ڈاکٹر طاہرالقادری خاموش ہیں مگر ان کا ووٹ کس کو جائےگا؟؟
پولنگ کا عمل چند دن کی دوری پر ہے انتخابی گہما گہمی تو ہے مگر بہت زیادہ جوش و خروش خواتین کی بھرپور شرکت ۔ چارجڈ کراؤڈ دیکھنے میں نظر نہیں آرہا۔ غور کیا تو پتہ چلا ان تمام خصوصیات میں ماہر ڈاکٹر طاہرالقادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک انتخابات کے عمل سے باہر ہے اور انہوں نے بطور جماعت انتخابات میں حصّہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے ۔ خود ڈاکٹر طاہرالقادری بھی یورپ کے تنظیمیں دورے پر ہیں جہاں مختلف ممالک میں انکے خطابات ہورہے ہیں ۔
یوں تو پاکستان عوامی تحریک 1989 میں قائم ہوئی اور موچی دروازے پر ایک بڑے جلسے میں اسکا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ عوامی تحریک بطور پارلیمان جماعت ابھر کر سامنے نہ آسکی کیونکہ ڈاکٹر طاہرالقادری موجودہ انتخابی نظام کے بڑے ناقدین میں سے ایک ہیں ۔ وہ متناسب نمائندگی کے نظام کو بہتر سمجھتے ہیں اور انکا کہنا ہے کہ مغربی جمہوریت کا راگ الاپنے والے متناسب نمائندگی کا نظام نافذ کرنے کے کیوں خلاف ہیں اس لئیے کہ ذات برادری ۔ دھن ۔ دھونس ۔ دھاندلی کے ذریعے جو شخصیات منتخب ہوتی ہیں انکی اہمیت ختم ہوجائے گی اور جماعت کی حیثیت نمایاں رہے گی۔
23 دسمبر 2012 کو مینارِ پاکستان پر ایک جم غفیر سے خطاب کرتےہوئے انتخابی نظام کی خامیوں پر روشنی ڈالی اور پندرہ دن کے نوٹس پر لاہور سے اسلام آباد وہ لانگ مارچ کیا جسکی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ڈاکٹر طاہرالقادری کا نعرہ تو سیاست نہیں ریاست بچاؤ تھا مگر وہ پہلے احتساب ۔ اصلاحات پھر انتخابات کے قائل ہیں اور انکی مسلسل سیاسی جدوجہد میں اسی نظریے کا پرچار ملتا ہے ۔
پاکستان عوامی تحریک نے ایک دو بار ہی انتخابات میں حصہ لیا ہے اور 2002 کے بعد یہ تیسرے الیکشن ہیں جسکے عمل سے پاکستان عوامی تحریک باہر ہے ۔بلاشبہ پاکستان عوامی تحریک تنظیمی طور پر سب سے منظم جماعت ہے اور اسکے کارکنان میں خواتین بہت بڑی تعداد میں شامل ہیں انکی کمٹمنٹ اپنی قیادت سے مثالی ہے۔2013 میں عوامی اجتماعات میں بھرپور پذیرائی کے باوجود ڈاکٹر طاہرالقادری نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا اور بتا دیا تھآ کہ تبدیلی کے دعویدار الیکشن والی شام سر پکڑ کر رو رہے ہونگے اور پھر ہوا بھی یونہی ۔ اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی سیاسی بصیرت کا قائل ہوکر عمران خان سمیت بیشتر سیاستدان یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری ٹھیک کہتے ہیں ۔۔
موجودہ انتخابات کے حوالے سے ڈاکٹر طاہرالقادری کا واضح موقف ہے کہ جنکے خلاف احتجاج کیا جن کی خلاف دھرنے دئیے انہیں اپنی جماعتوں میں شامل کرنے سے کبھی تبدیلی نہیں آ سکتی اس لئیے بطور جماعت تو وہ حصہ نہیں لے رہے مگر کارکنان کے ووٹ ڈالنے پر پا بندی نہیں لگائی ہے۔2018 کے عام انتخاب ہونے سے پہلے ہی مشکوک نظر آرہے ہیں اور بڑے بڑے صحافی حضرات اگلی حکومت کو دو سال سے زیادہ چلتا نہیں دیکھ رہے ہیں ۔ اس سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں بظاہر ڈاکٹر طاہرالقادری کا رد عمل درست لگتا ہے ۔ اگر نئی آنے والی حکومت وطنِ عزیز کو درست سمت میں نہ ڈال سکی تو زیادہ امکانات یہی ہے کہ اسے ڈاکٹر طاہرالقادری اور عوامی تحریک کے نظریاتی کارکنان کی بھرپور عوامی اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ لانگ مارچ اور دھرنے کی موجد جماعت پارلیمنٹ میں پہنچنے کے لئیے الیکشن کب لڑے گی ۔ احتساب ۔ اصلاحات کے بعد یا پھر موجودہ رنگ میں رنگ جائے گی۔
..
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔