فلم انڈسٹری کی ناکامیوں کی داستان میں ایک اورسال کا اضافہ
لاہور(حسن عباس زیدی سے)پاکستان فلم انڈسٹری کی ناکامیوں کی داستان میں ایک اورسال کا اضافہ ہوگیا ہے۔ رواں سال کے آغاز میں فلم انڈسٹری سے وابستہ تمام افراد نے بہت سے دعوے کئے تھے لیکن تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور عملی طور پر کوئی ٹھوس چیز سامنے نہیں آسکی۔ سال2014ءمیں فلم ا نڈسٹری کے مسائل جوںکے توں رہے اورفلم سازی کے رحجان میں بھی کمی دیکھنے میں آئی۔ فلمی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنی کم تعداد میں فلمیں ریلیز ہوئیں ۔سال2014ءمیں صرف چند فلمیں ریلیز ہوئی ہیں۔ ان فلموں میں ہدایتکاربلال لاشاری کی ”وار “ بزنس کے اعتبار سے سے کامیاب فلم قرار پائی ۔باقی فلمیں کوئی خاص بزنس نہیں کرپائیں جن کی ناکامی کی وجہ سے سے لالی ووڈ کوکروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ جرار رضوی نے فلم ”امن کی آشا“بنانے کابھی اعلان کیا تھا لیکن تاحال اُس کی شوٹنگ شروع نہیں ہوسکی۔ سال2013ءمیں بھی سب سے زیادہ کامیاب اور مقبول فنکارشان رہے تھے کیونکہ”وار“کی صورت میں انہوں نے سال کی واحد ہٹ فلم دی تھی۔پنجابی اور پشتو فلم کی کامیاب ترین اداکارہ ندا چوہدری قرار پائی تھیں۔جس طرح سال2013ءمیں فلم سازی کے رحجان میںبہتری آئی ہے ۔گزشتہ سال نمائش کے لئے پیش کی جانے والی دوسری کامیاب فلم ”میں ہوں شاہد آفریدی “تھی اس کے علاوہ ”عشق خدا “”ڈرٹی گرل“”سُپر گرل“اور”ضدی پختون“نے بہتر بزنس کیا۔”’لباس“’چنبیلی “اور”زندہ بھاگ“کسی قسم کا تاثر چھوڑنے میں ناکام رہی تھیں ۔کنول الیاس ،ماہ نور بلوچ اور مہرین سید کی پہلی پہلی فلم ریلیز ہوئی لیکن یہ تینوں ٹاپ ماڈلز سلور سکرین پر ناکام قرار پائیں تھیں۔گزشتہ برس سرائیکی اور پشتو فلمیں بھی ریلیز ہوئیں ۔ پشتو فلموں نے بہتر بزنس کیا تھاجبکہ کم لاگت سے تیار کی سرائیکی فلمیں زیادہ بزنس نہ کرسکیں۔ سید فیصل بخاری کی فلم ”سلطنت“مکمل ہونے کے باوجود ریلیز نہیں ہوسکی۔اس سال عید پر”سلطنت“ کی ریلیز کی توقع ہے۔بھارتی فلموں کی نمائش کورکوانے اور پاکستان فلم انڈسٹری کی بقاءکے لئے چلائی جانے والی تحریک آپسی نا اتفاقی اور انتشار کے باعث ناکام ہوگئی ہے۔باوثوق ذرائع کے مطابق ماضی میں بھی اس قسم کی کئی تحریکیں آپسی سیاست کی نظر ہوچکی ہیں۔چند لوگوں پر مبنی اس ٹولے کے لیڈر شوکت زمان بھی مایوس ہوکر واپس کراچی چلے گئے ہیں۔بھارتی فلموں کی نمائش کی حامی لابی کا کہنا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو فلمی صنعت کی تباہی کے ذمہ دار ہیں اور اب سینما انڈسٹری کو تباہ کرنے پر تُل گئے ہیں اگر سینماﺅں میں بھارتی فلمیں نہ لگتیں تو آج اس ملک میں کوئی بھی سینما باقی نہ ہوتا ۔پروڈیوسرذوالفقار مانا کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں کوئی بھی شخص گھاٹے کا سودا کرنے کو تیار نہیں ہے۔ان حالات میںفلم میں سرمایہ کاری سراسر نقصان ہے۔بھارتی فلموں کی نمائش کی مخالفت کرنے والوں میں ایک بھی پروڈیوسر فلم بنانے کے لئے تیار نہیں ہے یہ سب سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے کیا جارہا تھا۔ سینئر فلمساز مشتاق زیدی نے کہا کہ لالی ووڈ میں لابی ازم ہمیشہ سے اس کی وجہ سے یہ صنعت تباہ ہوئی ہے یہ ہر اُس شخص کی جڑیں کاٹتے ہیں جو حق کی بات کرتا ہے نئے آنے والوں کے ساتھ ان کا سلوک بہت بُرا ہوتا ہے۔
اب فلم انڈسٹری کو بچانے کی باتیں احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے سید نور جو بھارت کی مخالفت میں سب سے آگے تھا وہ خود پیسے کی خاطر بھارتی گلوکار دلیر مہدی کی فلم کو ڈائریکٹ کرچکا ہے۔فلمی صنعت کی اکثریت کے قول و فعل میں کھلا تضاد ہے۔فلمی صنعت کے زوال کا ایک سبب میڈیا سے دوری ہے ہم لوگ میڈیا کی اہمیت کو جانتے ہی نہیں ہیں۔سٹار میکر جرار رضوی کا کہنا ہے کہ باتوں میں سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں لیکن عملی طور پر یہ سب صفر ہیں وہ لوگ کہاں ہیں جنہوں نے اس انڈسٹری سے کروڑوں روپے کمائے ہیں وہ سب لوگ اگر ایک ایک فلم بھی شروع کریں تو فلمی صنعت کا بحران ختم ہوسکتا ہے۔مفاد پرست اور ابن الوقت لوگوں کی وجہ سے آج ہمارے نگار خانے ویران پڑے ہیں۔میں نے فلم انڈسٹری کی بقاءکی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ہم لوگوں نے اگلی نسل کو تیار ہی نہیں کیا جس کی وجہ سے ہم برباد ہوچکے ہیں ۔پرویز کلیم کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ ہماری تحریک ناکام ہوچکی ہے کچھ ملک دشمن ہمارے خلاف پراپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں اُن کو مُنہ کی کھانی پڑے گی پاکستان فلم انڈسٹری ایک بار پھر عروج پائے گی اس کو دوبارہ عروج تک ہمارے ملک کے نوجوان لے کر جائیں گے۔سینما مینجمینٹ ایسوسی ایشن کے چئیر مین قیصر ثناءاللہ نے کہا کہ بھارتی فلموں کی نمائش ہماری مجبوری ہے کیونکہ اس صنعت سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اگر سینما بند ہوگئے تو کئی گھروں کے چولہے بند ہوجائیں گے۔میری کوشش ہوتی ہے کہ میرے سینما میں پاکستانی فلمیں ہی نمائش کے لئے پیش کی جائیں۔اس وقت بھی میٹروپول سینما میں پاکستانی فلم”اتھرا“ لگی ہوئی ہے۔