زرداری کا بیان: نفع یا نقصان؟
کراچی کی صورت حال بڑی پیچیدہ ہے، کئی شاخوں پر الو بیٹھے ہیں، جس جرم پر سے پردہ اٹھایا جاتا ہے اس کے ڈانڈے کسی نہ کسی بڑی شخصیت سے ملے ہوئے ملتے ہیں، ایسے لگتا ہے کہ یہی بڑی مچھلیاں کراچی کے جل کو گندا کئے ہوئے ہیں، اس سب کچھ کا پتا چلانے میں رینجرز پہلے سے زیادہ فعال ہو گئی ہے، اس کی ضرورت طویل عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی۔دہشت گردی کی لعنت کے علاوہ بھی صورت حال کتنی سنگین ہے؟ اس کا اندازہ ڈائریکٹر جنرل رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر کی حکام کو بھیجی گئی ایک رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق کراچی میں غیر قانونی ہتھکنڈوں کے ذریعے سالانہ دو کھرب تیس ارب روپے اکٹھے کئے جاتے ہیں، یہ رقوم اعلیٰ شخصیات کو بھی جاتی ہیں اور لیاری میں لڑنے والے گروپوں میں بھی تقسیم ہوتی ہیں۔ یہ رقوم حاصل کہاں کہاں سے کی جاتی ہیں؟ اس راز سے پردہ اٹھنے سے بہت سے عجیب و غریب حقائق سامنے آتے ہیں اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ان رقوم سے کس کس کو اسلحہ مہیا کیا جاتا ہے۔ ان رقوم سے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مسلح ونگ بھی چلائے جاتے ہیں۔ یہ رقوم زکوٰۃ، فطرانے اور قربانی کی کھالوں،شہریوں کو پانی کی فراہمی، ایرانی تیل کی سمگلنگ ، زمینوں پر ناجائز قبضے اور بھتے سے حاصل کی جاتی ہیں۔
یہ رپورٹ ایک اجلاس میں پیش کی گئی،جس میں سندھ کے گورنر اور وزیراعلیٰ بھی موجود تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اراضی پر ناجائز قبضے کے لئے بنی ہوئی مافیا زمیں سیاسی جماعتیں، شہری حکومت، ضلعی انتظامیہ، پولیس اہلکار اور پراپرٹی ڈیلر شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے بعد معاملات رفتہ رفتہ آگے بڑھنے لگے۔۔۔وزیراعظم نوازشریف نے کراچی میں منعقدہ ایک اجلاس میں ڈی جی رینجرز کی فہرست میں شامل بیس سے زائد بااثر افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔اجلاس میں موجود وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے اپنی پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا یہ پیغام نوازشریف کو پہنچایا کہ ایسا ماحول نہ بنایا جائے، جس میں سیاسی جماعتوں اور سیکیورٹی اداروں کے درمیان کشیدگی پیدا ہو۔یہ آصف علی زرداری کا انتباہ تھا، جو بند کمرے میں وزیراعظم کو پہنچایا گیا، مگر نہ تو وزیراعظم اس دھمکی میںآئے نہ سیکیورٹی اداروں نے کراچی کو جرائم پیشہ افراد سے پاک کرنے کی کارروائیاں روکیں۔ اسی دوران میں حکومت نے پاکستان آرمی ترمیمی آرڈیننس میں قومی اسمبلی سے چار ماہ کے لئے توسیع کرالی۔ آصف علی زرداری نے اس کا مطلب یہ لیا کہ ان کی دھمکی بے اثر رہی ہے۔ اس دھمکی میں زور ڈالنے کے لئے انہوں نے اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی کی کردار کشی نہ رکی تو پورا ملک بند کر دیا جائے گا۔ مزید یہ کہ وہ پاکستان کے اب تک کے تمام فوجی آمروں کا کچا چٹھا کھول دیں گے۔
اس سے یہ تاثر ابھرا کہ آصف علی زرداری نے پارٹی رہنماؤں کو کراچی کی صورت حال میں ’’مجرم‘‘ قرار دیئے جانے پر اپنا غصہ نکالا ہے، اس سے جہاں سیکیورٹی اداروں کے تحفظات بڑھے، وہاں وزیراعظم نوازشریف کی پوزیشن بھی کافی خراب ہوئی، کیونکہ ’’نواز زرداری بھائی بھائی‘‘ کا تاثر پورے ملک میں موجود ہے۔نوازشریف نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے روس کے دورے پر گئے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو فون کیا۔ یہ بظاہر بڑی غیر معمولی ٹیلی فون کال تھی، جس سے اندازہ ہوا کہ وزیراعظم کے لئے صورت حال کتنی سنگین ہے۔اگلے ہی روز اسلام میں پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے ’’فوجی آمروں‘‘ کے خلاف آصف علی زرداری کے بیان کی نہ صرف تائید کی، بلکہ یہ ہلہ شیری بھی دی۔۔۔ ’’لڑنا ہے تو ڈٹ جائیں، پوری پارٹی آپ کے ساتھ ہے‘‘۔۔۔ دوسری طرف سیکیورٹی اداروں نے کراچی میں اراضی قبضہ مافیا کے خلاف کارروائیاں تیز کر دیں اور آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں محمد علی شیخ اور سابق ٹی ایم او ممتاز زرداری کو گرفتار کر لیا گیا۔
اس سے پہلے فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے وائس چیئرمین سلطان قمر صدیقی کو بھی رینجرز نے گرفتار کیا، ابتدائی تفتیش میں ملزم نے انکشاف کیا کہ وہ کرپشن سے حاصل ہونے والی رقم کا ستر فیصد حصہ بلاول ہاؤس کو دیتے تھے۔ رینجرز نے متعدد سرکاری دفاتر پر چھاپے مارے۔ اس کے بعد سے آصف علی زرداری نے سیکیورٹی اداروں کے خلاف باقاعدہ سیاسی صف بندی شروع کر دی اور ان اداروں پر دباؤ ڈالنے کے لئے اپنے افطار ڈنر میں آئے ہوئے اتحادیوں سے کراچی کی صورت حال پارلیمنٹ میں اٹھانے پر مشاورت کی۔ اس طرح انہوں نے پہلے اپنی پارٹی کو اعتماد میں لیا،پھر اتحادی جماعتوں کو۔ آصف علی زرداری کے اس متنازعہ بیان سے اگلے روز وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے ڈی جی رینجرز کو ایک خط بھی لکھا،جس میں ان پر اختیارات سے تجاوز کا الزام لگایا گیا اور کہا گیا کہ وہ اپنی قانونی حدود میں رہیں۔ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل فوجی ہیں، میجر جنرل ہیں اور فوجی وردی پہنتے ہیں، اس خط میں جو زبان استعمال کی گئی وہ براہِ راست پاک فوج کے وقار کے منافی تھی۔ لگائے گئے الزامات اس لئے غلط ہیں کہ قوانین میں بار بار ترامیم کرکے پہلے ہی رینجرز کو کراچی میں وسیع اختیارات دیئے جا چکے ہیں، جب رینجرز اہلکار کراچی کی صورت حال خراب کرنے والے گروپوں پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو وہ تفتیش کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنماؤں کے گریبانوں تک جاپہنچتا ہے، یہی کچھ آصف علی زرداری کے ساتھ ہو رہا ہے۔
بجائے اس کے کہ آصف علی زرداری حقائق کو تسلیم کرتے اور کراچی کی صورت حال بہتر بنانے میں مدد دیتے، انہوں نے سیکیورٹی اداروں سے محاذ آرائی شروع کر دی۔انہوں نے جس روزوزیراعلیٰ سندھ سے الزامات پر مبنی خط ڈی جی رینجرز کو لکھوایا، اس سے اگلے ہی روز کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے کراچی میں صورت حال معمول پر لانے کی کوششوں کے حوالے سے رینجرز کو شاباش دی۔ اگرچہ فورسز نے آصف علی زرداری کے متنازعہ بیان کا براہ راست تو کوئی جواب نہیں دیا، مگر حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ آصف علی زرداری کراچی کی صورت حال کے حوالے سے فورسز کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔آصف علی زرداری ایک بڑی پارٹی کے شریک سربراہ ہیں۔ وہ اور ان کی پارٹی بہت طاقتور ہے، مگر وہ اپنی یہ طاقت سیاست کے میدان میں آزماتے تو بہتر ہوتا، ان کی پارٹی کو اس کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بے اثر ہو کر سندھ تک محدود ہو چکی ہے۔ اگر وہ اپنی طاقت پیپلزپارٹی کو پھر سے ملک کی سب سے بڑی پارٹی بنانے میں صرف کرتے تو انہیں فائدہ ہوتا، پارٹی کو سیکیورٹی فورسز کے سامنے صف آرا کرنے سے نقصان ہی ہو سکتا ہے۔