3 سال بعد داعش کی قید سے رہائی پانے والی خاتون نے فیس بک کھول کر دیکھی تو زندگی کی سب سے بڑی خوشخبری مل گئی، ایسی چیز نظر آگئی کہ قید کا سارا غم بھول گئی
اوٹاوا (نیوز ڈیسک) شدت پسند تنظیم داعش کی قید سے فرار ہو کر پناہ گزین کے طور پر کینیڈا پہنچنے والی خاتون کو تین سال کے مصائب و آلام کے بعد اچانک ایک ایسی خوشی مل گئی کہ زندگی کے ساری غم بھول گئی۔
ویب سائٹ Cbc.caکی رپورٹ کے مطابق یزیدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون نوفہ زاغلہ کے گاﺅں پر داعش نے 2014 میں حملہ کیا تھا۔ داعش کے جنگجو شمالی عراق کے اس یزیدی گاﺅں سے خواتین اور اور بچوں کی بڑی تعداد کو اغوا کر کے لے گئے، جن میں نوفہ اور ان کے بچے بھی شامل تھے۔ چند ماہ قبل جب داعش کے ایک ٹھکانے پر فضائی حملہ ہوا تو نوفہ اپنے چھوٹے بچوں کو لے کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی لیکن اس کا بڑا بیٹا، جس کی عمر اغواءکے وقت تقریباً نو سال تھی، گزشتہ تین سال سے اس کی آنکھوں سے دور تھا۔
موصل سے داعش کا قبضہ چھڑانے کے بعد عراقی فوج نے شہر میں خفیہ سرنگ دریافت کر لی، اندر داخل ہوئے تو درجنوں لڑکیاں موجود تھیں لیکن کس حالت میں؟دیکھ کر ہر فوجی کے واقعی ہوش اڑ گئے کیونکہ ان کے جسموں پر۔۔۔
نوفہ پہلے عراق میں ایک پناہ گزین کیمپ میں رہی اور پھر کچھ دیگر پناہ گزینوں کے ساتھ کینیڈا پہنچ گئی۔ اسے گزشتہ تین سال کے دوران اپنے بڑے بیٹے کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی تھی اور اسے یقین ہو چلا تھا کہ وہ زندہ نہیں ہے۔ چند دن قبل اس کی زندگی میں اس وقت پھر سے خوشیاں لوٹ آئیںجب عراق سے ایک رشتہ دار نے فون کر کے بتایا کہ اس کا بیٹا عماد میشکو تامو زندہ ہے اور سوشل میڈیا پر اس کی تصاویر گردش کر رہی ہیں۔ یہ تصاویر اس وقت بنائی گئیں جب حال ہی میں عراقی فوج نے موصل شہر کو داعش سے آزاد کروایا اور قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کو بازیاب کروایا، جن میں نوفہ کا بیٹا بھی شامل تھا۔
نوفہ کے بہنوئی نے کمسن لڑکے کی تصویر سوشل میڈیا پر دیکھی تو فوراً اس کے بارے میں نوفہ کو بتایا۔ جب اس نے اپنے بیٹے کی تصویر دیکھی تو بے حد جذباتی ہو گئی۔ اس کا کہنا تھا ”وہ انتہائی لاغر اور پریشان حال نظر آتا ہے۔ یقینا بیچارے بچے کوبڑے دکھ دیکھنے پڑے ہیں جس کے آثار اس کے چہرے پر نظر آتے ہیں۔ مجھے اس کی تصویر دیکھ کر خوشی تو بہت ہوئی مگر اس کی حالت دیکھ کر بہت دکھ بھی ہوا۔ اس کا چہرہ دھول میں اٹا ہوا تھا اور صاف نظر آتا تھا کہ وہ ظلم و تشدد کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس کے پیٹ اور بازﺅں پر زخم ہیں۔ اب وہ ایک پناہ گزین کیمپ میں اپنے چچا کے ساتھ رہ رہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ کینیڈا کی حکومت جلد اس کے بارے میں کچھ کرے گی اور میں ایک بار پھر اسے اپنے سینے سے لگا سکوں گی۔“