بس انجام تو یہی ہوتا ہے!

اخبارات میں چھوٹی سی خبر تھی۔حاشیے میں جکڑی سنگل کالمی خبر....” مصر کے سابق صدر حسنی مبارک انتقال کرگئے“.... بعض میں تو وہ بھی نہیں تھی۔آج کی خبر ہے کہ آخری سانسوں پر ہیں۔چلئے دو چار دن اور لے لیں گے۔ہر ذی نفس نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔یہ اتنی کڑوی حقیقت صوفیوں،درویشوں اور منیوںکو ضرور یاد رہتی ہے اور اگر بھولی رہتی ہے تو جاہ و حشمت والوں کو، اقتدار کے سنگھاسنوںپر بیٹھنے والوں ،پیسے کے بل بوتے پر ظلم و جبرکے طوفان اُٹھانے والوں کو کہ انہیں ایک دن خالی ہاتھ دو گز زمین میں اُترنا ہے۔
مصر اپنے تہذیبی ورثے کی بنا پر اوج کمال پر پہنچا، ہواصدیوں پرانے شاندار تمدن کے مایہ ناز نمائندوں کے ساتھ شہروں شہروں پھیلا جو اس کے ہر شہر کو منفرد کرتے ہیں۔فراعنہ کا دور ہو،یونانیوں،رومیوں کا زمانہ ہو،مسلمانوں کی مختلف نسلوں فاطمیوں،ترکوں اور مملوکوں کے مختلف ادوار ہوں، ہر عہد نے اس کے شہروں کو کچھ نہ کچھ سوغاتیں دی ہیں۔قاہرہ دُنیا میں اگر اپنے اہراموں کی بدولت مشہور ہے تو اپنی اسلامی ثقافت کے جا بجا بکھرے رنگوں پر بھی نازاں ہے۔برٹش دور کی اپنی غلامی میںبھی اس کا قاہرہ بین الاقوامی شہر کے طور پر جانا پہچانا جاتا تھا۔
2007ءمیں مصر کی اپنی سیاحت کے دوران مَیں نے غیر مُلکی سیاحوں کے پرے اس کے چھوٹے چھوٹے شہروں میں گھومتے پھرتے دیکھے۔ اس کے بڑے شہروں میں جدید کلچر کے رنگوں سے محظوظ ہوتے ہوئے بے اختیار اس پر رشک کرتے ہوئے سوچا تھا کہ یقیناََ حکمران اپنے لوگوں کے لئے بہت سنجیدہ ہوں گے۔ پر اولڈ قاہرہ میں کیا داخل ہوئی، عمرو بن عاص کی مسجد میں حاضری دینی تھی اور وہاں خواتین والے حصّے میں بے شمار نوجوان بچیاں انگریزی کی موٹی موٹی کتابیں اپنے سامنے رکھے پڑھنے میں مصروف تھیں۔کوئی میڈیکل کی سٹوڈنٹ تھی تو کوئی یونیورسٹی میں۔پہلے تو قدرے حیرانی ہوئی کہ مسجد میں اتنی ڈھیر ساری لڑکیاں۔ذرا آگے بڑھ کر یہ منظر بھی دیکھا تھا کہ دو لڑکیاں عقبی باتھ روموں سے نہا کر نکلی تھیں اور ایک لڑکی نے کپڑے دھو کر صحن میں پھیلائے تھے۔اتنا تو خیر مَیں جان گئی تھی کہ عرب ممالک میں مسجدوں میں ایک چوتھائی حصّہ عورتوں کے لئے مخصوص ہوتا ہے۔اب وہ ان حصّوں کو کیسے استعمال کرتی ہیں؟ یہ ان مسجدوں کے محل وقوع پر ہوتا ہے کہ بڑے بڑے شاپنگ پلازوں میں بنی مسجدیں اگر خواتین کے لئے جائے نماز تھیں تو وہیں ان کے لئے ریٹائرنگ روم بھی ہیں۔ مگر اولڈ قاہرہ جیسے غریب علاقوں میں، جیسا کہ مَیں دیکھتی اور سُنتی تھی، یہ بچیوں کی مطالعہ گاہ تھی۔یہاںپڑھنے کی وجہ ان کے چھوٹے چھوٹے گھر تھے، جن کے صحن نہیں تھے اور اگر تھے تو بہت چھوٹے۔
میں نے لڑکیوں کے پاس بیٹھ کر اُن سے باتیں شروع کیں۔حسنی مبارک کا ذکر آیا۔لڑکیوں کے لہجے میں نفرت کا اظہار تھا....امریکہ کا پٹھو ہے بہت شاہانہ طرز زندگی ہے جو مصر جیسے مُلک کے حکمران کو زیب نہیں دیتا۔دُنیا جدید قاہرہ کو دیکھ کر سمجھتی ہے کہ مصر بہت ترقی یافتہ اور خوشحال مُلک ہے۔اولڈ قاہرہ کی گلیوں میں کوئی دیکھے تو اُسے پتہ چلے گا کہ مصری کتنے تنگ دست ہیں اور واقعی وہ سچ کہتی تھیں۔مَیں نے ایک ایک کمرے میں ایک ایک خاندان کو رہتے دیکھا۔ایک بیڈ پر دوسرا، تیسرا بیڈ دھرا ہوا۔کہیں فرش پر دریاں چادریں بچھی ہوئیں۔تنگ و تاریک گلیاں۔
مُلک میں یک جماعتی نظام، جس نے قوم کو سیاسی طور پر مفلوج کر رکھا تھا،بلکہ محلے کے نوجوان سے جب بات ہوئی، اُس نے تلخی سے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کو تیار کررہا ہے، ہماری جان کہاں اِن سے چُھٹنی ہے۔ایسے ہی ایک اور گھر میںجا گُھسے۔ اس گھر کے سربراہ نے دُکھ اور تاسف سے کہا۔ہمارے اِن لیڈروں نے اسرائیل کا مقابلہ کرنا ہے۔ کوئی اسرائیل جا کر دیکھے کتنی منظم قوم ہے۔اپنے لوگوں کی کتنی خیر خواہ ہے۔اُن کے لئے کیا کیا سہولتیں فراہم کر رہی ہے۔اُس کے لیڈر کتنے سادہ، کتنے ایماندار اور اصول پرست ہیں۔ان کی عیاشیاں دیکھیں۔اُن دنوں ابھی لیبیا کا معمر قذافی اپنے انجام کو نہیں پہنچا تھا۔کبھی ان کی سربراہی کانفرنسیں دیکھیں۔شرم آتی ہے انہیں دیکھ کر۔سب کے سب غاصب اور استعماری طاقتوں کے نمائندے۔
ملحقہ محلّے کے ایک نوجوان محدوس نے جمال مبارک اور اعلیٰ مبارک حسنی مبارک کے دونوں بیٹوں کی دھاندلیوں کی وہ وہ داستانیں سُنائیں کہ مَیں گنگ ہو کر رہ گئی۔باپ کے عہدے اور طاقت کا ستعمال۔340ملین پاﺅنڈ سوئز بینکوں میں۔جمال کی گدّی نشین بننے کی کوششیںاور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں گھسنے اور جگہ بنانے کی کاوشیں۔
پاکستان کی طرح مصر میں بھی فوج بڑی طاقتور ہے۔میرے سوال پر محدوس کے چھوٹے بھائی شعید نے طنزیہ کہا۔حسنی مبارک کِس کی شہہ پر کھڑا ہے۔فوج پُشت پر ہے۔عرب دُنیا کی بہترین فوج مصری جسے چند گھنٹوں میں اسرائیل نے پھینٹی لگا دی ۔بھئی جب ایر فورس کے پائلٹ ساری رات بیلا ڈانس دیکھیں گے اور صُبح جھومتے ہوئے ناشتہ کر رہے ہوں گے تو پھر آپ کی فضائیہ تو گھنٹوں کی مار ہے۔اسکندریہ بیس پر یہی کچھ ہوا تھا۔عرب دُنیا کو کِسی طاقتور انقلاب کی ضرورت ہے جو کرپشن سے بھرے ہوئے اس نظام کی جڑیں ہلا دے۔
اخوان المسلمین کے بارے میں بات ہوئی۔شعید نے جواباََ کہا! مخلص ہیں مگر انہیں اپنی انتہا پسندی کو اعتدال میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ان کا ایک انقلابی نعرہ غیر مُلکی سیاحوں پر جس طرح اثر انداز ہو کر غریب آدمی کے چولہے کو ٹھنڈا کرنے کا باعث بنتا ہے وہ غور طلب ہے۔سیاحت مصر کا تیسرا بڑا ذریعہ آمدنی ہے۔
سچ تو یہ ہے تیسری دُنیا کے مُلکوں کے لیڈروں اور حکمرانوں کو انقلابی بننے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔کیسے کیسے بھیانک انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔کرپشن کی کتنی داستانیں عریاں ہو رہی ہیں۔جیسے لوٹ مچی ہو ”سمیٹ لو سب“ اُن کا مطمح نظر ہے۔
پر انجام ۔یہی انسان کو جگہ تو دو گز چاہئے اور یہ بدن جس کے لئے گناہوں کے بوجھ اُٹھائے جاتے ہیں مٹی میں مِل جانا ہے۔
پر اگر یہ سمجھ آجائے تو رونا کِس بات کا