سوات ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) سوات کی تحصیل خوازہ خیلہ کے گاؤں چالیار میں ایک انتہائی افوسناک واقعہ پیش آیا، جہاں مدرسے میں زیرِ تعلیم 14 سالہ طالبعلم فرحان مبینہ طور پر اپنے اساتذہ کے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بن کر جاں بحق ہو گیا۔ فرحان کی لاش کو قانونی کارروائی کے لیے خوازہ خیلہ اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں سے پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے مدرسے کے 2 اساتذہ کو حراست میں لے کر تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔
مقامی آبادی اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس واقعے کی شدید مذمت کی اور کہا ہے کہ بعض حلقوں کی جانب سے ایسے واقعات کو دینی نظام تعلیم کو بدنام کرنے کے لیے اچھالا جاتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ایسے واقعات پر پردہ ڈالا جائے گا، تو کیا اس نظام کی ساکھ بچ جائے گی یا مزید بگڑ جائے گی؟ کیا بچوں پر ظلم روا رکھنا کسی بھی طور قابلِ برداشت ہے؟فرحان اب ہم میں نہیں رہا، لیکن اگر ہم واقعی اس کے خون کے قرض دار ہیں، تو ہمیں اس واقعے کو مثال بنانا ہو گا۔ انصاف صرف گرفتاری سے نہیں، بلکہ اس سوچ کی جڑیں کاٹنے سے قائم ہو گا جو استاد کو ظالم، اور طالبعلم کو بے زبان بنا دیتا ہے۔