معروف صحافی مطیع اللہ جان کےاغوا کے وقت پھینکا جانے والا موبائل اب کہاں ہے ؟تشویش ناک انکشاف سامنے آگیا

معروف صحافی مطیع اللہ جان کےاغوا کے وقت پھینکا جانے والا موبائل اب کہاں ہے ...
معروف صحافی مطیع اللہ جان کےاغوا کے وقت پھینکا جانے والا موبائل اب کہاں ہے ؟تشویش ناک انکشاف سامنے آگیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)معروف صحافی اور تجزیہ کار مطیع اللہ جان مبینہ اغوا کے بعد رات گئے خیر و عافیت کے ساتھ اپنے گھر واپس پہنچ چکے ہیں تاہم ان کے اغوا کی باز گشت آج بھی سنائی دے رہی ہے اور سیاسی و صحافتی حلقوں میں مطیع اللہ جان کا پراسرار طور پر لاپتا ہونا اور پھر رات گئے اغوا کاروں کی جانب سے "فتح جنگ "کے علاقے میں انہیں چھوڑنا موضوع بحث بنا ہوا ہے ،قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات میں ایس ایس پی اسلام آباد نے انکشاف کیا ہے کہ مطیع اللہ جان کا موبائل اغواء کرنیوالے ساتھ لے گئے تھے لیکن موبائل بند ہونے کی وجہ سے لوکیشن نہیں مل رہی تاہم ہماری ٹیکنیکل ٹیم اس حوالے سے کام کر رہی ہے جلد ہی سراغ مل جائےگا۔

تفصیلات کے مطابق قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی میاں جاوید لطیف کی زیر صدارت منعقدہوا جس میں میاں جاوید لطیف  نے کہا کہ اسلام آباد میں مطیع اللہ جان کا واقعہ رونما ہونا افسوسناک ہے،شبلی فراز صاحب کی جانب سے مطیع اللہ جان بارے اغواء کا کہنا ہی بنتا ہے،اگر خدانخواستہ ولی بابر جیسا واقعہ ہوتاتوکیا ہم یہاں فاتحہ پڑھتے اور چلے جاتے؟میر شکیل الرحمن پانچ ماہ سے جیل میں بند ہے،اگر لکھنے والے اور غلطیوں کی نشاندہی کرنے والے محفوظ نہیں تو کوئی اور محفوظ کیاہوگا؟۔

وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فرازنے کہا کہ مطیع اللہ جان کا واقعہ بڑا تشویشناک ہے،اللہ کا شکر ہے کہ وہ بغیر نقصان کے اپنے گھر پہنچ گئے،صحافی سندھ،پنجاب سمیت کہیں کے ہوں سب کی حفاظت ہونی چاہیے،ہماری کوشش ہے کہ صحافتی برادری کو تحفظ ملے،ہم نے آئی جی سے بھی بات کی تھی،امید کرتا ہوں کہ اس قسم کا واقعہ نہیں ہونا چاہیے۔اس موقع پر ایس ایس پی انویسٹی گیشن اسلام آباد پولیس ڈاکٹر مصطفی نے کہا کہ مطیع اللہ جان کا واقعہ منگل کو صبح سوا گیارہ بجے کا ہے،ڈیڑھ بجے انکی اہلیہ کو معلوم ہوا اور تین بجے تھانے میں اطلاع پہنچی،ہم اْنکا کریمنل ریکارڈ چیک کرتے رہے اور اس دوران مطیع اللہ واپس آگئے،رات کو بیان لینے گئے تو انہوں نے آج کا کہا،آج ان سے بیان لینے جانا ہے،مطیع اللہ جان کے اغوا کا مقدمہ رجسٹر کر لیا گیا ہے،جس علاقے سے اغوا کیا گیا اس کی جیو فینسنگ کی گئی ہے،سی سی ٹی وی فوٹیج کو فرانزک کیلئے بھجوایا جارہا ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ واقعے کو بچوں نے دیکھا ہو گا ان پر کیا بیت رہی ہوگی؟مطیع اللہ جان کو دھمکیوں بارے آپکے علم میں کوئی بات تھی؟سب کے علم تھا کہ دھمکیاں دی جارہی ہیں انکے تحفظ  کے لیے کیوں اقدام نہیں اٹھایا گیا؟15 دن میں ملزم گرفتار ہونے چاہیے۔ رکن کمیٹی مریم اورنگزیب نے کہا کہ پولیس مطیع اللہ جان کو بازیاب کیوں نہ کروا سکی؟14 گھنٹے صحافی کو لاپتہ رکھا گیا پولیس کیا کر رہی تھی؟ایک بجے کے بعد صحافی کا اغوا کنفرم ہو چکا تھا تو پولیس کو 2 گھنٹے تاخیر سے کیوں پتہ چلا؟۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کیا آپ نے اس واقعے کے بعد کوئی علاقہ سیل کیا؟پولیس حکام نے کہا کہ دیگر صوبوں تک اس واقعے کی اطلاع دی گئی تھی،دو کیمروں کے علاوہ سی سی ٹی وی کیمرہ فوٹیج بھی دیکھ رہے ہیں۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ مطیع اللہ جان کا موبائل اغواء کرنیوالے ساتھ لے گئے، موبائل کی لوکیشن کیا آرہی ہے؟پولیس حکام نے کہا کہ ہماری ٹیکنکل ٹیم کام کررہی ہے موبائل بند ہونے کی وجہ سے لوکیشن نہیں مل رہی۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایس ایس پی صاحب ایسا نہ کریں اگر آپ کی بات کرنے میں کوئی لیمیٹیشن ہے تو صاف بتا دیں؟جس پر ایس ایس پی کمیٹی میں خاموش ہوگئے۔کمیٹی کی جانب سے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کے واقعے کی مذمت کی گئی اورچیئرمین قائمہ کمیٹی نے15 روز میں ملزمان کی گرفتار کرنے اور وجوہات کی رپورٹ مانگ لی اور کہا کہ مطیع اللہ جان کے اغوا کی وجوہات کیا ہیں،15 روز میں ملزم گرفتار کئے جائیں اور بتایا جائے کہ اغوا کار کون تھے۔