نیب کے سوالات، شاہد خاقان عباسی کے جوابات (2)

نیب کے سوالات، شاہد خاقان عباسی کے جوابات (2)
نیب کے سوالات، شاہد خاقان عباسی کے جوابات (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سوال: کیا آپ جانتے ہیں کہ 2014ء کے فاسٹ ٹریک ایل این جی پروجیکٹ سے قبل QED کنسلٹنٹ کا ایس ایس جی سی ایل کے ساتھ کام کرنے کا سابقہ تجربہ ہے؟ جواب: جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں بیان کیا گیا ہے، میں یہ جانتا ہوں کہ QED کنسلٹنٹ پاکستان میں ایس ایس جی سی کے تین انٹی گریٹڈ ایل این جی پروجیکٹس اور 2012ء میں ایس ایس جی سی کے ایل پی جی ٹرمینل کے ریٹروفٹ پروجیکٹ کے لئے کام کر چکا ہے۔ مجھے اس حقیقت کا علم اْس وقت ہوا جب QED نے ایل این جی ٹرمینل پروجیکٹ پر کام شروع کر دیا تھا۔ سوال: ایس ایس جی سی ایل کی بجائے آئی ایس جی ایس کو ایل این جی ٹرمینل ون قائم کرنے کا کام کیوں سونپا گیا؟ جواب: ایران پاکستان (آئی پی) گیس پائپ لائن اور ترکمانستان افغانستان پاکستان انڈیا (ٹاپی) گیس پائپ لائن پروجیکٹ کے تحت آئی ایس جی ایس کا بڑے بین الاقوامی گیس امپورٹ ٹھیکوں کی ڈویلپمنٹ اور انہیں فعال بنانے کا تجربہ ایل پی جی ٹرمینل پروجیکٹ کی پروکیورمنٹ کیلئے ڈویلپمنٹ اور اسے فعال بنانے کے معاملے میں استعمال کیا گیا۔ آئی ایس جی ایس 100 فیصدی حکومت پاکستان کی کمپنی ہے۔ QED کنسلٹنٹ نے ایل این جی ٹرمینل پروجیکٹ کے لئے تکنیکی معاونت فراہم کی تھی۔ بولی کا پورا عمل آئی ایس جی ایس کے سپرد نہیں کیا گیا تھا، آئی ایس جی ایس کو وزارت پیٹرولیم اینڈ نیچرل ریسورسز نے مینڈیٹ دیا تھا کہ وہ پروجیکٹ میں رابطہ کاری کا کام کرے۔

ایل این جی ٹرمینل پروجیکٹ کیلئے ایس ایس جی ایس پروکیورنگ ایجنسی رہی، اور اس کے نمائندوں نے پروجیکٹ کی ہر سطح پر فیصلہ سازی کا کام کیا۔ آئی ایس جی ایس اور ایس ایس جی سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے اس انتظام کی منظوری دی؛ اس کے علاوہ، پی پی آر اے نے اس انتظام پر کوئی سوال نہیں اٹھایا۔ سوال: کیا آپ کو علم ہے کہ ایس ایس جی سی ایل کے پاس کوالیفائیڈ / تجربہ کار انجینئرز موجود تھے؟ میں 2013ء سے 2018ء تک وزیر برائے وزارت پیٹرولیم اینڈ نیچرل ریسورسز تھا اور مجھے علم ہے کہ ایس ایس جی سی کے پاس کیا تجربہ اور کیا اہلیت موجود ہے۔ مجھے یہ علم تھا کہ ایس ایس جی سی کے پاس پیچیدہ انٹی گریٹڈ نیچرل گیس امپورٹ پروجیکٹس یا بڑے بین الاقوامی انفرا اسٹرکچر کے ٹھیکوں بالخصوص ٹولنگ فیس کی بنیاد پر چلنے والے پروجیکٹس جیسا کہ یہ ایل این جی پروجیکٹ ہے، کے متعلق تجربہ نہیں تھا۔ سوال: کیا ایس ایس جی سی ایل کو ایل این جی ٹرمینل اور ایل این جی کے حصول وغیرہ کے معاملے میں نیلامی / بولی کے عمل کے حوالے سے مکمل طور پر غیر موثر / نا اہل / نا تجربہ کار سمجھ لیا گیا تھا؟ جواب: ایس ایس جی سی ایل کے پاس مطلوبہ تکنیکی معلومات یا تجربہ نہیں تھا کہ وہ پیچیدہ بین الاقوامی ٹھیکوں پر کام کر سکے یا انہیں شروع کر سکے، بالخصوص ایسے پروجیکٹس جن میں ٹولنگ فیس کی پیچیدگیاں شامل ہوں۔

ایس ایس جی سی کے تکنیکی لحاظ سے محدود ہونے کا معاملہ اس بات سے عیاں تھا کہ وہ مشعال ایل این جی، ایل پی جی ٹرمینل ریٹرو فٹ اور تین انٹی گریٹڈ ایل این جی پروجیکٹس میں ناکام ہو چکی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایس ایس جی نے کوئی آئل یا ایل پی جی ریفائنری قائم کی تھی۔ ایس ایس جی سی کا بنیادی کام گیس پائپ لائنیں ہے اور ایل این جی ٹرمینل پروجیکٹ کی تمام گیس پائپ لائنیں ایس ایس جی سی نے بحیثیت ٹھیکے دار بچھائی تھیں۔ سوال: آئی ایس جی ایس کے مینڈیٹ کا تھا اور آیا آئی ایس جی ایس کے پاس ایل این جی کی پروکیورمنٹ کے متعلق کوئی تجربہ تھا؟ جواب: آئی ایس جی ایس (پرائیوٹ) لمیٹڈ؛ جی ایچ پی ایل، ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل کی شیئر ہولڈنگ کے ذریعے 100 فیصدی حکومت پاکستان کی کمپنی ہے اور اسے ایران پاکستان گیس پائپ لائن پروجیکٹ اور ترکمانستان، افغانستان، پاکستان انڈیا (ٹاپی) گیس پائپ لائن پروجیکٹ پر کام کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا ہے۔

کمپنی کے پاس انٹی گریٹڈ اور اَن بنڈلڈ سسٹمز کے تحت اربوں ڈالرز مالیت کے گیس درآمدی پروجیکٹس لگانے کے حوالے سے کافی معلومات اور تجربہ ہے، ڈھانچہ جاتی لحاظ سے یہ پروجیکٹس اَن بنڈلنڈ ایل این جی پروجیکٹ جیسے ہی ہیں، جن میں ٹولنگ فیس شامل ہے، اور جو تعمیر کیے جا رہے تھے۔ پاکستان میں کسی اور سرکاری کمپنی کے پاس اتنی مہارت اور تجربہ نہیں ہے۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پروجیکٹ اور ترکمانستان، افغانستان، پاکستان انڈیا (ٹاپی) گیس پائپ لائن پروجیکٹ، جن کی سالانہ قدر پانچ ارب ڈالرز ہے، پر مذاکرات اور ان کے معاہدوں پر کامیابی سے دستخط آئی ایس جی ایس کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سوال: ٹولنگ فیس کے حوالے سے ایل این جی سے متعلق پروکیورمنٹ کے معاملات نمٹانے میں مسٹر مبین صولت کا کیا خاص میرٹ تھا؟ خصوصاً ان کی اہلیت، تجربہ / مہارت اور ان کی سابقہ پروکیورمنٹ سرگرمیاں کیا تھیں؟ مسٹر مبین صولت آئی ایس جی ایس کے مینیجنگ ڈائریکٹر تھے،

اور ان کی قیادت میں آئی ایس جی ایس نے اربوں ڈالرز مالیت کے گیس امپورٹ پروجیکٹس، جو ڈھانچہ جاتی لحاظ سے یہ پروجیکٹس اَن بنڈلنڈ ایل این جی پروجیکٹ جیسے ہی ہیں، جن میں ٹولنگ فیس شامل ہے، اور جو تعمیر کیے جا رہے تھے، کے حوالے سے ضروری معلومات اور تجربات حاصل کیے۔ سوال: ایل این جی ٹرمینل ایوارڈ کی سرگرمیوں کے متعلق آئی ایس جی ایس اور آئی ایس جی ایس کے بورڈ کی سرگرمیوں کے حوالے سے آپ کا کیا کردار تھا؟ جواب: وفاقی وزیر برائے وزارت پیٹرولیم اینڈ نیچرل ریسورسز، وفاقی کابینہ کے رکن، کابینہ کمیٹی برائے توانائی، اور اقتصادی رابطہ کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے یہ میری ذمہ داری تھی کہ پاکستان میں توانائی کے بحران کو ختم کرنے میں مدد کروں۔ ایل این جی سپلائی چین کی تعمیر، بشمول ایل این جی کی درآمدی سہولتیں پیدا کرنا توانائی کا بحران حل کرنے کی جانب اہم قدم تھا۔

ایل این جی سپلائی چین کی تیاری، بشمول پاکستان میں ایل این جی کا پہلا ری گیسی فکیشن ٹرمینل تعمیر کرنا میری بنیادی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔ آئی ایس جی ایس کا یہ مینڈیٹ اور ذمہ داری تھی کہ وہ حکومت پاکستان کی پالیسی کے مطابق کام کرے۔ یہ میرے کام کرنے کا طریقہ نہیں کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز یا وزارت پیٹرولیم اینڈ نیچرل ریسورسز کی کمپنیوں کی انتظامیہ میں مداخلت کروں یا ان سے رابطہ کروں؛ یہ کمپنیاں اپنے مینڈیٹ کے مطابق اور سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے قواعد و ضوابط کے مطابق کام کرتی ہیں۔ سوال: آزاد ارکان (شہزاد علی خان اور زبیر موتی والا) کو آئی ایس جی ایس کے بورڈ سے کیوں ہٹایا گیا؟ جواب: مسٹر شہزاد علی خان اور مسٹر زبیر موتی والا آئی ایس جی ایس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں آزاد ڈائریکٹرز تھے جو اپنے عہدوں پر تین سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد اگست 2016ء میں بورڈ سے ریٹائر ہو گئے۔ سوال: ایل این جی ٹرمینل ون کی بولی کے موقع پر آئی ایس جی ایس کے بورڈ کے آزاد ارکان کا تقرر کیوں نہیں کیا گیا؟

جواب: پبلک سیکٹر کمپنیز (کارپوریٹ گورننس) رولز 2013ء کے مطابق آزاد ڈائریکٹرز کو ایل این جی ٹرمینل کی بولی کے وقت نہ صرف مقرر کیا گیا تھا،بلکہ وہ کام بھی کر رہے تھے۔ سوال: ایس ایس جی سی ایل کی بجائے بولی کا کام آئی ایس جی ایس کو دینا کہیں ایل این جی ٹرمینل کے متعلق عبوری فیصلوں کے معاملے میں ای ای ٹی پی ایل کو رعایت دینے کیلئے تو نہیں کی گئی تھی اور اس دوران آزاد ممبرز کو بھی باہر رکھا گیا اور ایس ایس جی ایس کی تجربہ کار ٹیم کو بھی نظرانداز کیا گیا؟ جواب: بدقسمتی سے جو الزام عائد کیا گیا ہے اس میں حقائق کی نفی کی گئی ہے؛ ایل این جی ٹرمینل کے لئے ٹولنگ فیس کی سروسز شفاف اور دو مراحل پر مشتمل ٹینڈر پراسیس کے ذریعے حاصل کی گئی تھیں اور یہ ممکن نہیں کہ مسابقتی عمل کے دوران کوئی عبوری فیصلہ کیا جائے۔ مسابقتی ٹینڈر پراسیس میں ایوارڈ کا فیصلہ طے شدہ تکنیکی اور مالی شرائط اور معیارات کے مطابق کیا جاتا ہے۔ آئی ایس جی ایس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے آزاد ممبرز کو اسی وقت مقرر کیا گیا تھا جب ایل این جی ٹرمینل کے ٹینڈر کا کام ہو رہا تھا؛ اور یہ لوگ کام بھی کر رہے تھے۔

جیسا کہ واضح کیا گیا ہے کہ ایس ایس جی سی ایل این جی ٹرمینل پروجیکٹ کیلئے پروکیورنگ ایجنسی تھی جبکہ آئی ایس جی ایس کو پروجیکٹ میں رابطہ کاری کا مینڈیٹ دیا گیا تھا۔ ایس ایس جی سی روزِ اول سے ہی ٹینڈر کے عمل کا حصہ تھی تاوقتیکہ ایل این جی ٹرمینل پروجیکٹ ایوارڈ ہوگیا اور ایس ایس جی سی کی منظوری کے سوا کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا تھا۔ ایل این جی سپلائی چین کی کامیاب تخلیق توانائی بحران کے حل کیلئے خصوصاً پاکستان میں توانائی بحران کیلئے تشویشناک ہے۔ پاکستان میں ہر موثر گیس سے چلنے والے پاور پلانٹ کو قدرتی گیس دستیاب ہے جو غیر موثر اور ماحول کی مناسبت سے ناقابل برداشت ایچ ایس ایف او اور ایل ایس ایف او پر انحصار کم کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، 1200 میگاواٹ کے 4 آر ایل این جی پاور پلانٹس کی پاکستان میں تنصیب کی گئی ہے جو 60 فیصد موثریت پر آج دنیا میں سب سے زیادہ موثر ہیں اور ایچ ایس ایف او اور ایل ایس ایف او پر چلنے والے پاور پلانٹس کے مقابلے میں آدھی قیمت میں توانائی پیدا کرتے ہیں۔

یہ پاور پلانٹس آج پاکستان کی توانائی پیداوار کی گنجائش کیلئے ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ پاکستان ایچ ایس ایف او اور ایل ایس ایف او درآمد کرنے والا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ تھا جس کی آج کی درآمد صفر ہے۔ توانائی پیداوار کے لئے فیول کی بچت کا تخمینہ سالانہ 2 ارب ڈالرز سے زائد لگایا گیا ہے۔ انڈسٹری کو گیس کی دستیابی 24/7/265 بیسز پر یقینی بنا دی گئی ہے؛ اس کا موازنہ سازگار طور پر 2013ء میں 33 فیصد سے کم کی دستیابی سے کیا جاتا ہے۔ اس سے برآمدات اور موثریت اور انڈسٹریز سے وابستہ منافع پر مثبت اثر پڑا ہے جس کا نتیجہ تازہ سرمایے کی صورت سامنے آیا ہے۔ سی این جی کی صنعت 24/7/365 بیسز پر گیس کی دستیابی کے ساتھ تازہ دم ہوگئی ہے؛ شٹ ڈاؤنز اور طویل قطاریں اور 2013ء کے سی این جی اسٹیشنز پر طویل قطارو¡ کا خاتمہ ہوا ہے۔


پاکستان 10 لاکھ ایم ٹی یوریا کا درآمد کنندہ تھا جو اب یوریا کا برآمد کنندہ ہوگیا ہے،جبکہ پاکستانی کاشتکاروں کیلئے کم قیمتوں اور بہتر دستیابی کو یقینی بنارہا ہے۔ ایل این جی اور ڈومیسٹک گیس کے درمیان سیزنل گیس سویپس کے ذریعے سردیوں میں گھریلو گیس لوڈشیڈنگ کا خاتمہ قیمتوں میں اضافہ کئے بغیر کردیا گیا ہے۔ اضافی گھریلو صارفین کی لامحدود تعداد کیلئے اب گیس دستیاب ہے۔ ایچ ایس ایف او اور ایل ایس ایف او کا استعمال ختم کرنے، توانائی پیداوار میں زیادہ موثریت، کیپٹو توانائی پیداوار میں کمی اور سی این جی کے زیادہ استعمال سے ماحول پر بہت مثبت اثر پڑا ہے۔ ڈومیسٹک گیس درآمد شدہ گیس کی نسبت ہمیشہ سستی رہے گی خواہ پائپ لائن یا ایل این جی؛ ڈومیسٹک گیس ہمارا اثاثہ ہے جسے ہم دوسروں کو پیسے دے کر اپنے لئے زمین سے نکلواتے ہیں، درآمد شدہ پائپ لائن گیسز یا ایل این جی تھرڈ پارٹی اثاثہ ہے جسے وہ زمین سے نکالتے ہیں اور ہم سے پیسے لینے کیلئے ہمیں دیتے ہیں۔

پاکستان کیلئے بدقسمتی سے گھریلو گیس قلیل مقدار میں ہے، ہماری نئی دریافتیں موجودہ گیس کے میدانوں کے قدرتی گھٹاؤ سے مطابقت نہیں رکھ پارہے۔ تیل و گیس کی تلاش امکانی کام ہے؛ پاکستان میں تیل و گیس کی آن شور پر قابل ذکر تلاش کا امکان کم ہے، آف شور اور شیل آئل اور گیس کا امکان موجود ہے لیکن اس کی اقتصادی نتیجہ خیزی زیر غور ہے۔ پاکستان کے لئے چوائس ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر ڈومیسٹک آئل اور گیس کی دریافت ہونے کا انتظار کرے یا گیس کی درآمد کرے۔ شعور رکھنے والے ممالک انتظار نہیں کرسکتے، وہ توانائی درآمد کرتے ہیں اور اس کا موثر انداز میں استعمال کرتے ہیں؛ پاکستان نے ایل این جی کے ساتھ یہی کیا ہے۔ متبادل قابل تجدید توانائی کا معاملہ، زیادہ تر ہوا اور سولر، جو توانائی کے اسٹوریج میں کسی بھی بڑی تکنیکی پیش رفت کو روک رہا ہے،

سادہ ہے؛ یہ مالی طور پر اسی وقت مناسب ہے جب آپ کے پاس کوئی بیسڈ لوڈ حل ہو اور قابل تجدید پیداوار کی مجموعی لاگت ترجیحاً سستے ترین توانائی پیداوار رکازی ایندھن (فاسل فیول) کی لاگت سے کم ہو۔ یو ایف جی کو بہتربنانے کا سوال کچھ یہ ہے کہ یہ ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل کیلئے مستقل چیلنج ہے؛ یہ معاشرتی چیلنجز اور پاکستان کے امن و امان اور سلامتی کی صورت حال سے منسلک ہے۔ ان ماحولیاتی اصلاحات کی غیرموجودگی میں حقیقی یو ایف جی کی اصلاحات بہت ہی کم ہوں گی۔ آر ایل این جی کا بڑھتا ہوا استعمال، جیسا کہ آر ایل این جی استعمال کرنے والے ٹرانسمیشن لائنز پر سب سے زیادہ صارفین ہیں اور گیس فراہمی کی مکمل لاگت ادا کرتے ہیں، سسٹم میں قدرتی گیس کی فیصد اور حجم کے طور پر کم

مزید :

رائے -کالم -