وزیراعظم لاہور آئے، وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو پھر سے مضبوط کر گئے،
لاہور سے چودھری خادم حسین
قومی اور عوامی ترقیاتی منصوبے کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتے۔ان کی تعمیر و تکمیل قومی خزانے سے ہوئی ہے اور قومی خزانے میں جمع ہونے والی رقم عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کی جاتی ہے اس لئے جب کسی بھی ترقیاتی کام میں رکاوٹ آتی ہے تو عوام ہی کو شکائت بھی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں دیگر کئی بدعات کی طرح ایک یہ بدعت بھی ہے کہ جب کوئی چلا جائے اور آنے والا آئے تو وہ جانے والوں کے منصوبوں میں بلاوجہ تاخیر کر دیتا اور اکثر اوقات ایسے منصوبے ترک بھی کر دیئے جاتے ہیں، حالانکہ قومی اور اخلاقی تقاضا تو یہ ہوتا ہے کہ جو بھی منصوبہ زیر تکمیل ہوئے اسے مکمل کیا جائے البتہ اکثر آنے والوں کے مطابق اس میں بہتری کے لئے کوئی ترمیم مقصود ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بحث و تنقید کی بجائے، جس کا جتنا حصہ ہو اسے اس کا اجر بھی دینا چاہیے۔ اب اگر موجو دہ حکومت نے سابقہ حکومت کے منصوبوں کو مکمل کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ بہتر اور قابل تحسین ہے، چہ جائیکہ اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان لاہور ائے۔ ان کی آمد شیخوپورہ میں ایک تجارتی زون کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب قرار دیا گیا۔ یہ مقام اور منصوبہ سابقہ حکومت کا تیار کیا ہوا ہے جو تبدیلی کی وجہ سے رک گیا۔ اب موجودہ حکومت نے اسے بحال کرکے مکمل کرنے کا فیصلہ کیا تو جہاں کام رکا وہاں ہی سے شروع ہو گا۔ لیکن اسے نیا اور موجودہ حکومت کا منصوبہ قرار دیا گیا اور وزیراعظم نے سنگ بنیاد رکھا حالانکہ اسے ترقیاتی کاموں کے دوبارہ آغاز سے بھی منسوب کیا جا سکتا تھا، جب ایسا نہیں ہوا تو بھاشا دیامیر ڈیم کی طرح اسے بھی متنازعہ بنا لیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے اپنے دعوے ہیں اور موجودہ حکومت اسے اپنا کارنامہ قرار دے رہی ہے جو بھی ہے اور جیسا بھی ہو اور جس کا جتنا حصہ ہے۔ اس کا اعتراف بھی تو جمہوری انداز فکر ہے۔ اورنج ٹرین کے حوالے سے بھی ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی آمد اسی تقریب کے حوالے سے ہوئی، لیکن یہاں انہوں نے اراکین اسمبلی اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے بھی ملاقاتیں کیں۔ ان کی آمد سے قبل پنجاب میں تبدیلی کا بہت شور تھا، لیکن وہ یہاں قیام اور ملاقاتوں کے بعد جب واپس اسلام آباد روانہ ہو گئے تو ”تبدیلی“ کے غبارے سے ہوا نکل چکی تھی۔ انہوں نے پھر واضح کر دیا تھا کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہی کو ان کا اعتماد حاصل ہے اور وہی رہیں گے۔ یوں یہ غیر یقینی صورت حال پھر سے یقین میں بدل گئی۔ تاہم یہ ضرورت اپنی جگہ ہے کہ اب وزیراعلیٰ اور زیادہ اعتماد سے سرگرم ہوں اور گورننس کو بہتر سے بہتر بنایا جائے۔
تازہ ترین مسائل کا تعلق موسم برسات، مہنگائی اور عیدالاضحی کی تقریب سعید سے ہے۔ لاہور میں بارش ہو تو لکشمی چوک اور اکثر مقامات پر پانی جمع ہو جاتا ہے، واسا نے اس کا حل زیر زمین تالاب تا ٹینک بنانے کی صورت میں نکالا، لکشمی چوک میں زیر تعمیر بھی ہے۔ یہ پانی جمع کرکے بعدازاں پارکوں وغیرہ کے استعمال میں لایا جائے گا۔ اچھا منصوبہ اس کی بروقت اور نقائص سے پاک تکمیل ہی فائدہ دے سکتی ہے۔
کورونا اپنی جگہ اور عیدالاضحیٰ اپنی جگہ چل رہے۔ مویشی منڈیاں تو قائم ہو گئیں۔ تاہم شہر میں بھی سلسلہ جاری ہے۔ احتیاط اور تحفظ ساتھ ساتھ ہوں گے تو بہتری آئے گی۔ انتظامیہ کی طرف سے جو منڈیاں قائم کی گئی ہیں، وہ شامیانے لگا کر کی گئی تھیں جو آندھی اور تیز بارش میں اڑ گئے اور بیوپاریوں کو بہت پریشانی ہوئی، قیمتیں بہرحال معمول سے زیادہ ہیں، لوگ خریداری کے لئے جاتے ہیں، اگرچہ حفاظتی تدابیر کا اعلان اور دعویٰ کیا گیا لیکن عمل نہیں ہو رہا، ایسی ہی صورت حال دیگر امور کی ہے۔ مہنگائی میں مسلسل اضافہ جاری ہے اور کوئی بھی انتظامی عمل اسے کم نہیں کر پا رہا، صارفین اپنی ضروریات کو کم کرنے پر مجبور ہیں۔
اس صورت حال میں بھی سیاست گرم ہو رہی ہے۔ بلاول بھٹو پھر لاہور آ کر رابطوں میں مصروف ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر محمد شہبازشریف سے فون پر بات ہوئی تو مسلم لیگی وفد نے بھی ان سے ملاقات کی ہے۔ اس سے پہلے وہ مولانا فضل الرحمن سے بھی مسلسل رابطے میں ہیں، اب عید کے بعد کل جماعتی کانفرنس اور تحریک کا انتظار ہے۔