام کرنے کو تیار نہیں ہے، جس پر چیف سیکرٹری سندھ نے کہا کہ ایک این جی او کی مدد سے کیمرے نصب کئے گئے جس پر عدالت نے کہا کہ کیمرے کسی نے بھی لگوائے ان کی منظوری تو وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ نے ہی دی تھی۔ اگر معاملے کی تحقیقات نہ کی گئی تو کیس نیب کو بھیج دیں گے۔آئی جی سندھ نے بتایا کہ 15 کا کال ریکارڈنگ سسٹم چار ماہ سے خراب ہے ۔ عدالت نے آئی جی سے پوچھا کہ کوئی ایسا سسٹم نہیں جو کال نہ اٹھانے کا ڈیٹا فراہم کرسکے ۔آئی جی نے جواب دیا کہ ایسا کوئی سسٹم موجود نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ایسا سسٹم لگائیں کہ تمام ڈیٹا ایک ساتھ موصول ہوسکے ۔جسٹس خلجی عارف نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کوئی چیزبھی ٹھیک نہیں، کوئی بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنے کو تیار نہیں ہے۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کی ہی بات نہیں، ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔جسٹس امیر ہانی اسلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا اب انتظامی معاملات بھی ججز دیکھیں گے؟ ، عدالت نے اویس شاہ بازیابی پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کو سراہا اور مبارک باد پیش کی۔اس موقع پر جسٹس خلیجی عارف نے کہا کہ ہم نے جان کی پرواہ کیے بغیر اویس شاہ کیس پر کام کو جاری رکھا، امیر ہانی اسلم نے اس امید کا اظہار کیا کہ دیگر لاپتہ افراد بھی جلد بازیاب کروالیے جائیں گے۔سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کی توجہ اچانک رینجرز اختیارات پر دلوادی۔جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ یہ انتظامی معاملہ ہے۔ ہم اس میں مداخلت نہیں کرینگے۔بعدازاں عدالت نے اویس شاہ کے اغوا اور خراب سی سی ٹی وی کیمروں سے متعلق جامع رپورٹ طلب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو طلب کرلیااور سماعت 28 جولائی تک ملتوی کردی ہے۔