قندیل کے قاتل بیٹے کو معاف نہیں کریں گے،مقتولہ نے بہت محنت کی، بیٹی کو بھائی کا ارادے کا علم ہواتو اس نے نظرانداز کردیا: والدین

قندیل کے قاتل بیٹے کو معاف نہیں کریں گے،مقتولہ نے بہت محنت کی، بیٹی کو بھائی ...
قندیل کے قاتل بیٹے کو معاف نہیں کریں گے،مقتولہ نے بہت محنت کی، بیٹی کو بھائی کا ارادے کا علم ہواتو اس نے نظرانداز کردیا: والدین

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملتان (ویب ڈیسک) ملتان میں اپنے بھائی کے ہاتھوں ’غیرت کے نام پر‘ قتل ہونے والی سوشل میڈیا کی مقبول پاکستانی ماڈل قندیل بلوچ کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو معاف کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ محمد عظیم اور انور بی بی کا کہنا تھا کہ قندیل کے قتل پر ان کی تکلیف کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا اور اسے بے قصور مارا گیا۔ قندیل بلوچ کو 15 جون کی شب ان کے بھائی وسیم نے قتل کر دیا تھا اور پولیس کی جانب سے گرفتار کیے جانے کے بعد انہوں نے اعترافِ جرم بھی کر لیا ہے۔‘ قندیل کی والدہ کے مطابق وہ صرف ان کی بیٹی ہی نہیں دوست بھی تھیں اور اپنے کیریئر کے بارے میں بھی ان سے بات کرتی رہتی تھیں۔ ’ماں بیٹیاں دکھ سکھ بانٹتی ہیں، دل کے راز بتاتی ہیں۔ وہ مجھے بتاتی تھی کہ تیری بیٹی نے بہت محنت کی ہے اور بہت اوپر چلی گئی ہے۔ اس دفعہ آئی تو کہہ رہی تھی تیری بیٹی کے دکھ ختم ہو گئے ہیں۔ کہہ رہی تھی میرا ٹائم آ گیا ہے ترقی کا۔‘

روزنامہ نوائے وقت کے مطابق قندیل کی والدہ کا کہنا تھا کہ وسیم نے قندیل کو قتل کر کے جو جرم کیا ہے اسے اس کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ ’سزا ملنی چاہیے، اس کی غلطی ہے، اس نے ناجائز قتل کیا۔ایسا کیوں کیا اس نے؟ میں نہیں معاف کروں گی بیٹے کو۔ میری لائق بچی، مردوں کی طرح بہادر لڑکی تھی، کیا قصور کیا تھا اس نے؟‘ قندیل کی والدہ نے واردات کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ملزم وسیم نے جمعہ کی شام ان کے ساتھ ہی کھانا کھایا تھا لیکن اس نے اپنے رویے سے یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ ایسی حرکت کر سکتا ہے۔ انور بی بی نے کہا وسیم نے انہیں اور ان کے شوہر کو دودھ میں نشہ آور دوا ملا کر دی تھی جس کی وجہ سے وہ نہیں جانتے کہ قندیل کے قتل کے وقت کیا ہوا۔ ’میرا شوہر اور میں سو گئے۔ صبح قندیل کو آواز دی کہ بیٹا ناشتہ کر لو۔ پہلے وقت پر اٹھ جاتی تھی پر وہ نہیں اٹھی۔ میں نے سوچا جا کر دیکھوں ، یہ کس طرح کی نیند آئی ہوئی ہے اس کو، سفید چادر اوڑھ کر پڑی ہوئی ہے۔‘ انور بی بی نے بتایا کہ جب انہوں نے قندیل کے چہرے سے چادر ہٹائی تو ان کے سارے چہرے پر نشان تھے جبکہ زبان اور ہونٹ کالے پڑ چکے تھے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ وسیم نے اپنے دوستوں میں قندیل کو جانی نقصان پہچانے کی بات بھی کی اور جب قندیل کو معلوم ہوا تو اس نے اسے نظرانداز کر دیا۔ ’جیسے آج کل حالات چل رہے تھے۔ کسی نے بتایا کہ وسیم قندیل کو مارنے لگا ہے۔ جب قندیل کو پتہ لگا اس نے کہا بڑا آیا مجھے مارنے والا! پھر میں نے اور اس کے باپ نے اسے (وسیم کو) ملامت کی کہ اس لیے بڑے ہوئے ہو کہ بہن کی جان لے لو۔‘ اس سوال پر کہ قندیل بلوچ تو ایک عرصے سے شوبزنس میں تھیں تو ان کے بھائیوں کو اب اس پر اعتراض کیوں ہوا، انور بی بی نے کہا قندیل کے بھائیوں کو ان کے شوبزنس میں جانا شروع سے ہی پسند نہیں تھا تاہم حالیہ واقعات کے بعد ان کا ’ذہن خراب ہوا۔‘ ’پہلے تو سکون تھا۔ یہ جو مہینہ ہے نہ رمضان والا ، اسی میں شور شرابہ مچا ، غلط تصویریں، غلط باتیں پھیلیں، اسی وجہ سے ہوا۔ بھائی پاگل ہوگیا۔ اس کے دوست سارے طعنے دیتے تھے ’یہ تیری بہن ہے، یہ تیری بہن ہے۔۔۔ وہ کہتے تھے کہ قندیل اب یہ کام نہ کرے، اس کو اب روک دو۔ ہم بلوچ خاندان سے ہیں، لوگ ہمیں ملامت کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا بیٹوں کے برعکس قندیل ہی ان کی مالی مدد کرتی تھی۔ ’ہم پیچھے سے بہت غریب ہیں ہمیں بیٹی سہارا دیتی تھی۔ بیٹے شادی شدہ ہیں بیوی بچوں کے ساتھ خوش ہیں وہ ہمارا خیال نہیں رکھتے تھے۔ وہ ہمیں پیار کرتی تھی۔ گاﺅں سے یہاں لے کے آئی تھی کہ آپ کا خرچہ اٹھا سکتی ہوں۔ انور بی بی کا کہنا تھا انہیں قندیل کے کام پر کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ وہ اس کی ترقی پر خوش تھے۔ قندیل کے والد محمد عظیم کا بھی کہنا ہے قندیل ان کے لیے کسی بھی اچھے بیٹے سے بڑھ کر تھی۔ ’بیٹی بھی تھی، دوست بھی تھی جگری، بیٹا بھی، ایک اچھے سے اچھے بیٹے سے اچھی، میں کیا بتاﺅں۔‘ انہوں نے کہا کہ وہ بیٹی کے قتل پر بیٹے کو معاف کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور اسے ضرور سزا ملنی چاہیے۔ ’سزا ہوتی ہے ہو جائے! میں تو کہتا ہوں اسے جہاں نظر آئے گولی مار دو۔ ہم بہت تکلیف میں ہیں۔‘ اس سوال پر کہ انہوں نے اپنے دوسرے بیٹے جو فوج میں ملازم ہے،کا نام ایف آئی آر میں کیوں درج کرایا، محمد عظیم نے کہا ’ایک جنونی بیٹا تھا، فوج میں ہے، کہتا تھا کہ شادی کر لو نہیں تو میری بہن نہیں ہو۔ میں نشے میں تھا۔ ان کی ناراضگی کی وجہ سے میں نے ناجائز اس غریب کا نام لے لیا، اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، وہ ملوث نہیں تھا۔‘

جب قندیل کے والد سے پوچھا گیا کہ آیا بیٹی کی وجہ سے انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا تو انہوں نے کہا کہ ’جب سے عبدالقوی والی بات ہوئی، تب سے لوگ شکایتیں لگانا شروع ہوگئے ہیں۔ ’انھوں نے بھڑکایا اس کا پہلے شوہر ہے، وہ تو خود ہی مان گئی تھی کہ طلاق یافتہ ہے لیکن وہ اسے کو میڈیا پر لے کر آئے اور اسے کہا کہ گلے کرے ، شکایتیں کرے۔‘ قندیل بلوچ کے والدین ملتان میں متوسط طبقے کے ایک رہائشی علاقے میں واقع بوسیدہ مکان میں رہائش پذیر ہیں۔ مکان کے صحن میں چارپائی پر بیٹھی قندیل کی والدہ انور بی بی نے مزید بتایا جب وہ پیسے بھیجتی تھی تو یہ سب ہمارے پاس بھاگے بھاگے آتے تھے وسیم مجھے جیل میں ملنے کی کوشش کرتا ہے تو میں کہتا ہوں شکل نہ دکھا? مجھے اپنی، کیسی سفاکی سے بہن کو مار ڈالا۔ قندیل کی والدین کے مطابق جن دنوں قندیل عید کی چھٹیوں میں گھر والوں سے ملنے آئی تھی ان کا بیٹا وسیم کسی بہانے سے گھر ٹھہرنے آیا۔ والدین کے مطابق انہیں نشہ آور دودھ پلانے کے بعد وسیم نے اپنے ایک دوست کو بلایا تاکہ قندیل کو قتل کیا جا سکے۔

ملتان کے ایک فوٹوگرافر کے مطابق انہوں نے ماڈلنگ کا کیرئر یہیں سے شروع کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں نے ہی ان کا پہلا فوٹو شوٹ کیا تھا لیکن کام نہ بنا۔ پھر وہ شہر چھوڑ کے چلی گئیں۔ پھر فیس بک پہ ان کی ویڈیوز آنا شروع ہو گئیں۔ تاہم ملتان میں ان کے محلے دار کہتے ہیں کہ وہ انہیں نہیں جانتے تھے۔ ہر وقت عوام کی نظروں میں رہنے والی قندیل شاید جب بھی گھر آتیں تو خاموشی سے اپنے والدین کے ساتھ وقت گزارنا چاہتی تھیں۔ قندیل کی والدہ انور بی بی نے بتایا وہ سکون کی تلاش میں میرے پاس آئی تھی امی میں تھک گئی ہوں مقدموں سے‘ لڑائی جھگڑے سے لیکن دیکھنا میرا ٹائم آ گیا ہے۔ سب کہتے ہیں قندیل بدنام ہے لیکن میں سب کو دکھا دوں گی کہ شاہ صدرالدین سے نکلی ہوئی ایک معمولی سی لڑکی کیا کر سکتی ہے۔‘

مزید :

ملتان -