ابوظفر نازش رضوی: ایک لاثانی شاعر و صحافی!
”شہرِ زندہ دلاں“....”شہرِ علم و دانش“....”شہرِ ادب و فن“....شہرِ ثقافت و سیاست”لاہور“ کی کیا بات ہے:
نہیں لاہور کا ثانی کہیں بھی
کہ لاثانی یہیں سوئے ہوئے ہیں
ایسے ہی ایک لاثانی انسان، نابغہءروزگار شخصیت کے حامل شاعر، ادیب، صحافی ابو ظفر نازش رضوی بھی تھے۔کیا دھڑّلے دار آواز تھی۔کیا بلند آہنگ، رعب دبدبے والی شخصیت تھی۔گورے چٹےّ ،سرخ و سفید ابوظفر نازش رضوی جب مشاعروں میں اپنی آواز کا ، بلکہ مخصوص لحن کا جادو جگاتے تو سامعین ہمہ تن گوش، سحر زہ ہو کر سنتے اور داد کے خوب خوب ڈونگرے برساتے!
اپنے ایک مجموعہ نظم”نوائے امروز“ مطبوعہ 1959ءمیں انہوں نے لکھا:
”مَیں اپنے ماحول سے متاثر ہو کرشعر کہتا ہوں۔میرے کلام میں مرثیے، نوحے نہیں ملیں گے،جس ماتم گُسار طبقے کا محبوب ترین شغل ہی قومی مرثیے اور نوحے پڑھنا ہے، اس سے معذرت خواہ ہوں کہ مَیں اس کی تشنگی ذوق بجھانے سے قاصر رہا“....!
وہ اپنی شاعری میں جہدوعمل کا درس دیتے رہے، ان کا خطاب نئی نسل کے جوانوں سے یوں تھا:
اُٹھو جوانو! کہ موقع نہیں ہے غفلت کا
اٹھو کہ وقت نہیں اب یہ خوابِ راحت کا
اُٹھو اُٹھو کہ تقاضا یہی ہے فطرت کا
اٹھو کچھ اُٹھ کے کرو کام ملک و ملت کا
اٹھو اوراُٹھ کے بنو آج پاسبانِ وطن!
نظم ”منظوم وضاحت“ میں کہتے ہیں:
جھوٹی باتیں فرضی قصے کہنا میری رِیت نہیں
جو کچھ مَیں نے پیش کیا ہے غزل نہیں ہے گیت نہیں
استقلال کا گرویدہ ہوں پیار ہے مجھ کو جہد و عمل سے
میری جنت تلواروں کے سائے میں ہے روزِ ازل سے
میری دنیا دین کے تابع، دین ہے مجھ کو جان سے پیارا
شاہِ شہیداں میرا مرشد ملت کی آنکھوں کا تارا
اور واقعی ”شاہِ شہیداں ؑ امام عالی مقام حضرت حسین ؑ سے انہیں دلی عقیدت و رغبت تھی، اس کا اظہار ان کے رثائی ادب کے حامل مجموعے ”سرمایہ ءنازش“ سے بھرپور انداز میں ہوتا ہے۔وہ حمادِ اہل بیت تھے اور محرم کی ساتویں تاریخ کو ہر سال ”شاہ نورسٹوڈیوز“ میں مجلسِ عزا سے پہلے پیش خوانی کرتے تو ایک سماں باندھ دیتے۔سید شوکت حسین رضوی کے دونوں صاحبزادے اکبر حسین رضوی اور اصغر حسین رضوی بھی اسٹیج پر براجمان ہوتے۔شوکت حسین رضوی کی نور جہاں سے علیحدگی ہوچکی تھی۔یہ دونوں بیٹے مجلس میں باپ کے پہلو میں تو ہوتے، مگر کچھ نہ کچھ شرارت آمیز حرکتیں کرتے رہتے، دونوں میں ناخن دانتوں سے کاٹنے کی قبیح عادت بھی تھی۔یہ ماں، باپ کی ازدواجی زندگی میں عدم توازن کے سبب شاید نفسیاتی عارضہ ہوگا۔بہرحال، نازش رضوی خوب اونچی تان لگاتے اور سلام کے پہلے ہی شعر کو آسمان تک پہنچا دیتے:
قبر میں میرا امامؑ آ ہی گیا
میرا مرنا میرے کام آ ہی گیا
اس وقت یہ دونوں لڑکے حیرت زدہ سے نازش رضوی کو تک رہے ہوتے اور مجلس میں بطور سامع موجود میری یہ کیفیت ہوتی:
سب لوگ جدھر وہ ہیں اُدھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
مولانا عبدالمجید سالک نے ”نوائے امروز“ کے ابتدایئے میں لکھا کہ :
”حضرت نازش رضوی کو مَیں 35برس سے جانتا ہوں ، وہ شعر اور موسیقی کی مہارت کے علاوہ صحافت میں بھی درخورِ وافی رکھتے ہیں“....!
نازش رضوی کا کہنا تھا کہ :
مشکل کوئی پہاڑ نہیں جو نہ ٹل سکے
لیکن ذرا سی ہمتِ مردانہ چاہیے
ابو ظفر نازش رضوی یکم جنوری 1900ءکو لاہور میں پیدا ہوئے اور 24اپریل 1974ءکو لاہور ہی میں وفات پائی۔انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے ننھیال کے زیرِ اثر گھر کی چار دیواری میں حاصل کی۔محض سترہ برس کی عمر میں فارسی ، اردو، انگریزی اور بقدرِ ضرورت عربی زبان پر بھی دسترس حاصل کرلی۔انہوں نے اردو،فارسی،پنجابی، پشتو کے امتحانات بھی پاس کئے۔
1921ءمیں حکومت برطانیہ کی نوکری اختیارکرکے عراق گئے اور تین سال کام کیا۔واپسی پر صحافت کو ذریعہ معاش بنایا۔لاہور کے مشہور زمانہ اخبار” زمیندار“ کے علاوہ سیاست، تازیانہ، دلکش، بہارستان، نیرنگِ خیال، ادبی دنیا اور”ریاست“ دہلی جیسے مقتدر و ممتاز جریدوں کے مدیر اور مدیر اعلا رہے۔1924ءمیں گراموفون کمپنی لمیٹڈ دہلی میں 16برس تک ریکارڈنگ ڈیپارٹمنٹ میں ایڈیٹر اور ادبی مشیر کے فرائض انجام دیئے۔1947ءمیں اپنے ننھیالی شہر دہلی کو خیر باد کہہ کر اپنے پسندیدہ مولدو مسکن لاہور واپس آ گئے۔حکیم محمد یوسف حسن چیف ایڈیٹر ”نیرنگِ خیال“ نے ”نوائے امروز“ میں لکھا کہ :
” ابوظفر نازش رضوی کا آبائی وطن مشہد تھا۔ان کے جدِ امجد سیروسیاحت کی غرض سے پنجاب آئے اور اسی سفر کے دوران سیالکوٹ میں وفات پا کر پیوندِ زمیں ہوئے۔نازش رضوی کے دادا سید حسن علی والد کی رحلت کے بعد واپس مشہدچلے گئے، مگر پھر راولپنڈی آ گئے۔نازش رضوی کے والد سید اُمید علی رضوی دہلی کے ایک معزز سادات گھرانے میں شادی کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہیں کے ہورہے“....!
حضرت علامہ اقبال نے ”مُلا“ کے حوالے سے بہت سے اشعار کہے۔ایک مصرعہ تو ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے کہ :
کارِ مُلا فی سبیل اللہ فساد
حضرت ابو ظفر نازش رضوی نے غالباًحضرت علامہ سے متاثر ہو کر ملا کے حوالے سے یہ شعر کہاکہ :
خدا محفوظ رکھے اس کے شر سے ہر مسلماں کو
نفاق انگیز ہیں اس دور کے مُلا کی تقریریں
”اعتراف“ کے عنوان سے مولانامرتضیٰ احمد خان میکش، چیف ایڈیٹر ”شہباز“ لاہور نے لکھا :
”1924ءمیں اسلامیہ کالج کے طالب علم تھے۔لاہور میں شاندار مشاعرے ہوا کرتے تھے۔اس دور میں شعراءکا ایک مخصوص طبقہ عوام میں اپنا کلام مقبول بنانے کے لئے ترنم اور موسیقی کا سہارا لینا جائز سمجھتا تھا۔ایک محفل مشاعرہ میں جو”ایس پی ایس“ کے ہال میں منعقد ہوئی۔اس میں اسٹیج پر طبلہ ،ہارمونیم، وائلن اور دیگر آلاتِ موسیقی بھی دیکھنے میں آئے۔ساتھ ہی ایک شوخ طبع خوش رُو نوجوان کی معیت میں موسیقی کے زیروبم اور خوش نوائی کے جملہ فنی نکات کو ملحوظ رکھتے ہوئے آٹھ دس شعر کی ایک ،شگفتہ غزل سنا کر اہلِ مشاعرہ کو مسحورومبہوت بناگیا۔یہ نوجوان نازش رضوی تھا،جس کی غزل سرائی کے لئے طبلہ اور ہارمونیم وغیرہ کا اہتمام یہ ظاہر کرنے کی غرض سے کیا گیا تھا کہ اگر شعر خوانی کی محفل کو گرمانے کے لئے ضروری ہے کہ شاعر ترنم موسیقی اور گلے کی لطافتوں کا سہارا لے تو موسیقی کے دوسرے سازوسامان نے کیا قصور کیا ہے کہ شعر سمع سامعین تک لطیف تر صورت میں پہنچانے کے لئے ان سے امداد نہ لی جائے۔نازش نے اس طرح ترنم سے پڑھنے والے شاعروں پر جو طنز کیا، اس کے چرچے دیر تک ہوتے رہے“....!!
آج کے دور میں فرحت عباس شاہ سازوآواز کے ساتھ مشاعروں میں اپنا کلام باقاعدہ گا کر سناتے ہیں۔اس روش پر ابوظفر نازش رضوی 85,80برس جو بھرپور عملی طنز کر گئے، وہ یادگار ہے۔ ٭