حکومتی کارکردگی اور معاشی اشاریے
لگتا ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات بہتری کی طرف چلنا شروع ہو گئے ہیں،دودھ، شہد کی نہر بہنے کی توقع ہر گز نہیں کی جا سکتی،لیکن ایک بات بڑی واضح ہے کہ بدحالی اور گراوٹ کی حالت ختم ہوتی چلی جا رہی ہے،معاشی بدحالی کے گڑھے میں لڑھکنے اور گرنے کا عمل رُک چکا ہے۔ایل پی جی کی قیمت میں کمی ہوئی ہے، روٹی نان کی قیمت بھی کم ہوئی ہے، پٹرول کی قیمت میں تھوڑے ہی عرصے میں معقول کمی دیکھنے میں آئی ہے، مجموعی طور پر مہنگائی میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ مانیٹری پالیسی میں شرح سود کم کر دی گئی ہے۔حالیہ دِنوں میں معاشرتی سطح پر بھی اس بات کا ثبوت ملا ہے کہ معاملات بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔عیدالاضحی یا عید ِ قربان کے موقع پر جس انداز میں لوگوں نے قربانی کے جانور خریدے اور ان کی قربانی کی اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ آسودگی پائی جاتی ہے۔
پاکستان ٹینریز ایسوسی ایشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق68لاکھ جانور قربان کیے گئے جن میں 29لاکھ گائیں، 33لاکھ بکرے، تین لاکھ85ہزار بھیڑیں اور دنبے شامل تھے۔ تین دِنوں میں 98ہزار اونٹ، ایک لاکھ65ہزار بھینسیں بھی سنت ِ ابراہیمی کی ادائیگی میں قربان کی گئیں ان سب جانوروں کی مجموعی قیمت کا تخمینہ 500ارب روپے سے زائد بنتا ہے۔اِس بارے میں بھی دو آراء نہیں پائی جاتیں کہ جانوروں کی قیمتیں پچھلے سال کی نسبت دگنا یا اس سے بھی زیادہ تھیں،اس کے باوجود قربانی کے جانوروں کی خریدای کے رجحان میں کمی کا نہ آنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عوام کی قوتِ خرید موجود ہے۔ گردشِ زر بھی ہو رہی ہے خوشحالی نہ سہی، آسودگی ضرور پائی جاتی ہے۔ عام اشیائے صرف یعنی روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں کمی اور ٹھہراؤ کا رجحان پایا جاتا ہے اور عوام انہیں خریدنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ کسی حکمران جماعت کے میڈیا سیل یا کسی سیاسی پارٹی کے ترجمان کی کہی گئی بات نہیں ہے یہ گواہی،یعنی قوتِ خرید کی موجودگی کی گواہی معاشرے میں عام شہری نے عملاً500ارب روپے خرچ کر کے دی ہے۔لاکھوں جانوروں کو خرید کر ان کی قربانی کر کے عوام نے معاشی بہتری کی گواہی دی ہے جسے تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
دوسری بڑی گواہی سٹاک مارکیٹ انڈیکس ہے جو جمعرات کو78ہزار802 پوائنٹس پر بند ہوا تھا اور شاید یہ کالم چھپنے تک 80ہزار کی ایک اور تاریخی حد بھی کراس کر چکا ہو۔ انڈکس ایک مکمل طور پر آٹو میٹڈ اور سائنٹیفک انداز میں چلتا ہے۔ سٹاک مارکیٹ کو کسی بھی ملک کی معیشت کی حالت اور ملک میں جاری معاشی سرگرمیوں کا بیرو میٹر تصور کیا جاتا ہے۔ کتب میں درج اصولوں کے مطابق انڈکس آنے والے حالات کو محسوس کر کے،ان ایڈوانس ری ایکٹ کرتا ہے مثبت حالات کی پیش بینی کرتے ہوئے اگر حالات میں بہتری کی توقع کی جا رہی ہو تو انڈکس ان ایڈوانس ری ایکٹ کرتا ہے جیسے اِن دِنوں کر رہا ہے ہر روز نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے یہ اِس بات کی علامت ہے کہ آنے والے دِنوں میں معاشی بہتری ہونے والی ہے،معاشی سرگرمیوں میں نمود دیکھنے کو ملے گی، ہمیں اُمید ہو گئی ہے کہ سی پیک کی مد میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی۔سعودی عرب، یو اے ای، ترکی اور دیگر برادر ممالک کی طرف سے یہاں سرمایہ کاری کرنے کی باتیں مثبت اشاریے ہیں۔ایرانی صدر کا دورہ پاکستان بھی آنے والے دِنوں میں ایران پاکستان معاملات میں بہتری کی نوید دے رہا ہے، سب سے اہم بات ہم نے آئی ایم ایف کی ہدایات یا احکامات کے مطابق بجٹ2024-25ء تشکیل دے کر دنیا کے سب سے بڑے زری ادارے کی مکمل پشت پناہی حاصل کر لی ہے ہمیں آئی ایم ایف کا آشیرباد مل گیا ہے،اب آنے والے دِنوں میں ہمیں، ہماری مرضی کا قرض بھی مل جائے گا۔ پھر ہمارے وارے نیارے ہو جائیں گے۔آئی ایم ایف کی جی حضوری کے باعث دیگر عالمی مالیاتی و زری اداروں کی آشیر باد بھی ہمارے ساتھ ہو گی۔پاکستان عالمی معاشی نظام کے ایک کھلاڑی کے طور پر معاشی استحکام حاصل کرے گا ایسے ہی حالات کو دیکھتے ہوئے ہمارے وزیراعظم محمد شہباز شریف برملا اعلان کرتے پائے گئے ہیں یہ ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ آخری پروگرام ہو گا،یعنی ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے۔ویسے ایک بات ہے کہ آئی ایم ایف کو کام کرتے ہوئے سات دہائیوں سے زائد مدت ہو چکی ہے اس دوران مختلف اوقات میں 123سے زائد ممالک نے آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لئے پروگرام کے معاہدے کئے لیکن شاید ہی کوئی ملک ان پروگراموں کے ذریعے خوشحالی کی منزل تک پہنچا ہو گا۔ آئی ایم ایف ویسے بھی خوشحالی پروگرام کرنے کے لئے قائم نہیں کیا گیا تھا اس کے قیام، یعنی مقاصد میں خوشحالی یا بحالی جیسی کوئی شرط شامل نہیں تھی۔مانیٹری فنڈ اپنے طے کردہ اہداف کے مطابق اور اپنے وارثان، یعنی جن ممالک نے اس فنڈ کو قائم کرنے کے لئے فنڈز مہیا کیے ہیں، کام کرتا چلا آ رہا ہے فنڈ کے سرمایہ کاروں کے مالی اور سیاسی مفادات کا تحفظ بھی یقینی بنایا جاتا ہے باقی رہا پاکستان اور اس کے مسائل تو وہ سر دست حل ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔قومی قرضہ بشمول عالمی اور داخلی قرض اِس قدر بڑھ چکا ہے کہ معیشت پر ناقابل ِ برداشت بوجھ بن چکا ہے اسے آئی ایم ایف سے مزید قرض لے کر اتارا نہیں جا سکتا، توانائی کا بحران جس میں گردشی قرضہ بھی شامل ہے پوری معیشت پر ایک جان لیوا عامل کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ہم نے ابھی تک نہ تو قرضوں کے بوجھ سے نمٹنے کی کوئی پالیسی اپنائی ہے اور نہ ہی توانائی کے بحران کا سامنا کرنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے، کسی قابلِ عمل اور سوچی سمجھی سکیم کے بغیر معاملات کیسے درست ہوں گے سب سے اہم سرکاری مشینری کی کارکردگی اور سرکاری ادارووں پر عوام کا عدم اعتماد سب سے اہم عامل ہے جسے درست سمت میں لے جائے بغیر کسی بہتری کی توقع عبث ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں 90روز میں انتخابات کرانے والی نگران حکومتیں کئی 90روز تک اقتدار سے چمٹی رہتی ہیں، کلیدی فیصلے کرتی ہیں جو کہ سرا سر غیر آئینی ہے انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، سرکاری شعبے میں آئین کی عدم پاسداری اور اس پر اس کی پست کارکردگی ایسے معاملات ہیں، جنہیں حل کیے بغیر ہم تعمیر و ترقی اور پائیدار خوشحالی کی منزل حاصل نہیں کی سکتے۔