دادا اور  ایڈیٹر کی ڈانٹ ڈپٹ

دادا اور  ایڈیٹر کی ڈانٹ ڈپٹ
دادا اور  ایڈیٹر کی ڈانٹ ڈپٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’ میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے اور آپ کو اپنے افسانوں کی پڑی ہے ۔ مجال ہے جو کبھی آپ کو دوسروں کی فکر ہو بلکہ ہر وقت کا رونا مچا رکھا ہے ۔ ویسے بھی آپ کو کس نے کہہ دیا ہے کہ آپ لکھاری بن سکتی ہیں ۔ بی بی گھر جائیں کوئی روٹی ہانڈی کریں ۔ یہ لکھنا لکھانا  آپ کے بس کی بات نہیں ۔ جان چھوڑئیے جب  ہو فون کھڑکا دیتی ہیں کہ میرے افسانے کا کیا ہوا ؟ اب اگر آپ نے فون کیا  تویقین مانئیے  میں آپ کو بلیک لسٹ کرنے میں ایک منٹ  نہیں لگاؤں گا ۔ ‘‘یہ کہتے ہی سمیر نے فون کا  ریسیور زور سے پٹخ دیا ۔ 
’’ یار سمیر تم کیوں اتنا غصے میں آرہے ہو ؟ کیا ہو گیا آخر نئے لکھنے والے ہیں غلطیاں تو کریں گے ہی ۔ مگر خدا معاف کرے تم جیسا بھی کوئی جلاد  قسم کا ایڈیٹر نہ ہو کہ سب کو ڈانٹ ڈپٹ ہی سننا پڑے ۔ ‘‘  سمیرکے دوست شکیل نےمایوس کن لہجے میں کہا ۔ 
’’ ٹھیک ہی تو کہہ رہا  ہوں شکیل ، تم جیسی ٹیم کی وجہ سے میں آج اس مقام پر ہوں ورنہ ان نوآموز لکھاریوں کی وجہ سے اب تک اگر مرتا نہ تو کم ازکم نیم پاگل ضرور ہو جاتا ۔ اتنی غلطیاں اور پھر اصرار کہ ہمارے افسانے شائع کئے جائیں ۔ ‘‘ سمیرتھکا تھکا سا بولا ۔ 
’’ یار پھر بھی تمھیں ذرا نرم سلوک روا رکھنا چاہیے ۔ یا تو ہم اپنے میگزین میں نئے لکھنے  والوں کےلئے کالمز ختم کر دیں یا کچھ برداشت کا مادہ پیدا کرکے ان کی حوصلہ افزائی کریں ۔ یہ بھی یاد رکھو کہ ہمارے میگزین کی خدمات کا اعتراف انہی نو آموز لکھاریوں  کو جگہ دینے کی وجہ سے بھی کیا گیا ۔ شکیل نے سمیر کو سمجھایا ۔ 
’’ ہاں یار تم ٹھیک کہہ  رہے ہو  ، شاید میں نے اس لڑکی کیساتھ  زیادہ ہی  نامناسب رویہ اختیار کیا چلو خیر اب اسکی کال آئی تو معذرت کر لوں گا اب خوش ؟ ‘‘ چائے پینے کے بعد سمیر کا موڈ بہتر ہونے لگا  تھا ۔ 
دوسری طرف سبینہ نے مایوس ہو کر لکھنا ہی چھوڑ دیا تھا یہی سوچا کہ لکھنا اس کے بس کا روگ نہیں اور اس ایڈیٹر نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی اسے ڈانٹا ہو گا ۔ 
سبینہ کے گھر میں دادا کے سوا کوئی نہ تھا ، بچپن میں ٹریفک حادثے میں  والدین کی وفات کے بعد وہی اسکا سہارا تھے اسلئے مانوس بھی انہی سے ہی تھی ۔ سو روتے ہوئے زار و قطار اپنے افسانے کے مسترد ہونے اور ایڈیٹر کے روکھے پن کی کہانی سنا دی ۔ تقی صاحب اپنے زمانے کے مشہور  ادیب اور نقاد تھے ۔ان کے کالم اب بھی بڑے اخباروں کی زینت بنا کرتے تھے ۔ 
اسے اداس دیکھ کر بولے ’’ چلو تم بیٹھی افسوس کرتی رہو ، وگرنہ میرا  پروگرام تو تمھیں آئس کریم کھلانے کا تھا ، ‘‘ ’’ ہیں کیا واقعی ؟ میں تیار ہو کر آجاؤں ؟‘‘ سبینہ خوشی سے بولی 
’’ نہیں بھئی تم رہنے ہی دو، تمھیں ساتھ لے جا کر میں نے موڈ تھوڑی خراب کرنا  ہے، تم گھر پر بیٹھ کر سوگ مناؤکہ اس ایڈیٹر نے تمھارا افسانہ مسترد کر دیا ۔ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ اتنے بڑے لکھاری کی پوتی ہو کر تم یوں ایک کہانی کے ناقابل اشاعت ہونے پر ٹسوے بہا رہی ہو ۔ بجائے اسکے کہ مزید محنت کرو ، بلکہ یوں کرو کہ کہانی لکھو اور اس ایڈیٹر کو بھیجو ہی نہیں بلکہ کسی اور اخبار میں بھیج دو ۔ لیکن کہانی بہت محںت کے بعد ہی لکھنا اور مجھے بھی مایوس نہ کرنا ۔ ‘‘ تقی صاحب اسے دلاسہ دیتے ہوئے بہت خوشی محسوس کر رہے تھے ۔ 
6ماہ گزر گئے تھے سبینہ نے اس دوران  سمیر کے میگزین میں کوئی افسانہ نہیں بھیجا تھا اور مصروفیت میں وہ بھی بھول بھال ہی گیا تھا ۔ اچانک ایک دن خواتین  کا ایک ڈائجسٹ یونہی ورق گردانی کرتے ہوئے سمیر کے نظروں سے گذرا تو سبینہ احمد کی تحریر جگمگا رہی تھی ۔ 
سبینہ احمد نے کہانی لکھنے کے لئے بہت محنت کی تھی اب وہ اپنے افسانوں کی وجہ سے کچھ پیسے بھی کمانے لگی تھی اور خاندان بھر کا فخر بھی بن گئی تھی ۔ سمیر خوشگوار حیرت میں اسلئے بھی تھا کہ بطور ایک سنئیر ایڈیٹر سبینہ کی سرزنش کرنا اسکی ذمہ داری تھی ۔ دوسری طرف وہ اسلئے بھی خوش تھا کہ سبینہ اسکے محترم استاد   کی پوتی تھی اور اب ان دونوں نے اسکی کامیابی کا جشن ایک ساتھ منانا تھا ۔ کیونکہ دادا اور  ایڈیٹر کی ڈانٹ ڈپٹ اور حوصلہ افزائی نے  سبینہ کو کندن بنا دیا تھا ۔

۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔