سعودی سرزمین پر امریکی فوج

سعودی سرزمین پر امریکی فوج

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


امریکہ نے ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد سعودی عرب میں فوج بھیجنے کا اعلان کر دیا،خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سعودی سرزمین پر امریکی دستوں کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے،پینٹاگون نے کہا ہے کہ خطے میں اُبھرتے ہوئے سنگین خطرات سے نپٹنے کے لئے امریکہ سعودی عرب میں فوجی دستے تعینات کرے گا،ایرانی خطرے کے پیش نظر سعودی عرب کے پرنس سلطان ایئر بیس پر دفاعی سازو سامان کی منتقلی گزشتہ ماہ سے جاری ہے، لانگ رینج پیٹریاٹ میزائل سسٹم کی تنصیب15جولائی تک مکمل ہونا تھی، تاہم یہ کام اگلے چند ہفتوں میں مکمل ہو جائے گا،راڈار پر نظر نہ آنے والے فائٹر ایف22 طیارے بھی نئے امریکی منصوبے کا حصہ ہیں،جو اگست کے آغاز تک سعودی عرب پہنچ جائیں گے،500امریکی فوجی پرنس سلطان ایئر بیس پر تعینات کئے جائیں گے۔امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے اثرو رسوخ کے خاتمے کے لئے امریکہ سعودی عرب کو اہم شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔2003ء میں عراق جنگ کے خاتمے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ سعودی عرب میں امریکی فوجی تعینات کئے جا رہے ہیں۔
ایرانی خطرے کے پردے میں امریکہ نے اپنے فوجی سعودی عرب بھیج دیئے ہیں،اربوں ڈالر کے جدید اسلحے کی خریداری کا سودا پہلے ہی دونوں ملکوں میں طے پا چکا ہے، یہ تمام تر جدید اسلحہ شاید اس کے علاوہ ہو گا، جو امریکی فوجی اپنے ساتھ لے کر آ رہے ہیں،ایف22 طیارے پہلی مرتبہ کسی خطے میں محو پرواز ہوں گے، جن کی خوبی یہ ہے کہ وہ ریڈار کی آنکھ سے بچ نکلتے ہیں،لیکن ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ سعودی شاہی خاندان کی حکومت ہماری امداد کے سہارے کھڑی ہے۔اگر ہم اپنی سپورٹ واپس لے لیں تو یہ حکومت پندرہ دن نہیں نکال سکتی،اتنا سخت بیان ٹرمپ جیسا صاف گو صدر ہی دے سکتا تھا جو دوسرے کئی مواقع پربھی ایسے جملے چست کر جاتاہے،جو بعد میں ہدفِ تنقید بنتے ہیں۔صدر ٹرمپ کے اس بیان پر سعودی شہزادے ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ سعودی عرب،امریکہ سے بھی پہلے موجود تھا اور امریکی حمایت کے بغیر بھی زندہ رہے گا۔ اگرچہ شہزادے نے تُرکی بہ تُرکی جواب تو دے دیا،لیکن دُنیا جانتی ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات کی نوعیت کیا ہے،دونوں کا ایک دوسرے پر کتنا انحصار ہے اور خاص طور پر شہزادہ محمد بن سلمان نے صدر ٹرمپ کے داماد کے ساتھ کتنے قریبی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو دورہئ امریکہ کی دعوت دلوانے میں بھی شہزادہ محمد بن سلمان کا کردار ہے، تاہم امریکی فوج کی تعیناتی کو محض امریکہ سعودی عرب تعلقات کی روشنی میں نہیں دیکھا جا سکتا،ان پر مشرقِ وسطیٰ کے وسیع تر تناظر ہی میں نظر ڈالنا ہو گی، اور ایرن فیکٹر اس میں انتہائی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
سعودی عرب،ایران کو اپنی سالمیت کے لئے خطرہ تصور کرتا ہے اور اس کا یہ بھی خیال ہے کہ یمن میں حوثی باغیوں کو ایران کی ہر طرح کی امداد حاصل ہے،بلکہ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ یمن میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب بھی موجود ہیں جو حوثیوں کو لڑائی کی تربیت دیتے ہیں اور سعودی عرب پر جو میزائل داغے جاتے ہیں اور جنہیں امریکی میزائل سسٹم کے ذریعے ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی ناکارہ بنا دیا جاتا ہے، وہ بھی حوثیوں کو ایران کی جانب سے ملتے ہیں۔ایک طرف تو سعودی ایران کشیدگی ہے اور دوسری طرف امریکہ،مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے وسیع تر اثرو رسوخ کو پسند نہیں کرتا،کیونکہ ایران خطے کا واحد ملک ہے جو امریکہ کے پروردہ اسرائیل کو براہِ راست دھمکیاں دیتا رہتا ہے۔سابق ایرانی صدر احمدی نژاد تو یہ تک کہہ گزرتے تھے کہ ایران، اسرائیل کو صفحہئ ہستی سے مٹا دے گا، ایسا عملاً ممکن بھی ہے یا نہیں،لیکن ایسے اعلانات نے اسرائیل کو ہمیشہ لرزہ براندام رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے ساتھ امریکہ اور پانچ دوسری بڑی طاقتوں کا نیو کلیئر ڈیل اسرائیل کو پسند نہیں آیا تھا اور اوباما کی صدارت کے دوران اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر کو کھری کھری سُنا دی تھیں،اس کے باوجود صدر اوباما اپنے موقف پر ڈٹے رہے،انہوں نے ایران کے ساتھ نیو کلیئر ڈیل کی نہ صرف حمایت کی، بلکہ کانگرس کی دھمکیوں کے باوجود اس معاہدے کی توثیق کرائی،لیکن صدر اوباما نے اقتدار سنبھالتے ہی یہ نیو کلیئر ڈیل یک طرفہ طور پر منسوخ کر دی اور ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں بھی لگا دیں اور پابندیوں کے ساتھ ساتھ اب امریکہ ایران پر حملے کی دھمکیاں بھی دے رہا ہے۔اسرائیل، صدر ٹرمپ کو اس پر اُکساتا رہتا ہے،کیونکہ صدر ٹرمپ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے اپنا سفارت خانہ بھی وہاں منتقل کر چکے ہیں،حالانکہ پوری سلامتی کونسل نے امریکہ کے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی۔اسرائیل تو یہ چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح امریکہ ایران پر حملہ کر کے ایرانی فوجی قوت کی کمر توڑ دے،جس طرح عراق پر حملہ کر کے اُسے تباہ و برباد کر دیا گیا، شام کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی گی، لیبیا کی خانہ جنگی نے خوشحالی کی جانب بڑھتے ہوئے ملک کو بدامنی اور غربت کے غاروں میں دھکیل دیا ہے، یمن پتھروں کے ڈھیروں میں تبدیل ہو گیا، ایسے میں اگر امریکہ نے ایران پر حملے کی حماقت کی تو جنگ کا دائرہ نہ صرف پورے مشرقِ وسطیٰ میں پھیل جائے گا،بلکہ دُنیا بھر کی اقتصادیادت بھی ڈانواں ڈول ہو جائیگی، جس کا سارا انحصار مشرقِ وسطیٰ کے تیل پر ہے،پہلے ہی تیل بردار جہازوں کی وجہ سے ایران اور برطانیہ میں تنازعہ چلتا رہتا ہے۔
بظاہر تو امریکی فوج سعودی عرب کی سالمیت کی حفاظت کے لئے سعودی سرزمین پر اُتری ہے،لیکن ایک بار آمد کے بعد اس کے مقاصد محدود نہیں رہیں گے۔امریکہ اس طرح دوہرا فائدہ اٹھائے گا، ایک تو امریکی فوج کے اخراجات سعودی عرب کو اٹھانے ہوں گے، اس طرح یہ ایک بڑا منافع بخش سودا بھی ہے،دوسرے اس کے پردے میں ایران پر نظر بھی رکھی جا سکتی ہے۔لگتا ہے ہوشیار امریکی قیادت نے سعودی حکمرانوں کو ایران سے زیادہ ہی ڈرا دیا ہے، جس کی وجہ سے امریکی فوج کو سعودی عرب کی سرزمین پر اُترنے کی اجازت دی گئی ہے، سعودی عرب میں اس کی مخالفت بھی ہو رہی ہے، حالانکہ ملکوں کا حقیقی دفاع فرزندانِ سرزمین سے زیادہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ سعودی حکمرانوں کو امریکی سپاہ پر انحصار کرنے کی بجائے خود اپنی مضبوط اور ناقابل تسخیر وطنی فوج تیار کرنی چاہئے تھی،اِس وقت تو سعودی عرب کو جنرل راحیل شریف کی خدمات بھی حاصل ہیں،جو پاک فوج کی تین سال تک بہترین قیادت کر چکے ہیں اور چند برس کے عرصے میں ایک بڑی فوج تیار کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ سعودی عرب کے پاس وسائل اور افرادی قوت کی بھی کمی نہیں،ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ سعودی نوجوانوں کو آرام طلبی کی زندگی ترک کرکے ملک کے دفاع کے مقدس فرض کی طرف راغب کیا جائے اور انہیں جدید جنگ کی تربیت دی جائے،غیر ملکی فوجی چاہے وہ امریکی ہی کیوں نہ ہوں، کسی غیر ملکی سرزمین کا دفاع جوش و جذبے سے نہیں کر سکتے،اگر ایسا ہوتا تو اس وقت امریکی فوجیں افغانستان سے نکلنے کے لئے بے قرار نہ ہوتیں اور اٹھارہ سالہ جنگ میں انہوں نے افغانوں کو شکست سے دوچار کیا ہوتا۔سعودی حکمرانوں اور سعودی قوم کو مستعار فوجیوں کی بجائے اپنی قوتِ بازو پر بھروسہ کرنا چاہئے تاکہ کل کو کوئی اور امریکی اُٹھ کر یہ نہ کہہ سکے کہ سعودی حکومت تو ہماری حمایت کے بغیر پندرہ دن بھی نہیں نکال سکتی۔

مزید :

رائے -اداریہ -