کسی سے سیٹ ایڈجسمنٹ نہیں کی ، اگر اقتدار عزیز ہوتا تو جا کر معافی مانگ لیتا اور انٹر ویو کیلئے پیش ہو جاتا : چوہدر ی نثار
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )چوہدری نثار نے کہاہے کہ میں چار حلقوں سے آزاد الیکشن لڑ رہاہوں اور آزاد کیوں لڑ رہا ہوں اس حوالے سے پریس کانفرنس کے اس وقت آگاہ کروں گا جب بیگم کلثوم نواز کی صحت بہتر ہو جائے گی ، مجھ سے منسوب کر کے مکمل طور پر جعلی بیانات چلائے گئے ، میری کسی کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ نہیں ہے ، میری ن لیگ، پی ٹی آئی سمیت کسی سے بات نہیں چل رہی تھی ,اگر مجھے اقتدا ر عزیز ہوتا تو میں جا کر معافی مانگ لیتا اور تھوک کر چاٹ لیتا اور انٹریو کیلئے پیش ہوجاتا ۔
پاکستان مسلم لیگ کے رہنما چوہدری نثار نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک مکمل طور پر جعلی خبر چلائی گئی اس میں کوئی حوالہ نہیں تھا کہ یہ خبر کہاں سے آئی اور وہاں پر کوئی میڈیا پر سن موجود تھا یا نہیں ، مجھ سے منسوب کر کے بیان چلایا گیا کہ اگر پی ٹی آئی میں دس غلطیاں ہیں تو ن میں سو ہیں ، اگر میں زبان کھول دوں گا تو میاں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے ، جیسے ہی مجھے اس خبر کا پتا چلاتو میں نے فوری طور پر تردید جاری کرتے ہوئے بیان جاری کیا اور تمام ٹی وی چینلز نے یہ تردید جاری کر دی لیکن اس کے باوجود بھی ٹی وی چینلز پر پروگرامز ہوتے رہے اور الگے روز اخبارات میں آرٹیکلز چھاپے گئے ۔
ان کا کہناتھا کہ بہت ساری جعلی خبریں نظر انداز کی جاسکتی ہیں لیکن اس وقت الیکشن مہم میں ہوں تو اس وقت اس کی وضاحت ضروری ہے ، میں اپنا موقف واضح کر وں گا اور عوام کے سامنے اپنا نقطہ رکھوں گا کہ اختلافا ت کی نوعیت کیاہے ۔جس طرح کے بیانات چلائے گئے یہ میرا طرز سیاست ہی نہیں ہے ، کہ میں نے اگر زبان کھول دی تو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے ، یہ میرا طرز کلام ہی نہیں ہے حتیٰ کے سیاسی مخالفین کے خلاف بھی میں ایسی زبان استعمال نہیں کرتا ۔ایک الیکشن بھی لڑنا آسان کام نہیں ہے اورمیں چار سیٹوں پر لڑرہاہوں ، ٹکٹ کے ساتھ بھی آسان نہیں ہوتا میں چاروں پر آزاد لڑ رہاہوں ، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے حوالے سے کوئی خبر پہنچے تو اس کو مجھ سے تصدیق کروا لیا کریں ، ایسی خبروں کی تشہیر نہیں ہونی چاہیے ۔
چوہدر ی نثار کا کہناتھا کہ نوازشریف کو میں نے 34 سال جو کچھ میرے دل نے کہا میں نے مشورہ دیا ، اختلافات کی بنیاد یہ ہے کہ جو میرا ایک رول تھا ’ڈیول ایڈوکیٹ ‘ کا وہ 33 سال سے تھا لیکن اس دفعہ وہ تعلقات کو متاثر کر گیا ، میرے لیے میرے معیار میں وفاداری یہ نہیں ہے کہ آپ ہاتھ باندھ کر اپنے لیڈر کی ہاں میں ہاں ملاﺅ ، اصل ایمانداری یہ ہے کہ جو آپ کے جو دل میںہے اور جو زمینی حقائق ہیں وہ ان کے سامنے رکھواور میں نے یہی کیاہے ۔
چوہدر ی نثار کا کہناتھا کہ میں الیکشن کیوں آزاد لڑ رہا ہوں سب کے سامنے رکھوں گا ، اس حوالے سے بھی پریس کانفرنس میں بتاﺅں گا لیکن جب تک بیگم کلثوم نواز کی صحت بہتر نہیں ہو جاتی اس وقت تک نہیں کروں گا ، میں نے کسی کی تضحیک نہیں کرنی ، میں نے حقائق اور دلائل سامنے رکھنے ہیں کہ میرا موقف یہ ہے اور یہ موقف نوازشریف کا ہے ۔میں ان کی بیٹی کی بات نہیں کر رہاہے میں نوازشریف کی بات کر رہاہوں کیونکہ وہ بطور لیڈرذمہ دار ہیں ، میرا دل مطمئن ہے کہ جب اختلافات ایک ڈگر سے آگے بڑھ گئے تو میں ایک طرف ہو کر نہیں بیٹھ گیا میں نے اپنے آپ کو وزارت سے الگ کر دیا ، شاہد خاقان اور شہبازشریف آئے اور کہا کہ آپ نے کابینہ کا حلف کیوں نہیں لیا ،میں نے کہا کہ شاہد صاحب آپ کے اور پارٹی کے ساتھ ہوں لیکن کابینہ میں نہیں آﺅں گا ، میں نے وہ وعدہ نبھایا ، کونسی قانون سازی ہے جہاں میں نے حکومت کا ساتھ نہیں دیا ۔
ان کا کہناتھا کہ میں سیاست عزت کی خاطر کرتاہوں اور اسی لیے وزارت سے استعفیٰ دیا ،میں نے آخری وقت تک پارٹی کا ساتھ دیا ،کوئی بغاوت نہیں کی ، میں ناراض نہیں ہوں ، میں نے اختلاف کیا ، اختلاف نوازشریف کے فائدے میں کیا ، اگر اظہار اختلاف ایک پارٹی میں بغاوت ہے تو اسے جو کوئی مرضی سمجھ لے میں اسے کوئی بغاوت نہیں سمجھتا ، میں پارٹی کو نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ، میرا ن لیگ کے لیڈرز اور ورکرز کے ساتھ دوستی سے بڑھ کر تعلق ہے تو میں نقصان کس طرح پہنچا سکتاہوں ، اگر میں نے بغاوت کی ہوتی تو میں اس ایشو کے علاوہ بھی بولتا ، جب مجیب الرحمان کو محب وطن قرار دیا تو میں نہیں بولا ،، جب سینٹ کے الیکشن کی بند ر بانٹ ہو ئی تو میں نہیں بولا ، مبئی حملوں کے بیان پر بہت سوچ بچار کی لیکن میں نے ایک ایک لفظ سوچ کر سمجھ کر بیان دیا ، جس میں نوازشریف اور میرے کردار کا ذکر ہی نہیں تھا ،ممبئی حملوں کے حوالے سے جو پاکستان کی عدالتوں میں کیس آگے نہیں بڑھا وہ ہندوستان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے آگے نہیں بڑھا ۔
ان کا کہناتھا کہ میں نے سیاسی اختلاف کیاہے ، میں آج بھی سمجھتاہوں کہ نوازشریف کے فائدے میں کیاہے ، میں غلط ہو سکتاہوں لیکن کیا سیاسی جماعتیں اختلاف قبول نہیں کر سکتیں ۔یہ رول میرے لیے نیا نہیں تھا جن لوگوں کو گراں گزرا یا جنہوں نے ناراضگی کی انتہا تک پہنچا دیا ، یہ ذمہ دار ی ان کی ہے ۔