اسلامی تاریخ اور شخصیات کے مجسمے

اسلامی تاریخ اور شخصیات کے مجسمے
اسلامی تاریخ اور شخصیات کے مجسمے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پیپلزپارٹی کے جیالوں نے اپنی مرحوم لیڈر کی محبت میں مجبور ہوکر وہ کام بھی کر ڈالا جو 1400 سال کی اسلامی تاریخ میں آج تک نہ ہوا۔ جی ہاں، ان جیالوں نے اپنی محبوب رہنما کا ایک مجسمہ کراچی کے علاقے بے نظیر پارک (کلفٹن پارک) میں لگادیا ہے۔ یہ مجسمہ بے نظیر کی 61 ویں سالگرہ کے موقع پر لگایا گیا ہے۔ صوبائی وزیر روبینہ قائم خانی نے مجسمہ بنانے والے کاریگر مبارک مہدی کو ایک لاکھ روپے کا انعام بھی دے دیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بھی سیاستدان کا مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔
یہ مجسمہ نصب ہونے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ اسلامی تاریخ میں کتنے عظیم رہنما اور حکمران گزرے ہیں ،مشرق سے مغرب تک ان رہنماﺅں کی دھوم رہی لیکن کسی کا مجسمہ نہ بنا۔ سوچتے ہوئے میں حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں گیا، اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری ہے۔ عوامی فلاح کا ایک عظیم الشان سسٹم شروع ہوچکا ہے ۔ان کے بعد دیگر جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ اجمعین کا دور آتا ہے لیکن کہیں بھی مجسمہ سازی موجود نہ ہے۔ مسلمان جزیرہ نما ہسپانیہ میںداخل ہوچکے ہیں۔ مقامی آبادی کی فلاح جاری ہے لیکن یہاں بھی کسی مسلمان حکمران کا مجسمہ دیکھنے کو نہیں مل رہا۔مسلم سپین جو یورپ کے لئے ایک مثالی علاقہ بن چکا ہے، تعلیم اور سائنسی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے، دنیا میں کہیں بھی کوئی کتاب لکھی جا رہی ہے وہ سپین کی لائبیریوں میں منگوا کر رکھی جا رہی ہے۔مسلمانوں نے تمام غیر مسلموں کو برابری کے حقوق دیئے ہوئے ہیں،آج بھی سپین جائیں تو آپ کو مسلم حکمرانوں کے نشانات محلات اور مساجد کی صورتوں میں ملیں گے لیکن کہیں بھی آپ کو کسی بھی حکمران کا بت نہیں ملے گا۔
 دوسری جانب بغداد میں عباسی حکمران کام کررہے ہیں سائنسی تحقیقات جاری ہیں لیکن کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آرہا کہ اس کے چاہنے والے اس کا بت بنائیں۔
شام میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف تمام یورپ اکٹھا ہو چکا ہے اور پے در پے حملے کر رہا ہے لیکن آخر کار سلطان کو تمام یورپ کے خلاف فتح نصیب ہوئی ہے اور یروشلم میں مسلمانوں کے نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے لیکن پھر بھی کہیں آپ کو سلطان صلاح الدین ایوبی کا بت نظر نہیں آرہا۔
اب قسطنطنیہ (استنبول)چلتے ہیں جہاں مسلمانوں نے کامیاب حملہ کرتے ہوئے سلطان محمد فاتح کی قیادت میں قسطنطنیہ فتح کرلیا ہے۔ یہ وہی لشکر ہے جس کے جنتی ہونے کی بشارت نبی کریمﷺ نے دی ہے۔ سلطان محمد فاتح نے فتح کے بعد مسجد کی تعمیر شروع کروادی ہے۔ ان کے بعد ان کی نسل میں سلیمان خلیفہ بنا۔ یہ وہی عثمانی حکمران ہے جسے مغربی تاریخ دان سلیمان عالیشان کے نام سے جانتے ہیں لیکن آج تک پورے ترکی میں آپ کو کہیں بھی کسی بھی خلیفہ کا بت لگا ہوا نہیں ملے گا۔
اب برصغیر کی طرف آتے ہیں جہاں دہلی میں مسلمانوں نے حکومت کی بنیاد رکھ دی ہے۔ مختلف مسلم خاندان سے ہوتا ہوا تاج دہلی اب سلطنت مغلیہ کے پاس ہے۔ جلال الدین محمد اکبر ہندوﺅں کے ساتھ بہت قریبی تعلق رکھتا ہے۔ ہندو اس کی پوجا خدا کی طرح کررہے ہیں لیکن یہ کیا، اکبر یا اس کے حامیوں نے کسی بھی طرح کے بت نہ بنائے ہیں۔
 غرض کہ اسلامی تاریخ میں کہیں بھی آپ کو حکمرانوں کے مجسمہ (بت) نہیں ملیں گے اس کی واضح وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ابتدا ہی سے بت بنانے اور انہیں پوجنے سے روک دیا گیا تھا۔ گو کہ جدید دور میں عراق میں سابق صدر صدام کے قد آور مجسمے لگائے گئے لیکن ان کا انجام بھی آپ کے سامنے ہے۔
ماضی میں مسلمانوں نے تمام علوم پر خصوصی توجہ دی، آرٹ اور کلچر کو فروغ دیا لیکن کبھی بھی زندہ یا مرحوم حکمران کا بت بنانے کا سوچا بھی نہیں۔ وہ پاکستان جس کی بنیادقائداعظم محمد علی جناح نے رکھی لیکن ان کے بت یا مجسمے آپ کو کہیں نہ ملیں گے لیکن آج ایک دم ایسا کیا ہو گیا کہ اب پاکستان میں سیاستدانوں کے مجسمے لگنا شروع ہوگئے ہیں۔

مزید :

بلاگ -