موسموں میں رد و بدل اور مصنوعی بارش
بلوچستان حکومت نے پانی کی قلت اور خشک سالی کے خاتمے کے لئے ایک روسی کمپنی سے صوبے میں مصنوعی بارش کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ کمپنی گوادر اور انکاڑہ کور ڈیم پر مصنوعی بارش برسانے کا اہتمام کرے گی۔ یہ روسی کمپنی بلوچستان میں سالانہ تین سو ملی میٹر بارش برسانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
جدید طریقہ کار کے مطابق مختلف کیمیکلز کا سپرے کرکے سمندر کے اوپر بادل بنائے جاتے ہیں اور ان بادلوں کو کسی بھی علاقے کے اوپر لے جا کر بارش برسائی جا سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق مصنوعی بارش کے لئے بادلوں کی تہہ کافی موٹی ہونی چاہئیے۔ فضا میں 70 سے75 فیصد نمی کا ہونا ضروری ہے۔ بادلوں کی رفتار30سے 50کلو میٹر فی گھنٹہ ہونا چاہئیے۔ یاد رہے کہ اٹھارہ سال قبل سندھ کے علاقہ تھر میں بھی بارش برسانے کا تجربہ کیا گیا تھا جو کہ جزوی کامیاب رہا تھا۔ اس طرح کی مصنوعی بارش کے تجربات کرنے والا چین دنیا میں نمبر ایک ملک ہے۔ چین کے علاوہ بھارت ، متحدہ عرب امارات اور جنوبی افریقہ میں بھی مصنوعی بارش برسانے کے تجربات کئے جاتے ہیں۔
تاہم امریکہ کے متعلق کہا جارہا ہے کہ اس نے موسموں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔ اس کی ریاست ایلاسکا میں قائم تحقیقی ادارہ HARRP جس نے اپنی تحقیق کے مقاصد میں شمالی افق کی برق بار روشنیوں کی نوعیت معلوم کرنے کے علاوہ راڈار ز کی زد میں نہ آنے والے طیاروں یا راکٹوں کا سراغ لگانے اور جنگ کے دوران دشمن کی ہر طرح کی کمیونیکیشنز کو فریز کر نے اور دشمن کی آبدوزوں کا سراغ لگانے کی صلاحیت حاصل کرنا بتایا تھا۔
لیکن روس سمیت بہت سے دوسرے ملکوں اور خود ایلاسکا سے تعلق رکھنے والے امریکی ماہر ڈاکٹر ً نک ً نے اس ادارے کے کام کو خفیہ رکھنے اور اس پر دنیا کے موسموں پر کنٹرول کی صلاحیت حاصل کرلینے جسیے الزامات عائد کئے ہیں۔
بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں نصب بہت بڑے بڑے اینٹیناز کے ذریعے امریکہ بہت زیادہ بجلی پیدا کرنے کے بعد اسے الیکٹرو میگنیٹک بیم کی صورت میں کنڈنسڈ کرکے دنیا میں کسی بھی جگہ سمندر یا خشکی پر بھیج سکتا ہے اور اس کے ذریعے کسی بھی علاقے میں بارش کے علاوہ طوفان ، یا زلزلہ بھی لا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کسی بھی ایسی تحقیق یا کسی بھی ملک کی طرف سے ایسی صلاحیت حاصل کرنے پر پابندی عائد کرچکی ہے جس کی مدد سے دوسروں کے موسم کو کنٹرول کیا جا سکے۔
امریکی ڈاکٹر نک نے Angels Don't Play This HARRP کے نام سے لکھی گئی اپنی کتاب میں یہ الزام عائد کیا ہے کہ ایلاسکا میں قائم اس امریکی ادارے نے کسی بھی خطے میں موجود انسانوں کو سست اور ناکارہ بنا دینے اور انسانوں کی جسمانی اور ذہنی حالت کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لی ہے۔ بعض ماہرین نے اس خیال کا بھی اظہار کیا ہے کہ امریکی بحریہ اور فضائیہ کے فنڈز سے کام کرنے والے اس تحقیقاتی ادارے کا مقصد صرف دشمن کی آبدوزوں کا سراغ لگانے کی صلاحیت حاصل کرنا ہی نہیں بلکہ اس کی طرف سے خلائی مخلوقات کا سراغ لگانے اور ان سے جنگ لڑنے کی تیاریوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر اس سے دنیا کے تمام انسانوں کو ایک بہت بڑے خطرے سے دوچار کردیا گیا ہے ، اس لئے کہ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ایسے انتظامات کو خو د پر حملے کی تیاری سمجھتے ہوئے بعض خلائی مخلوقات (جو انسان کے مقابلے میں ٹیکنالوجی میں بہت زیادہ ایڈوانسڈ ہیں) انسان پر حملہ کرنے کا پروگرام بنا لیں۔امریکہ نے اپنے اس ادارے کے علاوہ اپنے بہت سے دوسرے تحقیقاتی کاموں کو اخفا اور اسرار میں رکھا ہوا ہے۔
جبکہ ڈاکٹر نک نے اپنی کتاب میں ہارپ کے تحقیقاتی ادارے کی طرف سے اربوں ڈالر میں خریدی جانے والی بعض ایسی ٹیکنالوجیز کے حوالے دیئے ہیں جن کا اپنی تحقیق کے متعلق بیان کردہ ادارے کے مقاصد سے کوئی تعلق نہیں۔
مختلف کمپنیوں سے خریدی گئی ٹیکناجیز کی پیٹنٹ تفصیلات سے ان ٹیکنالوجیز کے متعلق جو کچھ معلوم ہوتا ہے اس سے ڈاکٹر نک اور دوسرے ماہرین کے دعووں کی تائید ہوتی ہے۔
اگر امریکی حکومت ایسے بڑے بڑے معاملات کو اپنے ٹیکس دہندگان ( عوام )سے خفیہ رکھنے کے خبط میں مبتلا نہ ہو تو HARRPمیں ہونے والی موسموں پر کنٹرول کی تکنیک کو خشک سالی اور پانی کی کمی کا شکار علاقوں کے عوام کے لئے ایک رحمت بنایا جاسکتا ہے۔
جہاں تک پاکستان میں پانی کی کمی کا تعلق ہے اس سلسلے میں خود ہماری حکومتوں اور عوام کے رویوں کا بھی بہت تعلق ہے۔ بارانی علاقوں میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے چھوٹے ڈیمز بہت بڑی تعداد میں تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔
بہت بھاری مقدار میں سمندر میں چلے جانے والے پانی کو بڑے ڈیمز میں ذَخیرہ کرکے کروڑوں ایکٹر نئی زرعی اراضی کی آبپاشی کے علاوہ بجلی پیداکرنے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لیکن کچھ بیرونی سازشوں اور صوبوں میں بھڑکائی ہوئی علاقائی نفرت کی بنا پر اس راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں۔ گذشتہ حکومتوں نے اس سلسلے میں حقیقی طور پر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔
یہ سول حکومتوں ، خفیہ ایجنسیوں اور سیاستدانوں کا کام ہے کہ اس طرح کی تمام رکاوٹوں کو اکھاڑ پھینکیں جن کی وجہ سے قومی مفادات مجروح ہوتے ہیں۔
یہ سارے کام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک حکومتوں کی طرف سے قومی اقتصادی مفادات کے تحفظ کے لئے بھی اسی سطح پر اور اسی سنجیدگی سے حفاظتی انتظامات نہیں کئے جاتے جس سطح پر کہ ہم نے ایٹم بم بنانے اور میزائل ٹیکنالوجی میں آگے جانے کے لئے دلیرانہ اقدامات کئے ہیں۔
عوام جنگل سے درخت کاٹنے والے قومی مجرموں کو قانون کے حوالے کرنے اور خود زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کا مزاج اپنالیں تو اس سے قومی دولت میں اضافہ کے علاوہ خشک سالی سے بھی چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔
دوسری طرف ضرورت سے زیادہ آبپاشی سے بچنے اور پانی ضائع ہونے سے بچانے کے لئے آبپاشی کے سپرنکل اور ڈرپ ٹیکنالوجی جیسے جدید طریقے اپنانے اور روزمرہ کے کاموں میں استعمال ہونے والے پانی کی زیادہ سے زیادہ بچت کرنے کی ضرورت کا شعور عام کرنا بھی ضروری ہے۔