خالد احمد:بالآخر چین سے سو گئے
میٹرک کا طالب علم بھاری بھرکم ڈول اٹھائے اپنے باپ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ڈول میں گاﺅں کی سوغات تھی،جو اس کی ماں نے بڑی محنت سے اس کے باپ کی فرمائش پر تیار کی تھی۔گنے کے رس اور گاجروں سے بنا ہوا”گجریلا“....جس میں انواع و اقسام کی کئی دیگر اشیاءڈال کر اسے بہت مزے دار اور لذیذ بنایا گیا تھا۔باپ کے گہرے دوست خالد احمد نے اس خصوصی گجریلے کی فرمائش کی تھی۔بیٹے کے نازک کندھوں پر اس فرمائش در فرمائش کا بوجھ پڑ گیا تھا، لیکن شاعر اور استاد باپ کی محبت میں وہ کئی بسیں تبدیل کرکے لاہور میں نسبت روڈکے ایک گھر کے سامنے آکر رُکے۔اونچے دروازے پر لگی گھر کی گھنٹی بجائی۔گھر سے جواب آیا کہ خالد صاحب گھر نہیں ہیں، چنانچہ باپ بیٹے نے وہ بھاری بھرکم ڈول گھر والوں کو پکڑایا اور چلے آئے۔
بیٹا اپنے باپ کے ساتھ اس سے قبل ایک مرتبہ خالد احمد کو مل چکا تھا۔”فنون“ کا دفتران دنوں انار کلی میں ہوتا تھا۔وہاں اس سُرخ و سپید چہرے والے خوبصورت اور بہت ہنس مُکھ آدمی نے پہلی ملاقات میں ہی اس سکول کے طالب علم کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔”فنون“ میں احمد ندیم قاسمی کے ابتدایئے کے بعد”بین السطور“ کی اسے اس وقت سمجھ تو نہیں آتی تھی، لیکن وہ اس تحریر کو بہت بڑا علمی خزانہ ضرور سمجھتا تھا۔ان دنوں”امروز“ میں ان کا کالم”لمحہ لمحہ“ بھی شائع ہوتا تھا، وہ اس وقت اتنا عام فہم اور مزاحیہ ہوتا تھا کہ پورا پڑھے بغیر چھوڑتا نہیں تھا۔لامحالہ اس میں باپ مجذوب چشتی کی محبت اور ان کے تذکرے کا بھی بڑا دخل ہوتا تھا.... خالد احمد نے مسلسل 48برس قرطاس و قلم سے اپنا ناتہ جوڑے رکھا، بلکہ ہر شخص گواہ ہے کہ انہوں نے اپنے ہم نفس نجیب احمد کے ہمراہ ہر لمحے ادب کو ہی اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔
وہ خالد احمد کے عروج کا زمانہ تھا۔لاہور کے سبھی ادبی حلقوں پر وہ چھائے ہوئے تھے۔حلقہ ءاربابِ غالب کے وہ رُوحِ رواں تھے۔حلقہ ءاربابِ ذوق کے اکثر اجلاسوں میں وہ ادبی بحثوں میں حصہ لیتے۔اپنی تخلیقات تنقید کے لئے پیش کرتے۔نوجوان شاعروں، ادیبوں کا ایک وسیع حلقہ ان کے اردگرد جمع رہتا۔ یہ ان کی تراش خراش اور پرورش میں مصروف رہتے ۔وہ سبھی اپنے ادبی مرشد کی جدائی پر گریہ زاری کررہے تھے۔کہتے ہیں کہ خالد احمد کو علمِ عروض پر اتنی دسترس حاصل تھی کہ صفِ اول کے شعراءبھی کبھی کبھی ان سے اپنے اشعار سیدھے کرواتے تھے.... خالد احمد پاک ٹی ہاﺅس کے مستقل باسی تھے۔نجیب احمد اور کئی دیگر شعرائے کرام ان کے ہم قدم رہتے ۔ابھی گزشتہ دنوں جب 13سال بعد پاک ٹی ہاﺅس کو دوبارہ آباد کیا گیا تو دوسرے روز جب عابد شیروانی کے ہمراہ وہاں پہنچا تو اپنے باپ کے ساتھ ساتھ جو دوسری اہم شخصیت بہت یاد آئی، وہ خالد احمد ہی تھے۔تیز طنزیہ اور تاریخی جملے کہنے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
مجھے یاد ہے جب ان کی شادی ہوئی تھی تو انہوں نے ”امروز“ میں اپنے کالم میں اپنے شاعر دوستوں کے اپنے بارے میں لکھے ہوئے مزاحیہ اور ہجویہ اشعار بھی شائع کردیئے، جو ان کی وُسعتِ قلبی اور عالی ظرفی کا ثبوت تھا۔ورنہ اس مقام پر پہنچے اکثر لوگ ایسی باتوں پر نہ صرف بُرا مان جاتے ہیں، بلکہ ایسی باتوں کو برسوں دل میں پالتے اور اسے خاندانی دشمنی میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔اپنی اس جھوٹی اَنا کو انہوں نے خود پرستی کے فریب کی وجہ سے آج کل کے زمانے میں اسے بہت لازمی قرار دے رکھا ہوتا ہے۔ خالد احمد ایسے نفسیاتی امراض سے بالکل آزاد اور ماوراءتھے۔ان کی زبان دل کی ہمیشہ رفیق رہی۔جو دل میں ہوا، موقع پر کہنے کے بعد بالکل بھول گئے۔ہاں، اپنے دوستوں، عزیزوں اور ان کے لواحقین کے حالات کو نہیں بھولتے تھے۔کئی برس بعد جب مجھے ملے تو اپنے بے تکلف دوست کے اس بیٹے پر گزرے تمام اہم واقعات انہیں یاد تھے۔ایک ایک کے بارے میں پوچھا اور اطمینان کیا۔ اس دلی قربت نے حیران کئے رکھا۔پھر ایک وقت وہ آیا جب پنجاب یونیورسٹی کے مشاعروں میں انہیں لانے کا موقع ملتا رہا۔ان کی غزل کے اشعار یاد ہوگئے:
ترکِ تعلقات پر رویا نہ تُو نہ مَیں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا ، نہ تُو نہ مَیں
ہر چند اختلاف کے پہلو ہزار تھے
وا کر سکا مگر لبِ گویا ، نہ تُو نہ مَیں
ایک بار انہیں لینے جب نسبت روڈ پہنچا تو جہاں وہ بیٹھے تھے، وہ کمرہ پورا دھوئیں سے بھرا ہوا تھا۔یوں لگا جیسے ان کے ہم نفس اور ہم سخن نجیب احمد اور وہ مقابلے پر سگریٹ نوشی کررہے ہیں۔آخر وہی مہلک دھواں ان کو پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا کر گیا اور جان لیوا ثابت ہوا۔ خالد احمد کو احمد ندیم قاسمی مرحوم کا قریب ترین فرد بھی سمجھا جاتا تھا،حتیٰ کہ ان کو وزیردفاع کا درجہ حاصل رہا۔انہوں نے خود بھی طویل عرصے تک ”بیاض“ کے نام سے ایک ادبی پرچہ چلایا۔ریڈیو کے بہت سے ادبی پروگراموں کی میزبانی کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ریڈیو اور پاکستان ٹیلی ویژن کے بہت سے مشاعروں اور پروگراموں میں شرکت کرتے رہے۔ اکثرمقابلہ بیت بازی کے منصف بھی بنتے رہے۔خود اپنی شاعری میں وہ بہت سے نئے تجربات کرتے رہے۔واپڈا کے شعبہ ءتعلقاتِ عامہ میں ملازمت کے علاوہ انہوں نے ادبی سرگرمیوں میں ہی زیادہ وقت گزارا۔ایک وقت میں وہ نعت رسول مقبولﷺ لکھنے کی طرف بھی راغب ہوئے۔مجددِ نعت حضرت حفیظ تائب نے ان کو اس طرف راغب کیا تھا۔اس کے بعد ان کے نعتیہ مجموعے بھی منظرِ عام پر آئے،جس میں انہوںنے بہت سی طویل نعتیں لکھ کر ادب کی اس صنف میں بھی اپنے آپ کو منوایا۔
خالد احمد کے جنازے میں اکثر احباب ان کی اولاد کو تو نہیں جانتے تھے، لیکن ان کے ہم قدم نجیب احمد سے ہی زیادہ تعزیت کررہے تھے۔جب ان کو قبر میں اتار جارہا تھا تو جہاں ان کی مغفرت کے لئے دل سے دعائیں اٹھ رہی تھیں، وہاں ان کا مشہور شعر بھی ذہن میں گونج رہا تھا۔ان سے ترکِ تعلقات کاغم بھی تھا، لیکن یہ خیال بھی آ رہا تھا کہ خالد احمد اپنی زندگی کا”لمحہ لمحہ“ شمار کرتے آخر کار چین سے سو گئے:
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا ٭