تبدیل ہوتے ہوئے علاقائی معروضات

تبدیل ہوتے ہوئے علاقائی معروضات
تبدیل ہوتے ہوئے علاقائی معروضات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نائن الیون کے بعد کی دنیا میں درپیش مسائل اور ان کی شدت کی جہت میں ایک اہم تبدیلی رونماہوئی ہے۔ بہت سے ممالک اور اقوام ،جن کے درمیان نفرت اور کشیدگی کی فضا پائی جاتی تھی، کے درمیان امن قائم ہوگیا ہے، جبکہ ایشیا کے اہم ممالک عالمی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ ایشیا کے دیرینہ حل طلب معاملات، جیسا کہ مسئلہ کشمیر، فلسطین، جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان کشیدگی، تائیوان کے مسائل، جاپان، امریکہ اور چین کے سہ جہتی تعلقات اور خطے میں روس اور بھارت کے رجحانات کومرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سرد جنگ کے بعد سیاسی اور فوجی قوت کے پیمانے ایک ریاست ، امریکہ ،کے ہاتھوں میں سمٹ آنے سے عالمی طاقت کا توازن بگڑ گیا۔ اس کے نتیجے میں آج کی دنیا میں اجتماعی سیکیورٹی کے اخلاقی اور قانونی پہلو کو ،جس کو یو این چارٹر یقینی بناتا ہے، بُری طرح نظر انداز کر دیا گیا ہے۔دیرینہ حل طلب مسائل اور جاری تنازعات کے حل کی کوئی کوشش ہوتی دکھائی نہیںدیتی ہے۔ انیسویں صدی کا معاشی مفاد کے لئے دیگر ریاستوں پر قبضے کا تصور واپس آ چکا ہے۔بین الاقوامی برادری کا باہمی اتفاق سے ان مسائل کے حل پر توجہ نہ دینا اس صورت ِ حا ل کی سنگینی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔
ایشیا کے کچھ حصوں میں جاری کشیدگی اور عدم استحکام کی فضا نے عالمی امن اور سیکیورٹی کے تقاضو ں پر بے حد سنگین اثرات مرتب کئے ہیں۔ اس کشیدگی کی بڑی وجہ ایشیا میں جاری محاذآرائی ہے....امریکہ کی افغانستان میں جاری جنگ،اس کی وسطی ایشیائی ریاستوں میں مسلسل مداخلت ، بھارت کے ساتھ ایٹمی اشتراک، جس کی وجہ سے علاقائی امن تباہ ہو سکتا ہے، شمالی کوریا کے ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کے تشویش ناک عزائم اوراس سلسلے میں چھ فریقی گفتگو میں تعطل،جاپان، چین اور جنوبی کوریا کے درمیان تنازعات قابل ِ ذکر ہیں۔

اس غیر واضح ماحول میں ایشیا کی واحد امید چین ہے۔ بطور ایک اہم عالمی قوت، چین بین الاقوامی امن برقرار رکھنے کے علاوہ دُنیا کو درپیش معاشی بحران کو ٹالنے میں اپنا کردار اداکر رہا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے چین کی خارجہ پالیسی میں، جو پُرامن بقائے باہمی پر مبنی ہے، اہم تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس تبدیلی کے بین الاقوامی تعلقات پر اہم نتائج مرتب ہوئے ہیں۔ چین آج کی دُنیا میں معیشت کو استحکام بخشنے والے ایک اہم عامل ہونے کے علاوہ یواین کی سیکیورٹی کونسل کا ایک فعال رکن بھی ہے۔ اپنے طویل المدتی سیاسی اور معاشی مفادات کے حصول کی خاطر چین نے عملی پالیسیاں اپنائی ہیں، جن کے تحت وہ مختلف ممالک ، جیسا کہ امریکہ اور انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کر رہا ہے۔ اپنے کچھ ہمسائیوں، جیسا کہ انڈیا ، کے ساتھ اپنے تنازعات کے حوالے سے چین کی پالیسی یہ ہے کہ ”ان کوباہمی مشورے اور گفت و شنید اور بین الاقوامی تعلقات کا احاطہ کرنے والے اصولوںکی روشنی میں حل ہونا چاہئے“.... اس نے روس کے ساتھ سرحدی تنازع نہایت پُرامن طریقے سے حل کیا ہے اور اس کی پالیسی ہے کہ یہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرے۔
تاہم چین بھی عالمی اور علاقائی معاملات پر تحفظات رکھتا ہے اور یہ امریکہ کے واحد سپر پاور ہونے کے مضمرات اور اس کے ایشیائی ریاستوں میں مداخلت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ امریکی توسیع پسندی کے پس ِ منظر میںیہ کوئی حیرت کی بات نہیںکہ حالیہ دنوں چین اور روس کے تعلقات میں قابل ِ ذکر قربت پیداہوئی ہے۔ واشنگٹن کا وسطی ایشیائی ریاستوں، جو قدرتی وسائل سے بھر پور ہیں، میں اثر کم کرنا ان دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ اس سال بیجنگ میں ہونے والی” شنگھائی کانفرنس برائے تعاون “ میں اس بات کا واضح اظہار ملتا ہے کہ چین ایشیاکے مختلف ممالک کے ساتھ مل کر مشترکہ سیکیورٹی قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ عالمی چیلنجوں کا سامنا کیا جاسکے۔ اس تنظیم میں چین اور روس کا تعاون اس حوالے سے بہت معنی خیز ہے، کیونکہ ان کے معاشی اور دفاعی مفاد میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ اس میںکوئی شک نہیں،کہ ان دونوں ایشیائی طاقتوںکو امریکی پیش قدمی پر تشویش ہے اور اب یہ واحد سپر پاور کی اجارہ داری ختم کرنا چاہتے ہیں۔
 اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی فراموش نہیںکرنی چاہئے کہ اس علاقے میں روس اور چین اسلامی انتہا پسندی کو بھی اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں، کیونکہ اسلام کے شدت پسند عناصر ان ممالک میں بسنے والے مسلمانوں پر بھی اثر انداز ہوکر انتشار پیدا کرسکتے ہیں۔ قازقستان کے صدر نذر بائیوف کے مطابق....” اس علاقے میں دہشت گردی ، علیحدگی پسندی اور انتہاپسندی کی اصل وجہ افغانستان کا عدم استحکام ہے“....چین اور روس بھی اس کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ دونوں دہشت گردی، انتہاپسندی اور علاقے میںچلنے والی علیحدگی کی تحریکوںپر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اس لئے یہ بات قابل ِفہم ہے کہ اگرچہ شنگھائی کانفرنس میں”تمام عالمی مسائل “ پر بات چیت کی گئی ہے، مگر اس کا ارتکاز جس بنیادی اور اہم نکتے پر ہے، وہ علاقائی تحفظ بالعموم اور اسلامی انتہاپسندی کا تدارک بالخصوص ہے۔یہ فطری امر ہے کہ بطور معاشی قوتیں ، چین اور روس کو توانائی کے وسائل اور اپنی پیداوار کی کھپت کے لئے منڈیوں کی تلاش ہے ۔ اس حوالے سے اُنہوںنے شنگھائی تنظیم کو دفاعی بنیادوں پر استوار کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ اپنی سرحدوں پر خطرے کے علاوہ دیگر خطوں کی سیکیورٹی کے مسائل سے بھی نمٹ سکیں، چنانچہ ایس سی او کے حالیہ اجلاس میں دفاعی معاملات کو فوقیت دی گئی۔ اس سال اپریل میں روس اورچین نے مشترکہ بحری مشقیںکیں۔ 2005 ءکے بعد سے ان کے درمیان چار مشترکہ فوجی مشقیں ہوچکی ہیں۔اس ماہ کے آغاز میں ایس سی او کے رکن ممالک ، چین ، روس، تاجکستان، قیرغستان، ازبکستان کے حاضر سروس فوجیوں نے تاجکستان میں ”مشن ڈرل برائے امن “ میں شرکت کی۔ اس سرگرمی کا مقصد پہاڑی علاقوں میں انتہا پسندوںکے خلاف کاروائی کرنے کے خدوخال طے کرنا تھے۔
روسی صدر مسٹر پیوٹن کے حالیہ دورہ ¿ چین کے دوران چین اور روس نے خارجہ معاملات اور ایشیائی ممالک کی سیکیورٹی کے متعلق متفقہ اعلامیہ جاری کیا۔ اس ضمن میں دونوں ممالک نے فوجی تعاون کو بڑھانے کا عہدکیا اور اس کا ایک مظاہرہ ان کی مسلح افواج اور نیوی کی مشترکہ مشقیں کے دوران نظر آیا۔ روس کے بارے میںکہاجارہا ہے کہ وہ 2015ءتک اپنی جنگی مشین کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے پُرعزم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چین بھی اپنی نیوی کی جنگی استعداد بڑھا رہا ہے۔ یہ دونوں ممالک اپنی باہمی تجارت بھی بڑھا رہے ہیں۔ مستقبل میں چین روسی اسلحے اور توانائی کے ذخائر کا اہم خریدار بن سکتا ہے۔
افغانستان کے حوالے سے ہماری طرح روس اور چین کی بھی خواہش ہے کہ یہاں امن قائم ہو تاکہ اس جنگ زدہ ملک کو غیر ملکی تسلط سے نجات مل سکے۔ تاہم اُن کو تشویش ہے کہ اس خطے میں فروغ پانے والی انتہا پسند اور علیحدگی پسند قوتیں اُن کے لئے بھی پریشانی پیداکرسکتی ہیں۔ درحقیقت نوے کی دھائی میں ان قوتوںکے خطرے کو ذہن میںرکھتے ہوئے ایس سی او کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ایک حوالے سے ایس سی او اور نیٹو میں ان مقاصد کے حصول کے لئے طویل المدت اشتراک عمل میں آسکتا ہے، چنانچہ یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ایشیا کا یہ خطہ تبدیلی کے عمل سے گزررہا ہے ، تاہم ابھی یہ توقع نہیںکی جاسکتی کہ ایس سی او کے رکن ممالک نیٹو کی طرز پر دفاعی قوت کا اشتراک عمل میں لے آئیں گے۔
اس پس منظر میں چین اور پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے سٹرٹیجک تعاون کی نئی جہتیں تلاش کریں اور اپنے کثیر پہلو اشتراک کو وسیع کریں۔ اس سلسلے میں دفاع، مشینری، صنعت، توانائی سیکٹر اور کمیونیکیشن کے میدانوں میں پیش رفت کی بہت گنجائش ہے۔ پاکستان ، جس کا افغانستان سے نیٹو اور امریکی افواج کے انخلا میں اہم کردار ہے، کو پیداہوتی ہوئی نئی علاقائی صورت ِ حال پر توجہ دینی چاہئے اور یواین کی طرف سے افغانستان میں قیامِ امن اور اس کی آزادی کے لئے کی جانے والی کوششوں کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لئے اپنا کردار اداکرنا چاہئے۔اب جبکہ امریکہ افغانستان سے انخلا کے لئے تیار ہے، پاکستان ای سی او اورایس سی او کی کاوشوںکو مربوط کرنے کی کوشش کر سکتا ہے تاکہ علاقائی مسائل کے حوالے سے ان دونوں تنظیموں کے افعال میں اشتراک پیدا کیا جاسکے۔ ان دونوںتنظیموںکے رکن ممالک کے درمیان دفاعی اور معاشی ادغام اس علاقے کو دنیا کا معاشی پاور ہاﺅس بنادے گا۔ اس کے علاوہ یہ اقدام علاقائی اور عالمی امن و استحکام میںاہم کرداراداکرے گا۔   ٭

مزید :

کالم -