پاکستان، چین اورایران کا باہمی اتحاد وقت کا تقاضا
سیاست مقامی، قومی ہو یا عالمی اس میں اتار چڑھاؤ اور تبدیلیاں وقوع پذیرہوتی رہتی ہیں۔ دوستوں اور دشمنوں میں تغیروتبدل کے امکانات کوبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،اس حوالے سے سیاست اگر عالمی ہو تو بعض اوقات ممالک کی جغرافیائی حدود میں بھی تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے،اس کی سب سے بڑ ی مثال روس ہے جو ایک سپر پاور تھا ٹوٹ کرمختلف ریاستوں میں بٹ گیا۔ عالمی سطح پر سیاسی تبدیلیوں کا ان ممالک کی قیادت سے بڑا گہرا تعلق ہوتاہے اگر قیادت اہل اورعوامی امنگوں سے آشنا اور بدلتے ہوئے وقت کے تقاضوں سے بہرہ ور ہو تو یہ ملکی مفاد کے لئے خوش آئند ہوتی ہے بصورت دیگر قومی اورعالمی سطح پر نقصان کے خدشات اور احتمال ایک لازمی امر ہے۔ مملکت خداداد پاکستان کے وجود میں آتے ہی دشمنان اسلام نے اس کے خلاف اپنی ریشہ دوانیوں اورمذموم ہتھکنڈوں کا آغاز کر دیا کہ یہ واحد اسلامی مملکت ہے جو عسکری حیثیت سے مضبوط، جغرافیائی اہمیت کی حامل، گوادر کی بندرگاہ کے باعث سامان کی ترسیل کے لئے دوسرے ملکوں تک کم مسافت کی حامل تجارتی راہداری کے علاوہ دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہے جو دشمنان اسلام اورپاکستان کے مخالفوں کو کھٹکتی ہے۔ یہی وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہماری کسی بھی منتخب حکومت اور وزیراعظم کواپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی جو کسی المیہ سے کم نہیں۔یہ بجا ہے کہ اس میں ہمارے سیاستدانوں کی لغزشوں اور خامیوں کا بھی دخل ہے۔ مگر یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انہیں ملکی و قومی مفاد میں کام کرنے ہی نہیں دیا گیا اوراگر کسی نے اس سلسلے میں کوئی کوشش کی یا تواسے تاریک راہوں میں مارا گیا یا جلاوطن ہوئے یا بھر زندان سے لاش آئی۔
یہاں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وقت جیسا بھی ہو گزر جاتا ہے اورقوموں کی زندگی میں عروج وزوال کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہمارے گہرے دوست چین کوہی لے لیں جسے افیون خورقوم کہا جاتا تھا۔ وقت نے کروٹ لی ماؤزے تنگ کی شکل میں اسے فعال اور ملک وقوم سے مخلص قیادت میسر آئی اورآج وہ دینا کی سب سے بڑی اقتصادی قوت ہے اوروہ وقت دور نہیں جب وہ دنیا کی سب سے بڑی عسکری قوت بن کرسامنے آئے گا۔ ایسی ہی کچھ خبریں ہیں زبانی طیور کی کہ چین خاموشی سے جواسلحہ،جنگی جہاز اور ہتھیار تیار کر چکا ہے جو اس وقت دنیا میں کسی اورکے پاس نہیں۔30مئی 2020ء کوچین نے خلاء میں دوسٹیلائٹ کامیابی سے بھیجے ہیں اور ان میں جوٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے وہ دنیامیں پہلی باراستعمال ہوئی ہے اور اس طرح چین کوخلاء میں بھی سبقت حاصل ہوگئی ہے جو چین کے ہمسایہ ملکوں خصوصاً پاکستان کیلئے بہتر ہی ہوگی۔چین نے پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال میں بھی بھاری رقوم کی سرمایہ کاری کے معاہدے کررکھے ہیں جس پربھارت، اسرائیل اور امریکہ فکر مند ہیں کہ ان ممالک میں چین کا اثر رسوخ دنیا کے دیگر ممالک سے کہیں بڑھ کر ہوگا اور بھارت جوپاکستان کو اکیلا کرنے کی کوششوں میں پیش پیش تھا اب خود اکیلا ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ چین، ایران میں بھی بڑی سرمایہ کاری کرنے والا ہے۔ یہاں یہ حوالہ بھی بے جا نہ ہوگا کہ چین کے موجودہ صدر شی جنگ پنگ نے جنوری 2016ء میں ایران کا ایک روزہ دورہ کیا تھا جو 14برس میں کسی بھی چینی سربراہ کا پہلا دورہ تھا جس میں انہوں نے ایرانی صدرحسن روحانی اور ایران کے سپریم کمانڈرآیت اللہ علی خامنائی سے بھی ملاقات کی اوراس کے بعد ہر دو ممالک کے اعلی حکام ایکدوسرے سے رابطہ میں رہے اور اب چین اورایران میں خاصی ہم آہنگی، مفاہمت اور افہام تفہیم پائی جاتی ہے۔ چینی صدرکے مذکورہ دورہ کے دوران ان کے ساتھ چین کا ایک اعلی وفد بھی شامل تھا جس نے ایران کے اعلی حکام سے ملاقاتیں کیں اور کئی معاہدوں پر بات چیت کی۔
جس میں سیاسی، عسکری اور اقتصادی تعاون کو بڑھانے پرتبادلہ خیال کیا گیا۔ چینی صدر نے یہ دورہ ایرانی صدرکی دعوت پر کیا تھا۔ واضح رہے کہ 2014ء میں چین اورایران کے دوران 52ارب ڈالرز کی تجارت ہوئی جس کے بڑھنے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ ایران کے شنگھائی تعاون کونسل کے ممبر بننے کی خبریں بھی مستقبل قریب میں سننے کو ملیں گی۔ ایران، عراق جنگ میں چین ایران کوسب سے زیادہ اسلحہ فراہم کرنے والا ملک تھا۔جبکہ ایران چین کوآئل اورگیس سپلائی کرتا ہے۔ اس بات کوبھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن کے منصوبے سے بھارت کونکالنے کے بعد اب چین تیسراملک ہوگا جواس منصوبے کا حصہ ہوگا۔ نومبر1979ء میں امریکہ اوراس کے اتحادیوں نے ایران پرپابندی عائد کرکے امریکہ میں موجود ایران کے بینک اکاونٹس، سونا اوردیگرجائیدادیں جو12ارب ڈالرزمالیت کی تھیں منجمد کردیں۔1981ء میں یہ پابندیاں ختم کردی گئیں۔ ایران پرمختلف ادوارمیں چار مرتبہ پابندیاں عائد کی گئیں،دوسری بار رونالڈ ریگن کے دورحکومت میں 1987ء کویہ پابندیاں دوبارہ عائد کردی گئیں جو1995ء تک جاری رہیں۔
تیسری بار 2006ء میں ایران کے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد 1696جس میں کہا گیا تھا کہ ایران یورنیم کی افزودگی کا پروگرام ختم کردے۔ ایران کے انحراف کے بعد ایک بار پھر ایران پابندیوں کی زد میں آگیا پھر 18اکتوبر2015ء میں P5+1 ابھی عبوری معاہدہ کے تحت جوسوئٹزرلینڈ میں طے پایا جس میں کہا گیا تھا کہ ایران یورنیم کی افزودگی کا پروگرام ختم کردے گا اور بلاسٹک کی تیاری روک دے۔16جنوری 2016میں پابندیاں اٹھائی گئیں اور پھرچوتھی بارنومبر2018ء میں دوبارہ پابندیاں عائد کی گئیں اور وجہ یہ بتائی گئی کہ ایران نے معاہدے کاپاس نہیں کیا اور بالآخر21فروری2020میں ایران کو ایف اے ٹی ایف (FATF) کے تحت بلیک لسٹ کردیا گیا۔
ایران جو ایک خود مختار آزاد ملک ہے جب اسرائیل اورامریکہ نے اس پرپابندیوں کی انتہا کر دی تو اس نے اپنی بقا اوراستحکام کیلئے نئے راستے اورطریقے استعمال کرنے تھے اور یوں ایران اورچین قریب ترہوتے گئے اور اب عالمی سطح پر ایک نئی تثلیث ترتیب پانے والی ہے جس میں پاکستان، چین اورایران شامل ہوں گے جلد یا بدیرترکی کے بھی اس میں شامل ہونے کی خاصی توقعات ہیں۔ ایران کی سرحدیں اور حدود پاکستان، افغانستان، آذرئیجان، عراق، ترکی اورترکمانستان سے جا ملتی ہیں اور ان ممالک پرمشتمل سیاسی، عسکری اورتجارتی اتحاد ورابطہ بہت جلد منظر پر آنے والا ہے جس میں قابل ذکربات یہ ہے کہ اس میں پاک فوج کاایک کلیدی اوراہم کردارہے جو قابل تحسین اورقابل قدر ہے۔اس تثلیث کے قیام کے بعد بھارت، اسرائیل اور امریکہ کو منہ کی کھانا پڑے گی اوراس تثلیثی ممبر ممالک باہمی تجارت بھی ڈالر کے بجائے اپنی کرنسیوں میں ہو گی، جس سے امریکی معیشت کو ایک قابل ذکر دھچکہ لگے گاکیونکہ جب یہ تینوں ممالک جب اپنی باہمی تجارت مقامی کرنسیوں میں کریں گے تو یہ ایک نیا ٹرینڈ ہوگا جسے دنیا کے دیگر ممالک تیزی سے اپنائیں گے کہ ڈالرمیں تجارت سے ان کو جو خسارہ برداشت کرنا پڑتا تھا وہ مقامی کرنسی میں نہیں ہوگا۔