شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 77

شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 77
شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 77

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پیر صاحب کا برطانیہ میں آنا اللہ کی عین منشا و حکمت سے معمور تھا۔دین کی اشاعت اور بگڑی نوع انسانیت کو سیدھی راہ پر لانا اور انہیں علم کی اہمیت سے تبدیل کرنا آپ کی قسمت میں لکھا تھا۔اس کے لئے خالق دوجہاں نے اسباب کی راہ متعین کردی تھی۔یہ واقعہ 14 اگست 1947ء کے قرب و جوار کا ہے۔ اس وقت پیرصاحبکی عمر گیارہ سال تھی۔آپ کے والد گرامی سید محمد چراغ شاہ کا انتقال ہوا اور انہیں اپنے خاندان کے ساتھ چک سواری کو الوداع کہنا پڑا دراصل قیام پاکستان کی وجہ سے کشمیر کے حالات بھی بہت خراب ہو گئے تھے۔ ڈوگرہ حکومت نے مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کر دی تھی اور کشمیری مسلمان پاکستان کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ہر طرف قتل و غارت اور ظلم و تشدد کا بازار گرم ہو گیا تھا۔ چک سواری کا علاقہ بھی چونکہ ڈوگرہ حکومت کے زیرِ اثر تھا اس لئے وہاں رہنا بھی مشکل ہو گیا تھا، خاص طور پر پیر صاحب کے خاندان کیلئے کیونکہ اسلام اور پاکستان کے ساتھ ان کی جو غیر مشروط محبت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں تھی، سو پیر صاحب نے پہلی ہجرت کی اور اپنے خاندان والوں کے ساتھ پاکستان آ گئے۔

شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 76 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پاکستان آ کر آپ کے خاندان نے جہلم ضلع کے ایک معروف قصبے دینہ میں قیام کیا۔ بڑے بھائی سید ابوالکمال برق نوشاہی طب یونانی میں بھی بڑی مہارت رکھتے تھے سو انہوں نے دینہ میں دواخانہ کھول لیا اور قدوس ذوالجلال نے ان کے دست مبارک کو مسیحائی عطا فرما دی۔ یوں بہت ہی کم وقت میں وہ شفاخانہ پورے علاقے میں مشہور ہو گیا۔ کشمیر کے حالات تبدیل ہوتے ہی 1951ء میں پیر صاحب اپنے خاندان کے ساتھ واپس چک سواری لوٹ گئے۔ کچھ عرصہ چک سواری میں رہے اور پھر خاندان کے ساتھ ٹھل شریف میں سکونت اختیار کر لی۔
ٹھل ضلع جہلم کا ایک خوبصورت قصبہ ہے۔ یہیں پیر صاحب نے اپنے برادر بزرگ اور مرشد روحانی سید ابوالکمال برق نوشاہی سے تربیت حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان انہوں نے گورنمنٹ ہائی سکول چک سواری سے پاس کیا۔ اس کے بعد دارالعلوم اہلسنت مشین محلہ جہلم میں داخلہ لے لیا اور بڑے بڑے جید اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسہ غوثیہ مورگاہ راولپنڈی میں آ گئے جہاں آپ نے مفتی صادق گولڑوی جیسے صاحب بصیرت و بصارت سے اکتساب فیض کیا اور پھر اگلی منزل کی طرف روانہ ہو گئے یعنی دارالعلوم احسن المدارس راولپنڈی میں پہنچ گئے جہاں حضرت مولانا اللہ بخش، حضرت مولانا حافظ محمد عظیم اور حضرت مولانا اسرار الحق حقانی جیسے نامور اساتذہ سے روحانی اور دینی علوم حاصل کئے۔ مفکر اسلام حضرت عبدالقادر جیلانی سے فارسی زبان کی تعلیم حاصل کی اور 1961ء میں تمام علوم کی تکمیل کے اعزاز سے سرفراز ہو کر واپس ٹھل شریف چلے گئے مگر وہاں قیامت صغریٰ کی صورت حال تھی۔ ہر شخص کی زبان پر یہی تھا کہ منگلا ڈیم کی تعمیر ان کے گھروں کو بہا لے جانے والی ہے۔ ان کے امکان، ان کے اجداد کی قبریں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پانی کے تلے آنیوالی ہیں۔ وہ جو اپنے والد کی وفات کے بعد دو مرتبہ ہجرت کے خوفناک عمل سے گزر چکے تھے ایک تیسری ہجرت انہیں دکھائی دے رہی تھی۔ ایک اور نقل مکانی ان کے پاؤں میں تھی، ہجرتوں کے اس تسلسل کو ختم کرنے کیلئے انہوں نے ایک بڑی ہجرت کا فیصلہ کیا اور اپنے برادر بزرگ پیرومرشد حضرت برقؒ کے مشورے سے برطانیہ جانے کا پروگرام بنا لیا۔ یقیناً پیر سید ابوالکمال برق شاہ نوشاہی کی دورس نگاہ دیکھ رہی تھی کہ ان کا برطانیہ آنا، سلسلہ نوشاہیہ کے فیض کو عالم گیر کرنے کی پہلی کڑی ہے اور پھر وقت نے یہ ثابت کیا کہ اس ہجرت نے سلسلہ نوشاہیہ کی شہرتیں چہار دانگ پھیلا دیں۔ ہجرت کا عمل شروع ہوا پیر سید معروف حسین شاہ نے برطانیہ ہجرت کی اور ان کا خاندان ٹھل سے ہجرت کر کے ڈوگہ شریف منتقل ہو گیا یعنی ہجرت مکمل ہو گئی۔ برطانیہ میں پیر صاحب کی آمد یقیناً کئی تبدیلیوں کے امکان ساتھ لے کر آئی تھی۔آپ بھی ایک نئی دنیا سے متعارف ہوئے لیکن یہ دنیا آپ کی دنیا سے بہت مختلف تھی۔
لیاقت حسین نوشاہی حضرت پیر سید معروف حسین عارف نوشاہی قادری نوشاہی کی خدمات ملیہ اورمسلمانوں کے وقار و تشخص کو بلند کرنے کی جدوجہد کے گواہ ہیں اور آپ کی ہدایت پر شب و روز خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔پیر صاحب نے برطانوی مسلمانوں کے تشخص کو بیدار کرنے اور اسے بحال و قائم کرنے کی جو تگ و دو شروع کی تھی اسے دوام و استحکام اسی صورت مل سکتا تھا جب تعلیمی طور پر مسلمانوں کو انکی شناخت کا احساس دلایا جاتا اور اسکے ساتھ برطانوی حکومت سے بات کرکے اس تشخص کو جداگانہ تحفظ دیاجاتا۔ لیاقت حسین نوشاہی کا کہنا ہے کہ پیر صاحب تعلیم و تربیت کے اداروں کی تعمیر اور قیام اور انکے بہتر نظام چلانے کے حق میں تحریک پیدا کرتے رہے ہیں کیونکہ یہی بہتر جہاد ہے اور اس سے اسلام کا روشن اور حقیقی تشخص ابھرتا ہے۔پیر صاحب صاحبان طریقت کو ظاہری اور باطنی طور پر بھی جب تعلیم و ہدایت فرماتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان کی پہچان اسکے علم سے ہوتی ہے اور یہ علم ظاہری اور باطنی تبدیلیاں پیداکرنے کا باعث بنتا ہے۔پیر صاحب نے ہم سب کو پڑھایا ہے اور علوم معرفت کے ایسے رموز سے آشنا کیا ہے جو مسلمان کی روح کو جنجھوڑ دیتے ہیں۔شدت پسندی صوفیانہ طریقت سے ختم ہوجاتی ہے لہذا پیر صاحب نے ہر اہل سلوک اور عام افراد کو بھی ایسی طرز پر تربیت فراہم کی ہے کہ وہ بہترین انسان بن جاتے ہیں۔آپ فرماتے ہیں کہ صوفیا کے آستانوں سے انسان دوستی اور علم دونوں آپس میں جڑے ہوئے ملتے ہیں اس لئے دینی تعلیم کیساتھ صوفیت کا درس لازمی ہوتا ہے۔
مرکزی امیر مرکزی جماعت اہلسنت پاکستان پیر سید عرفان شاہ مشہدی پیر صاحب کی علمی خدمات کے گرویدہ ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اولیاء کرام نے ہمیشہ علم کے فروغ کیلئے کام کیا ہے ‘ اور اولیاء کے آستانوں پر علم دوستی کو تقویت ملی ہے ۔میں نے اس وصف کو عالمی مبلغ اسلام پیر سید معروف حسین شاہ عارف قادری نوشاہی میں دیکھا ہے ۔پیر صاحب نے دنیا بھر میں دین کی تبلیغ کیلئے کام کیا ہے۔ اس کے پیچھے اْن کے بزرگوں کا کمال ہے ‘ کیونکہ آستانہ عالیہ رنمل شریف آج سے 4صدی پہلے بھی علم کا مرکز تھا ‘ اور مسلمانوں نے اپنی تعلیم اور علم کے بل بوتے پر دنیا پر راج کیا۔کیونکہ دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جنہیں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کا شوق ہو ۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم حاصل کرنے پر زور دیا ہے ۔ہمارے پیر سید معروف حسین شاہ عارف قادری نوشاہی نے اس میدان میں ایک بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔
برٹش مسلم فورم نے پیر صاحب کی دینی و سماجی خدمات پر انہیں ایوارڈ دیا تھا۔ اس کے چیئرمین چودھری خورشید نے اس موقع پر کہا تھا کہ پیر صاحب نے ورلڈ اسلامک مشن اور جمعیت تبلیغ الاسلام کے بعد برٹش مسلم فورم کی بنیاد رکھنے میں خصوصی دلچسپی لی تھی۔ یہ پیر صاحب کی بصیرت کا کمال ہے کہ آپ نے جان لیا تھا کہ برطانوی مسلمانوں میں امن و اتحاد کے لیے یک جہتی بہت ضروری ہے۔ آپ نے برطانوی مسلمانوں کو بیدار کرکے ان میں قومی اور ملّی فرائض کا شعور اجاگر کیا۔ فورم کی تشکیل کے بعد 7/7کے واقعہ نے مسلمانوں کو حقیقت میں بہت مشکل میں مبتلا کر دیا تھا لیکن پیر صاحب نے انتہائی دانشمندی اور بردباری سے حالات کا مقابلہ کیا۔ پیر صاحب کی ہستی باکمال ہے۔ آپ نے مساجد و مدارس میں کوئی ایسا تنازعہ نہیں پھوٹنے دیا جو برطانوی قوانین سے متصادم ہو۔ آپ کی اس خوبی پر برطانوی حکومت بھی آپ کی خدمات کو سراہتی ہے۔(جاری ہے)

شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 78 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں