ترقی پذیر دنیا کی کینسر کے خلاف جنگ
شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال
اینڈ ریسرچ سینٹر
ترقی یافتہ ممالک نے کینسر کے خلاف جنگ میں جہاں کامیابیاں حاصل کی ہیں وہیں ان ممالک نے ناکامیاں بھی اٹھائی ہیں۔ کینسر کے علاج کیلئے وقت نے ایک لمبی مسافت طے کی ہے، جس میں کینسر کو کاٹنا یعنی سرجری، کینسرکو جلانا یعنی ریڈی ایشن اور کینسر کو زہر دینا یعنی کیموتھراپی شامل ہیں۔ یہ صرف فلسفہ ہمدردی اور خدمت خلق سے ممکن نہ تھا بلکہ امریکہ کی عوام نے اپنی حکومت کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ ملک پر کینسر کے بوجھ کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور اتنے فنڈ فراہم کریں جس سے کینسر کے علاج کیلئے تحقیق اور طریقہ علاج میں ترقی ممکن ہوسکے جو کہ اُس وقت قدیم طریقوں پر رائج تھے۔اس طرح 1937ء میں کانگریس نے نیشنل کینسر ایکٹ منظور کیا جس میں تحقیق کیلئے فنڈ رکھے گئے۔ دوسری طرف، ترقی یافتہ دنیا کو جن دیگر مسائل کا سامنا ہے وہ الگ،لیکن ترقی پذیر دنیا کو کینسر کی مختلف صفات کی مشکلات درپیش ہیں، جو پہلے سے موجود پیچیدہ بیماری کو مزید پیچیدہ بنانے کا موجب ہیں۔ لہٰذا وقت کی ضرورت ہے کہ ان ممالک میں کینسر سے لڑنے کیلئے توجہ کو زیادہ تحقیق و جستجو پر مرکوز کیا جائے اور اپنی کوششوں کو اس کام کیلئے وقف کیا جائے۔
غربت سے متاثرہ علاقوں میں ، سب سے پہلے، کینسر کے مریضوں کو ’’رسائی‘‘ کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اُن کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ وہ ڈاکٹر کو چیک اَپ کرواسکیں، کیونکہ یا تو ہسپتال پہنچنے کیلئے سفر کے اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے یا وہ تشخیصی ٹیسٹ اور ڈاکٹروں کی فیس ادا نہیں کرسکتے۔ اس طرح، بروقت تشخیص نہیں ہوپاتی اور یہ دیر بہت مہلک ثابت ہوتی ہے۔دوسرا یہ کہ، عدم آگہی کی وجہ سے انہیں کچھ کینسر کی علامات کا پتہ نہیں ہوتا اور وہ اس کو نظرانداز کردیتے ہیں،اور اس معاملہ کا تب پتہ چلتا ہے جب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ تیسرا، غریب علاقوں سے تعلق رکھنے والے کینسر کے مریضوں کو بہتر خوراک بھی میسر نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ غذا کی کمی کا شکار رہتے ہیں اور اُن کیلئے کینسر کے علاج جیسا کہ کیموتھراپی کو برادشت کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ کینسر سے لڑنے کیلئے جسمانی طور پر صحتمند ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اقتصادی پس منظر اور دیگر عوامل کی محدودیت کے باعث کینسر کے علاج میں پیش ہونے والے مسائل میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔اور آخر یہ کہ، کسی بھی بیماری سے لڑنے کا اہم پہلو، خاص طور پر کینسر کی لڑائی میں مریض کا روحانی اور نفسیاتی طور پر مضبوط ہونا بہت اہم ہوتا ہے۔غربت کا بوجھ بیماری کے بوجھ میں اضافہ کا باعث ہوتا ہے اور مریض کو نفسیاتی طور پر شکست خوردہ بنا دیتا ہے۔
شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر نے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے کینسر کے مریضوں کی مندجہ بالا مشکلات سے نبٹنے کیلئے بھرپور کوششیں کی ہیں۔ ہسپتال کا مشن اس بارے میں قابل ذکر اور دوربینی کا منبہ ہے کہ کیسے ان مشکلات و مصائب کو حل کرنا ہے۔ ’’ بطور ایک مثالی ادارہ، جدید علاج اور مرض کی شدت کم کرنے کے طبّی طریقوں کے ذریعے کینسر میں مبتلا مریضوں، قطع نظر کہ وہ اخراجات ادا کرسکتے ہیں یا نہیں، کو جدید معالجاتی سہولیات اور خدمات فراہم کرنا نیز طبّ سے وابستہ اور عام افراد کی تعلیم و تربیت اور کینسر کی وجوہات اور اس کے علاج پر تحقیق کرنا ‘‘ہسپتال کا مشن ہے۔ہسپتال کے مشن کے مطابق، سب سے پہلے، پاکستان کے ہر شہری کو کینسر کی تشخیص اور علاج کی سہولیات کی مساواتی سطح پر رسائی حاصل ہے، قطع نظر کہ اُن کا اقتصادی، مذہبی وغیرہ کا پس منظر کیا ہے۔ ایک مریض کا علاج صرف انسان کے طور پر کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں پرکھا جاتا۔ ہسپتال کی طرف سے پاکستان کے چار شہروں لاہور، پشاور، کراچی اور ملتان میں واک اِن کلینک قائم کئے گئے ہیں جہاں کینسر کی سکریننگ کیلئے سہولیات موجود ہیں۔اس طرح پاکستان کے کسی بھی علاقے میں شہریوں کیلئے ان سہولیات کی رسائی ، اُن کے گھروں کے نزدیک ممکن بنائی گئی ہے۔دوسرا، ہسپتال نے مختلف قسم کے کینسروں کے بارے میں عوامی شعور پیدا کرنے میں بہت کوششیں کی ہیں، خاص طور پر وہ کینسر جن کی شرح ملک میں سب سے زیادہ ہے، یعنی چھاتی کا کینسر اور تمباکو کے استعمال سے ہونے والے کینسر۔ بیداری کیلئے کالجوں،یونیورسٹیوں میں آگہی کے سیشن، ہسپتال میں آگہی کے سیشن جن میں طلباء و طالبات شرکت کرتے ہیں، سکولوں کی سطح پر پوسٹر بنانے کے مقابلے (ابتدائی عمر میں بچوں میں بیداری کیلئے اینٹی تمباکو پوسٹر مقابلہ)، عوامی آگہی کیلئے ’’پولو اِن پنک‘‘ جو کہ بریسٹ کینسر سے متعلق ہے، اور اردو اور انگریزی زبانوں میں معلوماتی کتابچوں کی مفت تقسیم شامل ہے جو کہ ہسپتال کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔
تیسرا بہت بڑا مسئلہ، غذا اور غذائیت کی شدید کمی سے متعلق ہے۔ یہ مسئلہ اتنا بڑا ہے کہ ہسپتال کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ عوامی سطح پر اس کو حل کر سکے، لیکن ہسپتال میں داخل مریضوں کی تربیت یافتہ نیوٹریشنسٹس کے تعاون سے بھرپور مدد کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، جس مریض کے علاج کیلئے سو فیصد مدد ہسپتال کررہا ہوتا ہے ، اُس کی خوراک کا ذمہ بھی ہسپتال اٹھاتا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی بھی پاکستانی اُس مریض کی خوراک کی ذمہ داری بھی اٹھاسکتا ہے۔ آخر میں، شوکت خانم کینسر ہسپتال میں طبی صحت کی دیکھ بھال کا سیکشن (اینسلیری ہیلتھ کیئر) ہے جوکہ مریضوں کی نفسیاتی اور غذائی ضروریات کی مدد کیلئے وقف ہے۔ہسپتال اپنے مریضوں کے علاوہ مریضوں کے خاندانوں کیلئے مشاورت فراہم کرتا ہے۔ ہسپتال میں بچوں کیلئے کھیلوں کا ایک کمرہ (پلے روم) ہے جس میں مریض بچوں کیلئے پلے تھراپسٹ کا بندوبست کیا گیا ہے، جہاں پر ان مریض بچوں کو مختلف مشاغل میں مصروف رکھا جاتا ہے تاکہ اُن کا دھیان، دورانِ تکلیف دہ علاج، بٹایا جاسکے۔ تعلیم ہمارے ملک میں ایک بڑا مسئلہ ہے جس کو ریاست کی مدد اور توجہ کے بغیر حل نہیں کیا جاسکتا۔ ہسپتال کا سکولنگ پروگرام مریض بچوں کی تعلیم کو جاری رکھنے میں بہت معاون ثابت ہورہا ہے۔ یہ پروگرام نہ صرف پہلے سے سکول جانے والے مریض بچوں کیلئے معاون ہے بلکہ ایسے مریض بچے، جنہوں نے مختلف وجوہات کے سبب سکول میں قدم نہیں رکھا ، بہت فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔ ہسپتال اِن زیر علاج بچوں کو بنیادی نصاب کی تعلیم دیتا ہے، اور والدین کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ علاج کے بعد بھی اپنے بچوں کی تعلیم جاری رکھیں۔
آئیے، کینسر کی وجہ سے عالمی صورتحال کی شدت کو سمجھنے کیلئے ایک مثالی تصور کریں کہ آپ ایک چھوٹے سے کمرے میں ہیں، جو ہماری دنیا کی نمائندگی کرتا ہے اور اس میں آپ کے علاوہ سات اور لوگ موجود ہیں اور آپ میں سے ایک شخص کینسر کی وجہ سے موت کے قریب ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کے مطابق کینسر کے مریضوں کی تعداد کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں زیادہ ہے۔ ان ممالک کے لوگ جوانی میں ہی دائمی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں،طویل عرصے تک تکلیف میں مبتلا رہتے ہیں ، اکثر ایسی پیچیدگیوں کے سبب جن سے بچا جاسکتا ہے، اور زیادہ آمدنی ممالک کے باسیوں کی نسبت، جلدی مر جاتے ہیں۔امریکن کینسر سوسائٹی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کینسر اقتصادی ترقی سے متعلق طرز زندگی اور طرز عمل کے ساتھ منسلک ہے۔ ان کینسروں میں پھیپھڑوں، چھاتی اور آنتوں کے کینسر بھی شامل ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں کینسر کا اضافہ جاری رہے گا اگر بڑے پیمانے پر حفاظتی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ امریکن کینسر سوسائٹی کا مزید کہنا ہے کہ 2030ء تک کینسر کا عالمی طور پر بوجھ بڑھ کر تقریباً دوگنا ہوجائے گا، یعنی دو کروڑ چودہ لاکھ نئے کینسر کے مریض اور ایک کروڑ بتیس لاکھ اموات۔یہ اضافہ غیر صحتمند طریقہ زندگی کو اپنانے یا قائم رکھنے اور اقتصادی ترقی سے متعلق طرز عمل مثلاً تمباکو نوشی، کم غذا اور جسمانی مشقت کی کمی جیسے عوامل کے سبب ہوگا۔ حقیقت میں یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن اس سے نبٹنا ناممکن نہیں ہے ۔ ہم جیسے ادارے جو نجی، عوامی اور غیرمنافع بخش شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں ایک قومی مسئلہ کے طور پر شریک ہونے اور کینسر کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے ساتھ باہمی اتفاق سے نبرد آزما ہوا جاسکے۔ صرف یہی ایک طریقہ ہے جس سے ہم کینسر سے بچنے کی اُمید کرسکتے ہیں۔
نوٹ: اس مضمون کے اعداد وشمار گلوبل کینسر فیکٹس اینڈ فگرز کے دوسرے ایڈیشن اور اس کی تعلیمی اشاعت گلوبل کینسر شماریات سے لئے گئے ہیں جو کہ سی اے کے کلیشینز کے جرنل میں شائع ہوچکا ہے۔