میرے قبیلے کو بُرا نہ کہو....

میرے قبیلے کو بُرا نہ کہو....
میرے قبیلے کو بُرا نہ کہو....

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میرا تعلق اس قبیلے سے ہے جو پیمبرانہ کردارادا کرتا ہے، لیکن اگر قریش کے سرداروں میں ابو جہل ہو سکتا ہے تو میرے قبیلے میں ایسوںکی موجودگی سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے، لیکن کیا قبیلہ قریش کی حرمت اور بزرگی سے انکار ہو سکتا ہے، ہرگز نہیں اور اسی طرح اہل صحافت جس طرح ملک و قوم کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں چند مفاد پرستوں کے بے نقاب ہونے پراس کی اہمیت اور فضیلت سے بھی انکار نہیں کیا جانا چاہئے۔ لفظ صحافت تو نکلا ہی صحیفے سے ہے، مگر کچھ عرصے سے حالات حاضرہ کے پروگراموں کے اینکرز کے خلاف جو عوامی جذبات بنتے چلے جا رہے تھے۔ وہ مبشر لقمان اور مہر بخاری شو کے بعد عروج پر پہنچ گئے ہیں۔ مجھے اپنے دوستوں سے صرف یہی عرض کرنا ہے کہ ٹی وی سکرینوں پر کرنٹ افئیرز کے اینکرز بن کر سامنے آنے والوں کو آپ صحافت کا چہرہ قرار نہیں دے سکتے۔ ان کے بطور اینکر چناو¿ میں صحافت کی بجائے بہت سارے دیگر عوام کارفرما ہوتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ کرنٹ افئیرز کے پروگرام توہمارے ڈراموں کی جگہ لینے لگے ہیں، جب کبھی صرف پی ٹی وی ہوا کرتا تھا تو یہی وقت وارث اور تنہائیاں جیسے ڈراموں کے لئے مخصوص ہوتا تھا ، نیوز چینلز نے ڈراموں کا یہ سحر توڑا جس کے لئے معذرت کے ساتھ انہیں ان ڈراموںمیں اداکاری کرنے والوں سے زیادہ بڑے اداکار درکار تھے اور وہ انہیں صرف شعبہ صحافت سے نہیں مل سکتے تھے، لہٰذا ٹی وی مالکان نے دیگر شعبوں کا رُخ کر لیا۔ کسی ناکام پروڈیوسر نے سیاست دانوں کی بے عزتی کو اپنا وطیرہ بنایا تو پی ٹی وی سٹائل سے اکتائے ہوئے ناظرین نے اس کو سر آنکھوں پر لیا، کسی نے بدتمیز لہجے میں بولتے ہوئے میک اپ کی تہوں میں لپٹے چہرے کو خوبصورت بنا کر پیش کیا تو اسے زنانہ سلطان راہی سمجھ لیا گیا۔ پسے ہوئے عوام نے یہی سمجھا کہ یہ ان کے حقیقی نمائندے ہیں، حالانکہ یہ حقیقت نہیں تھی اور نہ ہی ہے۔ پروگرام کا میزبان کون ہو گا، اس کا فیصلہ چینل مالکان کرتے ہیں اور ان کے پیش نظر کہیں بھی اعلیٰ صحافتی روایات و خدمات نہیں، بلکہ صرف اور صرف ریٹنگ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ ریٹنگ لینے والے اینکر کی اتنی ہی بڑی بولی لگتی ہے جتنی کسی ہٹ فلم کے ہیرو یا ہیروئن کی لگ سکتی ہے، لہٰذا ان کو صحافت کا چہرہ کہنا ، کسی طور بھی مناسب نہیں۔ یہ تووہ لوگ ہیں، جن کے لئے بعض جگہوں پر تو نصف درجن کے قریب لوگ ریسرچ اور سکرپٹ رائٹنگ کے لئے موجود ہوتے ہیں، اس کو صحافی کیسے کہاجاسکتا ہے، جو اپنے علم اور رائے کی بجائے لکھا ہوا سکرپٹ پڑھتا ہو۔ ان لوگوں کے باقاعدہ گروپ بنے اور جب ایک اینکر نے ایک ادارہ چھوڑا تواس کے ساتھ ساتھ اس کے ریسرچر اور سکرپٹ رائٹر بھی اسی طرح دوسرے چینل کو روانہ ہو گئے جیسے لکی ایرانی سرکس کسی جگہ سے اُٹھائی جاتی ہے، تو جوکرز کے ساتھ ساتھ سدھائے ہوئے ہاتھی ، شیر ، گھوڑے بھی اگلے شہر پہنچ جاتے ہیں۔ کیا کسی نے سی این این ، بی بی سی اور فوکس نیوز دیکھے ہیں، وہاں پروگرام کرنے والے ہی نہیں بلکہ خبریں پڑھنے والے بھی صرف شکل و صورت پر نہیں، اپنے تجربے پر منتخب کئے جاتے ہیں۔ یہاں پروگرام تو ایک طرف رہے، خبریں پڑھنے کے لئے بھی 32 سال کی ایک تجربہ کار نیوز کاسٹر خاتون کی بجائے سولہ سولہ سال کی دو لڑکیوں کو سکرین پر بٹھانے کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔
اگر بات یہاں تک ہی محدود رہ جاتی تو خیر تھی، چل چل کے ان اینکرز نے بھی خبروں اور تجزیوں میں رواں ہو ہی جانا تھا،مگر ان کو بہرحال خبر کی حرمت اور غیر جانبداری کی اہمیت گھول کر نہیں پلائی جاسکتی تھی، پھر حالات حاضرہ کے پروگراموں کے نام پر ہی فلم انڈسٹری سے فراغت کے حامل اداکاروں کو ہائر کیا جانے لگا۔ کیا میرا اینکر ہیں، کیا شان اینکرہیں، کیا سہیل احمد کسی دور میں بھی صحافی یا تجزیہ کار رہے ہیں۔ کیا سٹیج کی ڈانسر نرگس کو اینکر بنایاجانا چاہئے ،مگر اُن کی خدمات تو ایک کے بعد اب دوسرے چینل نے بھی خالصتاً کرنٹ افئیرز کے شو کے لئے حاصل کر لی ہیں۔ کیا پھکڑ بازوں کی خبر ناکیاں، خبر وں کے تجزئیے اور قوم کی رہنمائی قرار دی جا سکتی ہیں، ہرگز نہیں۔اب سوال یہ ہے اگر اینکرز اصل صحافی نہیں، تو پھر صحافی کون ہیں۔ صحافی وہ ہیں جو خبر تلاش کرتے ہیں، اسے پیش کرتے ہیں اور ان کی تلاشی اور تراشی ہوئی خبروں پر کرنٹ افئیرز کے پروگراموں کے نام پر ڈرامے پروڈیوس کئے جاتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد تو یہ جرنلزم اور زیادہ مشکل ہو گئی ہے۔ اب بھی اخبار کا صحافی ایک قلیل معاوضے پر خبرکی تلاش میں دسمبر کی سردی،جون کی گرمی اور اگست کے حبس میں موٹرسائیکل پر سڑکیں ناپتا پھرتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کا رپورٹر کیمرہ مین کو اپنے ساتھ لئے گھنٹوں وہاں موجود رہتا ہے، جہاں اجلاس ہو رہے ہوتے ہیں۔ مَیں بھی ان میں شامل رہا ہوں، جو جاتی امراءرائےونڈ میں میاں نواز شریف کی رہائش گاہ پر ہونے والے اجلاسوں کی کوریج کے لئے اجلاس سے پہلے پہنچ جاتے ہیں کیونکہ چینل کو فوری ٹیکرز درکار ہوتے ہیں کہ اجلاس میں شرکت کے لئے کون کون پہنچ گیا ہے۔ اجلاس اندر ٹھندے کمروںمیں جار ی ہوتاہے اور رپورٹرز باہر سڑک پر درختوں کی چھاﺅں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ جب کسی رپورٹر کو کسی دوست کا فون آتا ہے، تو وہ اس کو یہ نہیں بتاتا کہ وہ سڑک پر خوار ہو رہا ہے، بلکہ شوخ ہوکر کہتا ہے کہ وہ تو میاں نواز شریف کے گھر پر اجلاس میں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ یہی رپورٹر محترمہ بینظیر بھٹو کی لاہور میں نظربندی کے دوران لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ کے گھر کے باہر دن رات ڈیوٹی دیا کرتے تھے، یہی رپورٹر اور کیمرہ مین ہوتے ہیں جو لیاری میں چلتی ہوئی گولیوںمیں بھی موجود ہوتے ہیں، مگر پروگرام کرنے والے زیادہ تر اپنے ٹھنڈے سٹوڈیوز میں ان کی دی ہوئی خبروں کا تیا پانچہ کر رہے ہوتے ہیں ۔ جو لوگ یوٹیوب پر ملک ریاض شو میں سوالوں اور جوابوںکا مک مکا دیکھ کر صحافت اور اہل صحافت کے بارے غلط رائے قائم کر رہے ہیں، تو میرا ان کو مشورہ ہے کہ اگرانہوں نے ان شیروں کی خون خواری دیکھنی ہو تووہ کسی بھی پریس کانفرنس میں چلاجائے جہاں رپورٹر تیر وں اور تلواروں سے زیادہ زخمی کرنے والے سوال کرتے ہیں۔ خبر کے پیچھے بھاگتے ہوئے رپورٹر اور کیمرہ مین ہی اصل صحافی ہیں، اصل میں صحافت ہیں، یہی وجہ ہے کہ شو میں مک مکا کرنے والے ملک ریاض کو جھوٹے جھوٹے کی آوازیں بھی سننا پڑتی ہیں اور پریس کانفرنس سے ” نیواں نیواں“ ہو کے بھاگ بھی نکلنا پڑتا ہے، یہ ہیں اصل صحافی، سچ کے محافظ ۔ ان میں سے کچھ غلط کار بھی ہو سکتے ہیں ، ہم سب لوگوں کو کریکٹر سر ٹیفکیٹ جاری نہیں کر سکتے، مگر وہ اس محنت کش قبیلے کے ترجمان نہیں، اس کی پہچان نہیں۔ صحافت کی پہچان انہی کو بننا چاہئے جو صرف شکل،الفاظ اور سفارش ہی نہیں ،تجربہ اوراس کے ساتھ ساتھ کردار بھی رکھتے ہوں۔
مجھے معذرت کے ساتھ کہنے دیجئے کہ چینل کا قیام اب جرنلزم نہیں، بلکہ صرف اور صرف کاروبار ہے، بلکہ اس کو کاروبار کہہ کر بھی میں اسے ”مارجن“ دے رہا ہوں۔ بہت بڑے بڑے سرمایہ کاراب چینل بناتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے ان کے دوسرے بڑے بڑے کاروباروں کو تحفظ دے سکیں۔ اب بھی مزید جو لو گ میڈیا انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں وہ ملک میں بنکوں اور ہوٹلوں کے ذریعے اربوں کھرپوں کما چکے ہیں۔ مَیں میڈیا انڈسٹری میں سرمایہ کاری کا بہت بڑا حامی ہوں اور اس سرمایہ کاری کرنے والے کو قدر کی نگاہ سے بھی دیکھتا ہوں، مگر کیا میں ان سے یہ درخواست کرسکتا ہوں کہ آپ تمام لوگ ارب اور کھرب پتی بن چکے۔ آپ کے چینل بھی کامیاب قرار پاچکے ۔ آپ وی وی آئی پی بن چکے تو پھر آئیں صحافت کو اس کی اصل روح لوٹا دیں۔ خبر اور تجزیوں کی حرمت بحال کر دیں۔ پاکستان کو تبدیل کرنے کی مہم شروع کر دیں۔ سچ پر سمجھوتے کو جرم بنا دیں اور یہ ارب اور کھرب پتی لوگ ایسا کر سکتے ہیں کہ ان کی اب اہمیت اور دولت کی بھوک ختم ہوجانی چاہئے۔ یہ کتنے اور اہم ہو سکتے ہیں اور کتنی اور دولت اکٹھی کر سکتے ہیں۔ اُن کی مزید دولت کا یہی استعمال ہو سکتا ہے کہ اپنے باتھ روموں میں وہ سونے کی ٹونٹیاں لگوا لیں۔ ان مالکان بارے حسن ظن یہی ہے کہ وہ ایسا نہیں کرنا چاہتے، تو پھر وہ برائے مہربانی ایسا بھی کر لیں کہ ریما اور نرگس ہی نہیںکسی مبشر لقمان کو بھی میرے قبیلے کی پہچان نہ بنائیں، درخواست ہے کہ صحافت کو اس کا چہرہ لوٹا دیں۔

مزید :

کالم -