پنجاب اسمبلی :اپوزیشن کا ترقیاتی بجٹ آباد ی کے تناسب سے دینے کا مطالبہ
لاہور( این این آئی)پنجاب اسمبلی کے ایوان میں دوسرے روز بھی بجٹ پر عام بحث کا سلسلہ جاری رہا ، اپوزیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ ترقیاتی بجٹ آبادی کے تناسب سے دیا جائے ،اپوزیشن کے حلقوں کو ترقیاتی منصوبوں سے محروم رکھ کر لوگوں کو پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کی سزا دی جارہی ہے ،جبکہ حکومت کی اتحادی پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی ممتاز علی چانگ نے اپوزیشن بنچ پر بیٹھنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا ساتھ تب دیں گے جب صادق آباد کی عوام کو لاہور کے برابر سمجھیں گی، پنجاب ہمارا مسئلہ حل نہیں کرسکتا تو ہمارے ضلعے کو سندھ کی طرف منتقل کردیں، اگر ناانصافی ہوگی تو حکومتی بنچوں سے اٹھ کر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ جائیں گے، حکومتی اراکین نے کہا کہ قائد حزب اختلاف نے ایک ویب سائٹ کے اعدادو شمار پیش کئے ،معاشی مسائل سخت ہیں ہم عیاشی نہیں کر سکتے ،کرپشن کے سد باب کےلئے ویجی لینس کرنا ہوگی، حکومت پانچ سال کےلئے ایسی پالیسی بنائے جس سے اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔ پنجاب اسمبلی میں بجٹ پر عام بحث کے آغاز پر ایوان میں صرف پانچ اراکین موجود تھے،ڈپٹی اسپیکر ظہیر اقبال چنڑ نے حکومت کی عدم دلچسپی اور ایوان میں مایوس کن تعداد کی موجودگی پر انتہائی برہمی کا اظہار کیا۔ اراکین کی دلچسپی کا یہ عالم تھاکہ اجلاس کے آغاز پر ایوان میں وزیر خزانہ سمیت کوئی بھی وزیر موجود نہ تھا ،حکومتی بنچوں پر مہوش سلطانہ اور ذکیہ شاہنواز جبکہ اپوزیشن بنچوںپر رانا شہباز ، رانا آفتاب احمد اور بریگیڈئیر (ر) مشتاق احمد موجود تھے۔ڈپٹی سپیکر ظہیر اقبال چنڑ حکومتی ارکان کا ایوان میں نہ آنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ اپوزیشن رکن رانا آفتاب احمد نے بھی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کیا خالی کرسیوں کو بجٹ سنانا ہے ،حکومت ہمارا مذاق اڑا رہی ہے، بجٹ پر محنت کی اس کا کیا فائدہ ہوگا، حکومت پر کسی قسم کا کوئی اثر نہیں ہونا ،صرف نفرت نظر آ رہی ہے۔ بریگیڈئیر (ر) مشتاق احمد نے کہا کہ اگر بجٹ پر صرف تقریر ہی کرنی ہے تو پھر اپنے کمرے میں بیٹھ کر اچھی تقریر کر سکتا ہوں، بجٹ بحث پر سولہ صفحات لکھ کر لایا ہوں اب اس کا کیا کروں ۔ رانا شہباز نے کہا کہ وفاق والے وزیر خزانہ اوپر سے آئے ہیں ان کا بجٹ سے کوئی تعلق نہیں، پنجاب کے وزیر خزانہ بھی ثبوت دے رہے ہیں ان کا بجٹ سے کوئی تعلق نہیں، سارے وزرا ءکی کرسیاں ہنس رہی ہے ،اگر وزرا ءکے پاس وقت نہیں تو بجٹ عاشورہ کے بعد رکھ لیں۔ رانا آفتاب احمد نے نقطہ اعترا ض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی رہائی کےلئے پر امن احتجاج کی کال دی ہے لیکن ہمارے کارکنوں کی گرفتاری کی جا رہی ہے، امن و امان کو خراب کیاجا رہا ہے ،حکومت نے دفعہ 144لگائی ہے بتائیں کس جگہ پر قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے ،احتجاج ریلیوں پر کس قانون کے تحت پابندی لگا ئی گئی ہے،آزادی اظہار رائے کی کہاں آزادی ہے۔ ،حکومت اگر ہم پر ظلم کرے گی تو پھر ہم یہیں احتجاج شروع کردیں گے۔وزیر خزانہ مجتبی شجاع الرحمن نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پر امن احتجاج پر کسی طرح کی کوئی پابندی نہیں ،اگر کوئی بھی سڑکوں کو بلاک کرے گا اس پر نوٹس لیں گے۔بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپوزیشن رکن بریگیڈیئر (ر)مشتاق احمد نے کہا کہ 2023-24میں بجٹ میں 1819 سڑکوں کی سکیمیں رکھی گئی تھیں، حکومت بتائے ضلع کی سطح پر کتنی سڑکوں کی سکیمیں شروع کی گئی ہیں،پنجاب کسی کی جاگیر ہے کسی کو زیادہ اور کسی کو کم سکیمیں دی گئیں۔ حکومتی رکن ذوالفقار علی شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ قائد حزب اختلاف جو ایک ویب سائٹ کے بجٹ کے اعدادو شمار پیش کر رہے تھے وہ درست نہیں ،قائد حزب اختلاف کو ایسی ویب سائٹس پر یقین نہیں کرنا چاہیے ،اعداد و شمار پر بات کریں گے تو پھر حساب دینا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہر محکمے میں کرپشن ہو رہی ہے ،اس کے سد باب کےلئے ویجی لینس کرنا ہوگی، حکومت پانچ سال کےلئے ایسی پالیسی بنائے جس سے اپنے مقاصد حاصل کر سکیں، دل کے امراض اور ہیپاٹائٹس کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہاہے دیکھنا ہوگا یہ کیوں پھیل رہی ہیں،انڈر گراﺅنڈ پانی کے سورسز پر توجہ دینا ہوگی۔حکومتی رکن بلال یامین نے اپنے خطاب میں کہا کہ اپوزیشن کی جانب بجٹ پر ہلڑ بازی کی گئی لیکن ہم نے قائد حزب اختلاف کی کی تقریر کو سکون سے سنا، یہودی لابی نے جب ملکی معیشت اپنے پاﺅں پر کھڑی دیکھی ،دہشت گردی کا خاتمہ دیکھا تو عدلیہ کے ذریعے ہمارے لیڈر کو اقتدار سے باہر کیا گیا، انڈے مرغی کٹوں سے معیشت چلانے والے کہتے تھے مرغی کو پالیں اس سے معیشت آگے بڑھے گی، پی ٹی آئی دور میں سرپرست مساوات پروگرام کےلئے آٹھ ارب روپے رکھے جس سے میرے حلقہ کی تو کوئی عورت کو فائدہ نہ ہوا لیکن شاید پنکی پیرنی یا گوگی کو فائدہ ہوا ہوگا۔ اپوزیشن رکن خالد نثار ڈوگر نے اپنے خطاب میں کہا کہ جو ہمیں یہودی لابی کہہ رہے اگر ہمت ہے تو یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ تو کریں آج تک انہوں نے بائیکاٹ کی بات نہیں کی، میرے لیڈر نے نہ معافی مانگی نہ معافی مانگیں گے، اگر ہماری حکومت جادو ٹونے چل رہی تو کیا آپ کی لیڈر نے جو گلاس پکڑا ہوتا ہے اس میں لسی پیتی ہیں، اس حکومت میں جرات نہیں ہے کہ نو مئی کا جوڈیشل کمیشن بنا لے۔ اجلاس آج دوپہر ایک بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
پنجاب اسمبلی