یوم تکبیر، فکراقبالؒ کی روشنی میں
چیمبر آف کامرس فیصل آباد کے اراکین سبھی تاجر ہیں۔جمع، تفریق اور ضرب کے ماہر ہیں۔ان کے شب و رز دو کو چار اور چار کو آٹھ بنانے میں بسر ہوتے ہیں۔ان میں کچھ صاحب ذوق لوگ بھی ہیں، جو من کی دنیا میں رہتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک شخصیت شیخ بشیر صاحب کی بھی ہے۔ماہ و سال کو پیمانہ ٹھہرائیں تو اسی کے پیٹے میں ہوں گے۔کبرسنی کے باوجود کبرسنی کی تہمت سے دور،جوان ذہن رکھتے ہیں۔متحرک ہیں، دوسروں کو متحرک رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔بہت سے اکابر کی صحبتیں اٹھائیں۔ان کی مجلس میں بیٹھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا ذہن اسلاف کی یادوں کا خزینہ ہے۔پاس بیٹھنے والوں کو سنانے پر آئیں تو ماضی کے اوراق کو آندھی کی طرح پلٹتے اور اڑاتے چلے جاتے ہیں۔تشکیل پاکستان سے قبل تعلق مجلس احرار سے بھی رہا۔برصغیر کے عظیم خطیب سید عطاءاللہ شاہ بخاری کو قریب سے دیکھا، بلکہ بہت ہی قریب سے دیکھا۔قلم کی دنیا کے عظیم قلمکار آغا شورش کاشمیری سے ان کی دوستی رہی۔صحافت کے شہسوار مولانا ظفر علی خان کاشہر وزیرآباد ان کا جم پل ہے۔ان صلاحیتوں کا مالک اپنی خو چھوڑے تو بھی نچلا نہیں بیٹھ سکتا۔
شیخ صاحب کو علامہ اقبالؒ سے عشق ہے۔121اپریل کو ہر سال لاہور جاتے ہیں اور یوم اقبال کی تقریب میں شرکت کرنا ان کا معمول ہے۔اس سفر میں اکیلے نہیں، بلکہ بہتوں کو ساتھ لے کر جانا ان کا وصف ہے۔انہی کی تحریک پر 28مئی کو چیمبر آف کامرس کے خوبصورت ہال میں یوم تکبیر کی پروقار تقریب منعقد ہوئی۔اس تقریب کو شیخ صاحب نے فکر اقبال سے نتھی کیا تھا۔لاہور سے اوریا مقبول جان اور پسرزادئہ اقبال ولید اقبال بھی شرکت کے لئے آئے۔خانوادئہ سلطان باہوؒ کے فرزند صاحبزادہ سلطان احمد علی مہمان خصوصی تھے۔فیصل آباد کے مقررین میں راقم الحروف کے علاوہ مجلس اقبال فیصل آبادکے سرپرست، آغا شورش کاشمیری کے ہم سفر، ہفت روزہ چٹان کے نائب ایڈیٹر اقبال فیروز، خواجہ اسلام اور دیگر حضرات شامل تھے۔صدارت کے فرائض فیصل آباد چیمبر آف کامرس کے صدر نے سرانجام دیئے۔
صہیب رشید نقیب تقریب تھے۔تلاوت ڈاکٹر قاری صولت نواز نے کی۔معروف نعت خواں حافظ مرغوب ہمدانی نے کلام اقبال سے حاضرین کو مسحور ہی نہیں، بلکہ مخمور کیا۔نظریہءپاکستان فورم کے صدر میاں عبدالکریم نے حاضرین اور مہمانوں کے لئے استقبالی کلمات کہے۔ اقبال فیروز صاحب نے موضوع کی مناسبت سے پہلا مقالہ پڑھا۔آپ نے فرمایا....28مئی کا دن پاکستان کی تاریخ میں اہم ہے اور رہے گا،لیکن اس دن کی اہمیت یہ بھی ہے کہ ماضی میں مسلمانوں نے قسطنطنیہ کوفتح کیا تو وہ دن بھی 28مئی ہی کا تھا۔اقبالؒ کی فکر ہمیشہ مسلمانوں کی رہنمائی کرتی رہے گی۔
پسرزادئہ اقبال ولید اقبال نے تاخیر سے آمد پر معذرت کی اور وجہ ءمعذرت بیان کرتے ہوئے کہا کہ لوڈشیڈنگ سے تنگ لوگوں کا جلوس تھا۔پولیس والوں نے راستے روک رکھے تھے۔گھوم گھما کر آنا پڑا۔اسی دوران ایک ایس ایم ایس موبائل پر موصول ہوا، لکھا تھا کہ ”اقبال نے اپنے کلام سے پون صدی قوم کو جگانے کی کوشش میں صرف کی، لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔یہ کام آصف علی زرداری اور سید یوسف رضا گیلانی نے آسانی سے سرانجام دے دیا۔آج کل ساری قوم جاگ رہی ہے“.... اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ انسانی زندگی میں سب سے بڑا تکبر زہدکا تکبر ہوتا ہے۔اقبالؒ نے مسلمانوں کو اس تکبر سے بچنے کی تلقین کی۔نیز تسخیر کائنات کا نظریہ دیا جو مسلمانوں کے لئے عروج کا زینہ ہے۔
اس موقع پر راقم نے جو گفتگو کی، اس کی تلخیص اس طرح تھی کہ علامہ اقبال مسلمانوں کے محسن ہیں۔ان کا کلام مردہ دلوں کی جلا کا باعث ہے۔یہ بات بھی واضح ہے کہ فکراقبال قرآن سے مستنیر ہے۔علامہ مثنوی اسرارو رموز میں فرماتے ہیں:
گردلم آئینہ ءبے جوہر است
اگر میرے دل کا شیشہ بے جوہر ہے
در بحرفم غیر قرآں مضمر است
اگر میرے اشعار میں قرآن کے علاوہ کسی اور کی ترجمانی ہے
پردئہ ناموسِ فکرم چاک کُن
تو اے میرے رب تو میری سوچ اور فکر کے پردے کو چاک کردے
این خیابان راز خارم پاک کن
اس خیابان کو میرے کانٹوں سے صاف کردے
روز محشر خوار و رسوا کن مرا
اور قیامت کے دن مجھے ذلیل و رسوا کردینا
بے نصیب از بوسہ ءپاکن مرا
اور رسول اللہ کی قدم بوسی کی سعادت سے بھی محروم کردینا
لوگ فکر اقبال کو محصور کردیتے ہیں۔بعض کے ہاں اقبال ماضی کا شاعر تھا۔بعض اقبال کو حال کا شاعر کہتے ہیں۔بعض نے اقبال کو مستقبل کا شاعر قرار دیا، لیکن اصلاًاقبال کائنات کا شاعر ہے، کیونکہ فکر اقبال قرآن سے مستنیر ہے اور قرآن کتاب کائنات ہے، جوماضی حال اور مستقبل کی حد بندیوں سے آزاد ہے۔ہر دور، ہر زمانے کے لئے روشنی دیتی ہے۔ یوم تکبیر28مئی 1998ءکی بات ہے، لیکن اقبالؒ نے اس کی نشاندہی نصف صدی قبل کردی تھی۔اقبال نے کہا:
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو
قوت باطل کیا کہ ہے غارت کر باطل بھی تو
باطل کی غارت گری کے لئے جدید سے جدید ٹیکنالوجی کا حصول مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے،جس سے مسلمانوں کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔
اپنے دشمنوں کو مرعوب رکھنے کے لئے ہمیشہ اپنی بساط اور طاقت کے مطابق پوری تیاری رکھو۔جنگی سازوسامان، پلے ہوئے گھوڑے ،جن کے ذریعے تمہارا رعب داب دشمنوں پر قائم رہے، تاکہ تمہارا دشمن اور تمہارے رب کا دشمن ہمیشہ تم سے خوفزدہ رہے اور اسے تمہاری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تمہاری طرف دیکھنے کی جرات ہی نہ ہو سکے۔اسی جذبے کو ختم کرنے کے لئے پورا یورپ مسلمانون کو ایٹمی قوت بننے سے روکنے پر تلا ہوا ہے۔اسی مقصد کے لئے یورپ نے ڈیڑھ صدی قبل مرزا غلام احمدکے ذریعے مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ جہاد بالسیف اب منسوخ ہوچکا ہے۔علامہ اقبالؒ نے اس غلط نظریئے سے مسلمانوں کو بروقت خبردار کیا اور کہا:
باطل کے قال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ یورپ سے درگزر
پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور 28مئی کو ایٹمی دھماکہ کرنا اللہ کے حکم کی تعمیل کا تسلسل ہے۔ اس حوالے سے ماضی میں جس جس حکمران یا سائنسدان نے جو خدمت بھی سرانجام دی وہ اصلاً حکم الٰہی کی تعمیل تھی۔اگر یہ دھماکہ نہ کیا جاتا تو من حیث القوم پوری دنیا کے مسلمان اللہ کے حکم کی حکم عدولی کے مرتکب ہوتے۔عالم اسلام کی طرف سے یہ فرض کفایہ تھا، جس کی ادائیگی پاکستان کے نصیب میں آئی۔یورپ سے ڈرنے اور خوف کھانے کی ہرگز ضرورت نہیں، کیونکہ مسلمان صرف اللہ ہی سے ڈرتا ہے۔اللہ کے سوا کسی اور طاقت کا خوف دل میں رکھنا شرک ہے۔ہر قسم کے شرک کی نفی مسلمان کی امتیازی شان ہے۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الٰہ
مسلمان اس بات کا پابند بھی ہے کہ توحید کی دعوت کو عام کرے۔علامہ فرماتے ہیں:
تانہ آمد بانگ حق از عالمے
گر مسلمانی نیا مسائی دمے
جب تک پوری دنیا میں توحید کی آواز بلند نہ ہو جائے ، اگر تو صحیح مسلمان ہے تو اس وقت تک تجھے چین سے نہیں بیٹھنا چاہیے۔یہ توحید کی آواز یورپ ہی میں نہیں ،پوری دنیامیں پھیلے گی۔انشاءاللہ ساری دنیا میں اللہ کی کبریائی، اللہ کی بڑائی اور عظمت کا ڈنکا بجے گا۔کفر کی تمام ظلمتیں چھٹ کر رہیں گی۔اسلام کے نور سے دنیا منور ہوگی:
شب گریزاں ہوگی آخر جلوئہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ ءتوحید سے