دوہری شہریت اور دوہری شخصیت

دوہری شہریت اور دوہری شخصیت
دوہری شہریت اور دوہری شخصیت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی محترمہ فرخ ناز اصفہانی کی اسمبلی رکنیت ان کے امریکی شہری اور رحمان ملک کی سینٹ کی رکنیت برطانوی شہری ہونے کی بنیاد پر معطل کر دی ہے، جبکہ چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ غیر ملکی ہماری اسمبلیوں میں بیٹھ کر قوم کی تقدیر کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں؟.... ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ دیر سے سہی، کسی کو اس کا خیال تو آیا، لیکن اصل مسئلہ دوہری شہریت کا نہیں، بلکہ ” دوہری شخصیت“ کا ہے۔ مشاہدہ یہی ہے کہ ہر خاندان، محلے اور جاننے والوں میں ضرور ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو زندگی پھر ایک ہی نظریہ رکھتے اور ایک ہی پارٹی سے وابستہ رہتے ہیں اور اگر پارٹی چھوڑتے ہیں تو معقول وجوہات اور واضح دلائل رکھتے ہیں۔ ہزار اختلافات کے باوجود معاشرہ ان کی اسی وجہ سے عزت پر مجبور ہوتا ہے اور یہ لوگ ہیں بھی تکریم کے قابل....مگر یہ کیسے لوگ ہیں جو مینڈک کی طرح پُھدکتے، کبھی ایک پارٹی سے دوسری، دوسری سے تیسری اور تیسری سے پھر پہلی پارٹی میں چلے آتے ہیں۔ نہ ان کو شرم آتی ہے اور نہ ہی ان کو جو بار بار ان ”لوٹوں“ کو قبول کرتے ہیں۔ آئین و قانون اگر انہیں روکنے میں کسی وجہ سے مانع ہے تو کم از کم اخلاقیات کا اصول تو انہیں یاد ہونا چاہئے کہ ووٹ آپ ایک پارٹی کے نام پر لیتے ہیں اور قومی نہیں، ملکی نہیں، بلکہ سراسر اپنے ذاتی مفاد کے لئے پارٹی اور ووٹروں کو دھوکہ دیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
جو شخص اپنی پارٹی اور عوام سے مخلص نہیں، وہ اپنے ملک سے کیسے مخلص ہو سکتا ہے اور اگر واقعی وہ سمجھتا ہے کہ پارٹی اچھوڑنا ملک کے مفاد میں ہے، تو وہ پہلے اپنی اسمبلی رکنیت سے استعفا دے، پھر کوئی اور بات کرے، لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، ایک نہیں دو نہیں، بیس بیس اور پچاس پچاس لوگ پیٹریاٹ، فارورڈ بلاک یا کسی اور نام سے اپنے الگ گروپ بنا لیتے ہیں اور قبول کرنے والے پارٹی لیڈر یا حکمران ان کی راہوں میں پلکیں بچھائے نظر آتے ہیں۔ ویسے تو اس سلسلے کا آغاز1952ءسے ہوا تھا، مگر دور جدید میں 1988ءسے یہ معاملہ شروع ہوا ہے اور چار پانچ الیکشن ہونے کے باوجود ملک نیچے کی طرف اور یہ لوگ مسلسل اوپر کی طرف ترقی کر رہے ہیں۔ شروع شروع میں بے نظیر حکومت کے پہلے دور میں جب یہ ”لوٹا کریسی“ شروع ہوئی تو شریف پڑھے لکھے لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے کہ یہ لوگ اپنے حلقے کے ووٹروں کا سامنا کس منہ سے کریں گے گویا:
کعبے کس منہ سے جاو¿ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
لیکن سبحان اللہ! صدقے جائیے اس شاہکار نظام کے۔ ان ہی ووٹروں اور پارٹی لیڈروں کی بدولت یہ لوگ پھرکامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہونا تو چاہئے تھا کہ کوئی بھی پارٹی ان کو ٹکٹ نہ دیتی ،لیکن جب تک موجودہ نام نہاد نظام کو درست نہیں کیا جاتا، ملک اور عوام ڈاکوو¿ں کے نرغے میں ہی رہیں گے، کیونکہ ان ہی کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ جب بھی کسی سیاسی پارٹی کی حکومت قائم ہوتی ہے، ان ”لوٹوں“ کی وجہ سے اس کو اپنی بقاءکی پڑ جاتی ہے۔ جو قانون سازی جرائم کی روک تھام کے لئے ہونی چاہئے، وہ ان لوگوں کی وجہ سے نہیں ہو پاتی اور نہ ہی عوام کے مسائل میں کوئی کمی ہوتی ہے۔

سینٹ کے الیکشن میں حزب اقتدار اور اپوزیشن دونوں نے تسلیم کیا ہے کہ ایک ایک ووٹ کروڑوں روپے میں خریدا گیا ہے، جنہوں نے اپنا ووٹ بیچا ہے۔ کیا وہ رہنما کہلانے کے مستحق ہیں؟.... کیا وہ مزید کروڑوں کے لئے ملک کو نہیں بیچ دیں گے اور جنہوں نے کروڑوں روپے دے کر ووٹ خریدے ہیں، وہ اربوں کی سرمایہ کاری نقصان کے لئے تو نہیں کر رہے۔ وہ یقیناً سود سمیت یہ رقم واپس لیں گے، چاہے عوام کا خون بیچیں، نچوڑیں یا پاک وطن کی مٹی کا سودا کریں۔ پچھلے سینٹ الیکشن میں بھی یہی حال تھا، بلکہ میڈیا کے چینل بار بار دکھا رہے تھے کہ اس وقت کے صوبہ سرحد کے باریش درویش بظاہر ملک و قوم کے وسیع تناظر میں اور دراصل پیٹ کے وسیع تناظر میں باقاعدہ ووٹ دکھا کر کاسٹ کر رہے ہیں اور آنکھوں سے تصدیق بھی وصول کر رہے ہیں۔ ان کو دیکھ کر آنکھیں خود بخود اوپر اٹھ کر فریاد کناں ہوگئیں کہ:
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری
سپریم کورٹ نے دوہری شہریت کا نوٹس تو لے لیا، مگر ان دو چہرے، یعنی ” دوہری شخصیت“ والوں کا نوٹس کون لے گا؟.... پرویز مشرف دور میں سٹیل مل فروخت کیس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پس پردہ انڈیا کے مشہور اور دنیا کے امیر ترین لکشمی متل اصل خریدار ہیں۔ آپ کو مشہور زمانہ شخصیت ”کیری پیکر“ یاد ہوگی، جنہوں نے ایک کرکٹ کمپنی بنائی تھی اور ”کڑ کڑ“ کرتے لمبے لمبے نوٹ دکھائے تھے اور ان نوٹوں کی چمک کے پیچھے پیچھے کیا کپتان اور کیا عام کھلاڑی سبھی کرکٹ بورڈ سے کئے گئے معاہدوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کیری پیکر کے دربار میں سجدہ ریز ہوگئے تھے۔ اگر ملک کے دانشور حلقے، مقتدر لوگ اس نظام کی کجی درست نہ کر پائے تو جو لوگ آج اپنا ووٹ کروڑوں کا بیچ رہے ہیں تو کل کو کسی یہودی ایجنٹ، کسی ملک دشمن ایجنسی یا کسی بھی سرمایہ کار کے آگے اربوں کا بیچ سکتے ہیں، یوں بظاہر یہ لوگ ہی اسمبلی رکن، وزیراعظم ہوں گے، مگر ان کی دوڑیں کسی بل گیٹس، لکشمی متل یا کیری پیکر 2 کے ہاتھوں میں ہوں گی۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو، مگر ان لوگوں کا راستہ روکا نہ گیا تو پھر اللہ کیوں نہ کرے؟

مزید :

کالم -