بھارت کی وہ جگہ جہاں آج بھی مسلمانوں کو ہندوﺅں اور امیروں کے پانی کے کنویں سے پینے کی اجازت نہیں، تفصیلات جان کر آپ کی پاکستان سے محبت میں اضافہ ہوجائے گا
نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) ہم نے تو بڑوں سے کہانیوں کی صورت میں سنا ہے کہ جب ہندو اور مسلمان اکٹھے رہا کرتے تھے تو ایک دوسرے کے برتن میں کھانا نہیں کھاتے تھے۔ آج ہم پاکستان کی آزاد فضاﺅں میں سانس لے رہے ہیں اور ایسی باتیں ہمارے لیے محض قصے کہانیاں ہیں لیکن بھارت میں آج بھی ایسے کئی مقامات ہیں جہاں مسلمانوں اچھوت خیال کیا جاتا ہے اور ہندو انہیں خود سے دور رکھتے ہیں۔ راجستھان کا گاﺅں بیاور بھی ایک ایسی ہی جگہ ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق باقی راجستھان کی طرح اس گاﺅں میں بھی پانی کی شدید کمی ہے۔ گاﺅں میں تین کنویں ہیں جو ذاتوں اور مذاہب کے لحاظ سے تقسیم کیے گئے ہیں۔ ایک کنواں، جو سب سے بڑا ہے اور اس کا پانی صاف ستھرا ہے، وہ برہمن، راجپوت اور جٹ خاندانوں کا ہے۔ وہاں سے کسی مسلمان یا نچلی ذات کے ہندو کو پانی لینے کی اجازت نہیں۔ باقی دو کنوئیں گندے پانی کے ہیں۔ یہ کنویں سائز میں بھی چھوٹے ہیں اور ان میں ایک بالٹی پانی جمع ہونے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک مسلمانوں کا ہے اور ایک دوسری نچلی ذاتوں کا۔
ان کنوﺅں پر خواتین سہ پہر 4بجے پانی بھرنے کے لیے جمع ہوتی ہیں اور اگلی صبح تک وہاں خواتین کا جمگھٹا رہتا ہے۔ ایک خاتون کا برتن ہی بھرنے میں گھنٹہ بھر وقت لگ جاتا ہے کیونکہ یہ کنویں خشک ہیں اور چند سوتوں سے پانی رس رس کر آ رہا ہوتا ہے۔ جب ایک بالٹی پانی جمع ہوتا ہے تو سب سے پہلے آنے والی خاتون وہ بالٹی اپنے برتن میں بھر کر روانہ ہو جاتی ہے اور باقی پھر بالٹی بھر پانی کنویں میں جمع ہونے کا انتظار کرنے لگتی ہیں۔ اس دوران یہ خواتین بوریت اور ڈپریشن دور کرنے کے لیے کنویں کے پا س لوک گیت گاتی اور رقص کرتی ہیں اور یہ ماحول تمام رات جاری رہتا ہے۔