انگریز چلے گئے مگر انگریز ی زبان نہیں گئی ،اردو کی ترویج کیلئے سنجیدہ کوششیں کی جائیں ،جسٹس جواد

انگریز چلے گئے مگر انگریز ی زبان نہیں گئی ،اردو کی ترویج کیلئے سنجیدہ کوششیں ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

                                                       لاہور(نامہ نگار خصوصی)سپریم کورٹ آف پاکستان کے مسٹر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ انگریز ملک سے چلے گئے مگر انگریزی زبان نہیں گئی، اردو زبان کی ترویج کیلئے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے، پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں ماحولیاتی انصاف و پانی کے حوالے سے منعقدہ ایک روزہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے معاشرے میں طبقاتی تفریق بہت زیادہ بڑھ گئی اور پاکستان میں زبان اور پانی کا استعمال بھی لوگوںکے رہن سہن کے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کانفرنس میں لاہور ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحبان، صوبہ پنجاب کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز اور سینئر سول ججز کے علاوہ ضلعی عدلیہ لاہور کے جج صاحبان نے شرکت کی۔ کانفرنس کا اہتمام کمیٹی برائے ترویج ماحولیاتی انصاف کی جانب سے بین الاقوامی یونین برائے تحفظ قدرت کے پاکستان چیپٹرکے تعاون سے کیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ پاکستان کے مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی مذکورہ کمیٹی کے چیئرمین ہیں جبکہ پاکستان کی تمام ہائی کورٹس سے ایک ایک جج اس کمیٹی کے ارکان ہیں۔ عدالت عالیہ لاہور سے مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ کمیٹی کے رکن ہیں۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہمارے معاشرے کا غریب آدمی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں جبکہ پسماندہ علاقوں میں انسان اور جانور ایک ہی جگہ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔انہوں نے کہا کہ گرین کورٹس ماحولیات کو تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ فاضل جسٹس نے کہا کہ زبان بھی لوگوں میں درجہ بندی کو واضح کرتی ہے جیسے کہ طبقہ اشرافیہ انگریزی بولنے کو ترجیح دیتا ہے۔ حاضرین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں پر کوئی بھی شخص بیرون ملک سے موجود نہیں لیکن پھر بھی ہم انگریزی میں بات کر رہے ہیں، انگریز خطے کو چھوڑ چکے ہیں لیکن انگریزی تاحال یہاںموجود ہے۔ انہوں نے کہا وہ اردو میں فیصلے لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی جو علم کا ایک گہوارہ ہے کو بھی انہی خطوط کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے اور ہر شخص کو قومی زبان کی ترویج کےلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔کمیٹی برائے ترویج ماحولیاتی انصاف کے چیئرمین جسٹس انوار ظہیر جمالی نے ماحولیاتی انصاف کے نظام کو موثر بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ یہ کانفرنس صوبے بھر میں گرین بنچوں کو فعال بنانے میں ممدو معاون ثابت ہوگی۔ اس موقع پر کمیٹی کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے گرین بنچوں کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ گرین کورٹس عام عدالتوں سے مختلف ہیں کیونکہ یہ فطرت کو انصاف فراہم کرتی ہیں جو کہ مقدمہ میں فریق نہیں ہوتی۔ انہوں نے گرین بنچوں کے ججوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ انہیں ماحولیاتی مقدمات کی سماعت کرتے وقت ذہنی وسعت کا مظاہر ہ کرنا ہوگا ۔ فاضل جسٹس نے کانفرنس کی اہمیت اور افادیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے انسان کی بنیادی ضرورتوں کے بارے سود مند معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ انہوں نے سول سوسائٹی ، این جی اوز اور حکومت کی طرف سے ضروری معاونت اور تعاون کی خواہش ظاہر کی تاکہ فطرت کے تحفظ کےلئے گرین کورٹس زیادہ بہتر انداز میں کام کر سکیں۔ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل سہیل ناصر نے جسٹس جواد ایس خواجہ اور دیگر مقررین کی تجاویز کو سراہا اور کہا کہ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ انہوں نے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کو گرین کورٹس کی معاونت کی ذمہ داری سونپی ہے اور وہ اسے بطریق احسن پوری کرنے کی کوشش کریں گے۔ کانفرنس سے چیئرمین آئی یو سی این محمود اختر چیمہ، سینئر آبی ماہر ڈاکٹر شاہد احمد، سابق سیکرٹری آبپاشی و زراعت عارف ندیم، ایم ڈی این ای سی پاکستان اظہر الدین خان، پی آئی ای ڈی آر کے چیئرمین سید ایوب قطب،ایڈووکیٹس احمد رافع عالم اور جواد حسن، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راولپنڈی اور سینئر سول جج لاہور محمد شیر عباس نے صاف پانی کی افادیت اور آلودہ پانی کے نقصانات کے بارے میں اپنے خیالات و تجربات کا اظہار کیا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے جسٹس منصور علی شاہ کے ہمراہ مقررین کو شیلڈز پیش کیں۔

مزید :

علاقائی -