75 ہزار روپے کے اشٹام پیپر پر دستخط کرتے کرتے مالک مکان بیمار پڑ گیا لیکن دراصل وکیل نے ایسا کیا تھا ؟ معروف کالم نویس کا ایسا انکشاف کہ ہنسی روکنا مشکل

75 ہزار روپے کے اشٹام پیپر پر دستخط کرتے کرتے مالک مکان بیمار پڑ گیا لیکن ...
75 ہزار روپے کے اشٹام پیپر پر دستخط کرتے کرتے مالک مکان بیمار پڑ گیا لیکن دراصل وکیل نے ایسا کیا تھا ؟ معروف کالم نویس کا ایسا انکشاف کہ ہنسی روکنا مشکل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (کالم : حامد ولید) ہمارے دوست اصغر علی خان کی کیا بات ہے، اصلی نسلی پٹھان ہے۔ ہمارے علم میں تھا کہ گزشتہ دنوں انہوں نے برکی روڈ پر چار کینال کا ایک رقبہ خریدا ہے جس میں سے ڈیڑھ کینال ان کا، ڈیڑھ کینال ان کے سگے بھائی کا اور باقی کا ایک کینال ان کے دفتر کے اکاؤنٹنٹ کا تھا۔ مگر جب اشٹام لکھا گیا تو وثیقہ نویس نے چھاپا مارتے ہوئے سب کا حصہ برابر لکھ دیااور خیر سے خان صاحب کو اس کا علم ہی نہ تھا۔ میں ملنے کے لئے پہنچا تو کہنے لگے آپ وکیل آدمی ہیں، ذرا اس رجسٹری کو تو دیکھئے کہ ٹھیک لکھی گئی ہے۔ چونکہ میں بیک گراؤنڈ سے واقف تھا اس لئے فوراً غلطی کو پکڑ لیا اور خان صاحب سے کہا کہ اس کے مطابق تو آپ کا اکاؤنٹنٹ بھی برابر کا حصہ دار بن گیا ہے اور ایک کینال سے تقریباً سات مرلے اوپر اس کے نام شو ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اتنے میں اکاؤنٹنٹ بھی آگیا، جب اس کے علم میں یہ بات آئی کہ اشٹام پیپر لکھتے ہوئے غلطی ہوگئی ہے تو واویلا مچادیا کہ پہلے سٹامپ ڈیوٹی ادا کرنے میں اتنے پیسے لگ گئے تھے، اب اس کو درست کروانے میں بھی اتنے ہی پیسے لگیں گے۔ یہ سن کر خان اس کو تسلیاں دینے لگا کہ خوچہ کوئی بات نہیں، ہم ایک علیحدہ اشٹام پیپر لکھ لیں گے جس پر تمھارے اور اپنے بیٹے کے دستخط بھی کروالیں گے تاکہ کل کو کوئی شک نہ رہے۔
روزنامہ پاکستان میں حامد ولید نے لکھا کہ میں نے بات چلانے کے لئے پوچھا کہ خان صاحب یہ اشٹام پیپر کسی وکیل سے نہیں لکھوایا؟ جواب میں خان صاحب کہنے لگے کہ وکیل ہی سے یہ غلطی ہوئی ہے جس کاازالہ اب صرف مزید85 ہزار روپے کی اسٹامپ ڈیوٹی جمع کروا کرہی کیا جا سکتا ہے۔ پھر کہنے لگے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے، جب میں نے اپنا گھر خریدا تھا تو اس وقت جو وکیل ملا تھا اس نے 75000روپے کی مالیت کے 100سوروپے والے کتنے ہی اشٹام پیپر خرید لئے تھے جو اکٹھے کئے تو پورا ایک دستہ بن گیا تھا۔ مالک مکان کو دستخط کرنے کے لئے دیئے تو اس نے کئی دن لگا کر ہر صفحے پر سائن کرنے کا فریضہ سرانجام دیا، حتیٰ کہ یہ کام کرتے کرتے وہ بیمار بھی پڑگیا۔ پھر خان صاحب بتانے لگے کہ اللہ اللہ کرکے تمام پارٹیوں کے دستخط ہوگئے تو رجسٹری کی کاروائی مکمل کروانے کے لئے وہ پٹواری کے دفتر جانا شروع ہو گئے اور جونہی پٹواری انہیں دیکھتا وہ اپنے عملے کو آواز دیتا کہ بھئی وہ والی فائل لاؤ جس میں پورے پاکستان کی رجسٹری ہوئی ہے۔
میں نے پوچھا کہ وہ وکیل کون تھا جس نے 75000کی مالیت کے 100سووالے اشٹام پیپر خرید لئے تھے، اس سے پہلے کہ خان جواب دیتا، ان کے اکاؤنٹنٹ نے جو کہ اپنی رجسٹری غلط لکھے جانے پر جلا بھنا بیٹھا تھاچپکے سے کہنے لگا کہ وہ بھی ایک پٹھان تھا، تاہم ہمارے دوست خان صاحب نے اس کی بات نظرانداز کرتے ہوئے بتایاکہ وہ وکیل ایک خٹک پٹھان تھا جو انہیں ان کے فوجی دوستوں نے دیا تھا، پھر کہنے لگے میں نے کہ بعدمیں اپنے دوستوں سے گلہ کیا تھا کہ تمھارا وکیل بھی تمھارے جیسا ہی ہے!
خیر ان کے اکاؤنٹنٹ نے پھر رٹا ڈا ل دیا کہ چار کینال کے پلاٹ کی رجسٹری غلط لکھی گئی ہے اور اسے مصیبت ڈال دی ہے کہ کل کلاں کو اسے کچھ ہوگیا تو اس کے بچے کیا کریں گے؟ میں نے عرض کی کہ جناب یہ پریشانی تو خان صاحب کو لاحق ہونی چاہئے جن کی ملکیت سے سات مرلے نکل کر آپ کے نام ہو گئے ہیں مگر انہوں نے تو ایک مرتبہ بھی ایسی کوئی بات نہیں کی کہ میرا کیا بنے گا، میں یہ سات مرلے کس طرح واپس لوں گا جس کے آپ مفت میں بیٹھے بٹھائے مالک بن گئے ہیں۔ اتنے میں اکاؤنٹنٹ کو ساتھ والے کمرے سے آواز پڑی تو اٹھ کر چلا گیا، جونہی وہ نکلا تو خان صاحب بولے کہ تم اس سے بات کرو، میں اس کا ایک کینال بھی خرید لیتا ہوں تاکہ اس کے بچوں کو کل کو پریشانی نہ ہو۔ یہ بات کہہ کر خان کمرے سے نکل گیا، اکاؤنٹنٹ صاحب واپس آئے تو میں نے انہیں آفر کی اگر وہ کہے تو خان صاحب اس کا ایک کینال کے پیسے اداکرکے انہیں رجسٹری سے باہر کردیتے ہیں۔ اس پر اکاؤنٹنٹ بولا کہ میں تو منافع کے ساتھ پلاٹ بیچوں گا، اگر خان صاحب راضی ہیں تو خرید لیں!
اب میں خان صاحب کے انتظار میں بیٹھا ہوں کہ آئیں تو ان سے بات کروں۔ آپ کے خیال میں خان صاحب کا کیا جواب ہوگا؟
واضح رہے کہ اس کالم کا ہمارے وزیراعظم عمران خان سے کوئی تعلق نہیں ہے جو پہلے لاک ڈاؤن لگانے کے حق میں نہیں تھے، لگ گیا تو کریڈٹ لینے لگے،عید کے دنوں میں ہٹا تو اب دوبارہ لگانے کو تیار نہیں ہیں اور اس سارے مخمصے میں لوگ روزانہ کی بنیاد پر لقمہ اجل بن رہے ہیں!....لوگ کرونا سے مر رہے ہیں اور وہ اپنا احساس پروگرام کامیاب بنانے میں لگے ہوئے ہیں!!
نوٹ: یہ کالم نویس کا ذاتی موقف ہے ، اس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔