اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے اپنے اغواءاورپھر رہائی کے حوالے سے عدالت عظمیٰ میں بیان دیتے ہوئے بتایا کہ ان کے اغواءکا توہین عدالت کے مقدمے سے براہ راست تعلق ہے اور وہ ان حالات کے بارے میں تفصیل سے جواب دینا چاہیں گے ۔صحافی مطیع اللہ جان نے سپریم کورٹ کو بتایا میرے اغوا کا توہین عدالت کے مقدمے سے تعلق جڑتا ہے۔چیف جسٹس نے پوچھا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔صحافی مطیع اللہ نے جواب دیا مجھے کس طرح دھمکیاں دی گئیں،کیا ہوتا رہا اس سے لنک ہے۔چیف جسٹس نے کہا آپ نے جو کہنا ہے تحریری جواب مین دیں،گفتگو میں احتیاط برتیں۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سینئر صحافی اور کالم نگار مطیع اللہ جان کیخلاف توہین عدالت ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا آغا ز مطیع اللہ جان کے اغوا سے کیا۔
توہین عدالت کیس میں سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ گزشتہ روز کیا ہوا؟ ہم نے بی بی سی اور سی این این پر دیکھا کہ اس کیس میں مبینہ توہین عدالت کے مرتکب کو اغوا کیا گیا؟ کیا پولیس نے بازیابی کے بعد مطیع اللہ جان کا بیان ریکارڈ کیا؟اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ‘حکومت کیا کر رہی ہے؟ محکمے کیا کر رہے ہیں؟ اسلام آباد پولیس کے سربراہ کہاں ہیں؟ جب یہ ملے تو بیان کیوں ریکارڈ نہیں کیا گیا؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ مطیع اللہ جان کے بھائی جنہوں نے مقدمہ درج کرایا تھا انہوں نے کہا ہے کہ توہین عدالت سوموٹو کیس کی وجہ سے بیان ریکارڈ نہیں کرا سکے۔
چیف جسٹس نے کہا کیا مطیع اللہ جان خود اغوا ہوئے اور پھر خود واپس بھی آگئے؟؟اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی مطیع اللہ جان کے اغواکے معاملے پر کارروائی کی ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا صحافی مطیع اللہ جان کا ابھی تک بیان کیوں قلمبند نہیں کیا گیا،حکومت کے محکمے کیا کر رہے ہیں،آئی جی اسلام آباد پولیس کو ابھی بلائیں ان سے پوچھ لیتے ہیں پہلے بیان قلم بند ہونا چاہیے تھا۔جسٹس اعجا زالااحسن نے کہا مطیع اللہ جان کے بھائی نے ایک تحریری لکھی ہے کہ انکے بھائی واپس آگئے ہیں اس کی قانونی حیثیت کیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا صحافی کا بیان قلمبند ہونے کے بعد معاملہ قانون کے مطابق آگے بڑھے گا،یہ بہت سنگین معاملہ ہے،قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد حقائق سامنے آجائیں گے۔اٹارنی جنرل نے کہا حکومت نے معاملے پر ایکشن لیا ہے بلاتفریق کارروائی کی جائے گی۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے صحافی مطیع اللہ جان سے پوچھا کیا آپ نے کوئی جواب داخل کرایا ہے۔ صحافی مطیع اللہ جا ن نے جواب دیا میں اغو ا کے باعث جواب نہیں دے سکا،مجھے تحریری جواب جمع کرانے اور وکیل کرنے کیلئے وقت درکار ہے۔مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد اور صحافی مطیع اللہ جان کے درمیان ایک دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔ صحافی مطیع اللہ جان نے کہا مجھے شفاف ٹرائل اور مکمل دفاع کا موقع ملنا چاہیے۔چیف جسٹس گلزار احمد نے مسکرا کر صحافی مطیع اللہ جان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں آپ کو شفاف ٹرائل کا مکمل موقع ملے گا،جانبداری نہیں برتی جائے گی۔
عدالتی حکمنامے میں کہاگیا پولیس صحافی مطیع اللہ جان کا بیان ریکارڈ کر کے قانون کے مطابق کارروائی کرے،آئی جی اسلام آباد پولیس آئندہ سماعت پر پولیس کی کارروائی سے متعلق تحریری جواب پیش کریں۔عدالت نے صحافی مطیع اللہ جان کو وکیل کرنے اور جواب داخل کرانے کیلئے وقت دیتے ہوئے سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔