تفہیم ِاقبال: گلشنِ راز (جدید) (1)
اقبال کا دو تہائی کلام فارسی میں ہے۔ان کی یہ پہلی تین شعری کتب فارسی زبان میں شائع ہوئیں:
1۔اسرارِ خودی…… 1915ء
2۔رموزِ بے خودی…… 1919ء
3۔پیامِ مشرق…… 1923ء
ان کی پہلی شعری تصنیف جو اردو میں تھی (بانگِ درا) وہ 1924ء میں شائع ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو اردو کی نسبت فارسی زبان سے زیادہ لگاؤ تھا۔ بانگِ درا کے دیباچے میں شیخ عبدالقادر نے بھی اس کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے لندن میں قیام کے دوران جو اشعار اقبال سے سنے تھے،وہ فارسی میں تھے، اردو میں نہیں تھے۔ لیکن اس کے باوجود اقبال نے اسرارِ خودی کی ”تمہید“ میں یہ کہا ہے کہ:
ہندیم از پارسی بیگانہ ام
از خمستانم تہی پیمانہ ام
(میں ہندوستانی ہوں اس لئے فارسی سے بیگانہ ہوں اور فارسی زبان کے شراب خانے میں میرا پیالہ خالی ہے)
لیکن اگلے ہی شعر میں گویا اس وعدے کی تکذیب کر دی ہے اور کہا ہے:
گرچہ ہندی در عذوبت شکراست
طرزِ گفتارِ دری، شیریں تراست
(ہندوستانی زبان (اردو) اگرچہ بہت شیریں ہے لیکن فارسی زبان اس سے زیادہ میٹھی ہے)
شعراء کے ہاں یہ شاعرانہ تعلیاں عام ملتی ہیں اور انہیں شعر کا حسن شمار کیا جاتا ہے۔ غالب نے اگرچہ یہ کہا تھا:
فارسی بیں تابہ بینی نقش ہائے رنگارنگ
بگذر از مجموعہء اردو کہ بے رنگِ من است
(میری فارسی شاعری کو دیکھو کہ جس میں طرح طرح کے رنگین نقش ہیں اور اردو کو چھوڑو کہ وہ بالکل بے رنگ اور غیر دلچسپ ہے)
لیکن ہم جانتے ہیں کہ غالب کی شہرت ان کے اردو کلام کی بدولت ہوئی۔ان کا فارسی کا دیوان، اگرچہ اردو کے دیوان سے زیادہ ضخیم ہے لیکن اس کے شاید دو چار اشعار ہی زبان زدِ خاص و عام ہو سکے ہیں جبکہ اردو کا چھوٹا سا دیوان اکثر ادیبوں اور شاعروں کو ازبر ہے۔
کئی قارئین یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ ایک تو اقبال کا اردو کلام ہی اتنا مشکل ہے کہ بیشتر حضرات (اور خواتین) اِدھر کا رخ نہیں کرتے چہ جائیکہ کہ ان کی کسی فارسی تصنیف پر تبصرہ کیا جائے اور دوسرے پاکستان کی موجودہ سیاسیات کے تناظر میں زبورِعجم جیسی فارسی اشعار کی کتاب کا ذکرچہ معنی دارد؟……ان دونوں اعتراضات کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم انگریزی زبان کی کسی کلاسیک کو ہنسی خوشی برداشت کرلیتے ہیں تو فارسی زبان سے تو ہمارا ادبی، ثقافتی اور لسانی تعلق بمقابلہ انگریزی بہت زیادہ ہے۔ اس لئے اگر اس کتاب (زبورِ عجم) میں کوئی ایسا موضوع ڈسکس کیا گیا ہو جس کا ربط و ارتباط پاکستان کی حالیہ سیاسیات سے بھی ہو(اور بدرجہء اتم ہو) تو اس پر تبصرہ کرنے اور پڑھ لینے میں کیا ہرج ہے؟ اور ویسے بھی کسی زبان کی کلاسیک کامطالعہ اگر قاری کی معلوماتِ عامہ میں اضافہ کرے تو اس خشک موضوع کو گوارا کرلینے میں کچھ باک نہیں ہونا چاہیے۔ اس کتاب پر تبصرہ کرنے کی تیسری وجہ علامہ کا وہ شعر ہے جس میں انہوں نے خود تاکید کی ہے کہ اس کا مطالعہ کیا جائے، کیونکہ یہ ان کی فغانِ نیم شبی کا حامل ہے:
اگر ہو ذوق تو خلوت میں پڑھ زبورِ عجم
فغانِ نیم شبی بے نوائے راز نہیں
زبورِ عجم کے چار حصے ہیں …… حصہ اول میں 56 اور حصہ دوم میں 75غزلیات ہیں۔ کل ملا کے یہ چھوٹی بڑی 131غزلیں بن جاتی ہیں۔ حصہ سوم ایک الگ مثنوی ہے اور حصہء چہارم بھی ایک اور مثنوی ہے۔یہ دونوں مثنویاں نہایت مختصر ہیں۔ اول الذکر مثنوی کا نام ’گلشن راز جدید‘ اور ثانیء الذکر کا عنوان ’بندگی نامہ‘ ہے۔
اب اس مختصر تبصرہ میں، میں علامہ کی مثنوی ”گلشن راز جدید“ کا کچھ ذکر کرنے کی جسارت کروں گا۔ پہلا سوال جو قاری کے ذہن میں ابھرے گا وہ یہ ہوگا کہ ”مثنوی“کیا ہے؟…… مثنوی کو دو مصرعی بھی کہا جاتا ہے۔اس کے دونوں مصرعے ہم ردیف ہوتے ہیں۔ اس میں ایک ہی موضوع کو مسلسل ڈسکس کیاجاتا ہے اور اس کی بحرنسبتاً چھوٹی ہوتی ہے۔ اردو اور فارسی کے تقریباً ہر معروف شاعر نے اس صنفِ سخن کو آزمایا ہے اور اس میں اپنے مافی الضمیر کا اظہار کیا ہے۔
اگر گلشن راز ”جدید“ ہے تو کوئی گلشن راز ”قدیم“ بھی ہوگا، وہ قدیم گلشن راز کیا ہے؟ پہلے تو میں ایک ذاتی الجھن بھی بیان کرنا چاہوں گا۔ وہ یہ ہے کہ جب میں زمانہء طالب علمی میں اقبال کی کلیات فارسی کا مطالعہ کر رہا تھا تو زبورِ عجم کی کئی غزلوں کا لسانی اور معنوی حسن اتنا دلکش اور پُرکشش تھا کہ میں کئی منظومات کو بار بار تلاوت کرتا تھا اور ان میں موسیقی کی جو لسانی لہریں رواں دواں ہیں، ان کا مزہ لیتا تھا۔لیکن جب آخر میں ”گلشن راز جدید“ کو پڑھتا تھا تو اس مثنوی کی بحر، زبان کو وہ چٹخارے نہیں دیتی تھی جو کلامِ اقبال کی دوسری نظموں، غزلوں اور دوسری اصنافِ سخن کی قرأت کرتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ چنانچہ میں نے ان دونوں مثنویوں (گلشن راز جدید اور بندگی نامہ) کو ایک طرف کرکے رکھ دیا اور سوچا کہ جب فرصت ملی تو ان خشک اشعار کی قرأت و تفہیم کا بندوبست کروں گا۔
ایک دوست نے چند دن پہلے زبورِ عجم کی طرف توجہ دلائی اور پوچھا: ”کیا آپ نے اقبال کی مثنوی ”گلشن راز جدید“ کا مطالعہ کیا ہے؟ میں نے نفی میں جواب دیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اس مختصر مثنوی کو ضرور پڑھیے: اس میں بہت سے مابعدالطبیعاتی موضوعات پر بحث کی گئی ہے اور چونکہ یہ مثنوی اقبال کے اس مقالے کے 20برس بعد لکھی گئی جس پر ان کو جرمنی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی تھی اور جس کا عنوان ”ایران میں مابعد الطبیعات کا ارتقاء“ تھا، اس لئے اس میں کئی ایسے صوفیانہ اور فلسفیانہ موضوعات پر نقد و نظر کیا گیا ہے جو1907ء میں اقبال کے پیش نظر نہیں تھے۔ چنانچہ میں نے اس مثنوی کی طرف توجہ دی۔
یہ مثنوی محمود شبستری کی مثنوی ”گلشن راز“ کے جواب میں لکھی گئی۔ محمودشبستری کوئی پروفیشنل شاعر نہیں تھے۔ تبریز سے 10میل دور شبستر نام کے گاؤں میں 1287ء میں پیدا ہوئے اور 33 برس کی عمر میں 1320ء میں تبریز میں وفات پائی۔ (یہ شہرایران اور ترکی کی سرحد پر ایک مشہور و معروف شہر ہے) یہ چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کا زمانہ تھا۔ اس دور کے ایک صوفی سید امیر الحسینی نے محمود شبستری سے چند ایسے سوال پوچھے تھے جن کا تعلق مابعد الطبیعاتی موضوعات سے تھا۔ مثلاً خدا کیا ہے، انسان کیا ہے، موت کے بعد انسان پر کیا گزرے گی، نیکی اور بدی کیا ہے اور گناہ و ثواب کیا ہیں؟…… یہ سوالات جن کی تعداد 15تھی، شعر کی زبان میں پوچھے گئے تھے اور محمود نے شعر ہی کی زبان میں ان کا جواب دیا تھا۔اس سوال و جواب کا نام ”گلشن راز“ رکھا گیا اور چونکہ یہی سوال حضرت اقبال کے ڈاکٹریٹ کے مقالے کا موضوع بھی تھے اس لئے اقبال ان پر سوچ بچار کرتے رہے اور 1927ء میں ان کی یہ ”سوچ بچار“ ”گلشن راز جدید“ کے نام سے منظر عام پر آئی اور اقبال نے اس مختصر نظم کو زبورِ عجم میں شامل کرلیا۔
راقم السطور نے جب اس مثنوی کا مطالعہ کیا تو اقبال کے پی ایچ ڈی کے مقالے کی تفہیم اور اردو ترجمے میں پیش آمدہ کئی مشکلات کا حل نکل آیا۔
(جاری ہے)