نیویارک ٹائمز کی شر انگیز رپورٹ
”نیو یارک ٹائمز“ میں شائع ہونے والی ایک تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ احمد شجاع پاشا کو نہ صرف القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد موجودگی کا علم تھا، بلکہ ان کے معاملات دیکھنے کے لئے آئی ایس آئی میں ایک خصوصی ڈیسک بھی قائم تھا۔رپورٹ میں امریکی اور پاکستانی انٹیلی جنس حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد امریکی حکام کو چند ایسے شواہد ملے جن کی مدد سے انہیں پتہ چلا کہ احمد شجاع پاشا اسامہ بن لادن کی موجودگی کے بارے میں پوری طرح واقف تھے اور یہ خبر امریکی حکام کے لئے حیران کن تھی کیونکہ وہ انہیں طالبان کے خلاف لڑائی میں آئی ایس آئی کا سب سے زیادہ تعاون کرنے والا سربراہ سمجھتے تھے۔رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ اسامہ بن لادن کے گھر سے ملنے والے خطوط، تحریروں، اور کمپیوٹرز میں موجود ڈیٹا کی روشنی میں امریکی حکام کویہ بھی پتہ چلا کہ اسامہ یہاں رہ کر اپنے نمائندوں کے ذریعے طالبان اور القاعدہ کے کمانڈروں کے ساتھ مکمل رابطے میں تھا۔ ان کمانڈروں کو بھی معلوم تھا کہ القاعدہ کا سربراہ کہاں ہے اوران میں جماعةالدعوة کے امیر حافظ محمد سعید اور ملا عمر بھی شامل ہیں اور وہ اسامہ سے رابطے میں تھے۔
امریکیوں کا یہ پرانا وطیرہ ہے کہ جب انہوںنے کسی ملک یا تنظیم کے خلاف کوئی کارروائی کرنا ہوتی ہے تو وہ میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے اس کے خلاف جھوٹا اور بے بنیا د پروپیگنڈہ کر کے پہلے ماحول بناتے ہیں اور پھر اپنے مذمو م ایجنڈوں کی تکمیل کی کوشش کی جاتی ہے۔ عراق پر حملہ سے قبل امریکہ نے وہاں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹا اور الزام عائد کیاکہ یہ ہتھیار پوری دنیاکے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے بھی صدام حسین کے پاس موجود کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا دعویٰ کیا اور 24 ستمبر 2002 کو وسیع مہلک ہتھیاروں پر متنازعہ ڈوزیئر بھی شائع کیا تھا،جس کا پیش لفظ خود برطانوی وزیر اعظم بلیئر نے لکھا تھا، تاکہ قارئین کو یہ یقین دلایا جا سکے کہ صدام حسین ’بلا شبہ‘ مسلسل وسیع تباہی کے ہتھیار بنارہے ہیں، لیکن بعد میں تسلیم کیا گیا کہ اس وقت کے برطانوی وزیراعظم کے دفتر اور وائٹ ہاو¿س نے جنگ کے لئے جن خفیہ معلومات کا استعمال کیا وہ من گھڑت، من چاہی اور جھوٹ پر مبنی تھیں۔اسی طرح مغربی ذرائع ابلاغ نے عراق جنگ سے متعلق ایک اوررپورٹ نشرکی جس میں تسلیم کیا گیا کہ اس معاملے میں صدام سے الگ ہونے والے جاسوس رافض احمد العوان الجنابی کی جھوٹی رپورٹ کو استعمال کیا گیا۔
الجنابی 1999 میں ایک جرمن پناہ گزین مرکز میں پہنچا اور خود کو کیمیائی انجینئر بتایا اور کہا کہ اس نے ٹرکوں پر قائم چلتی پھرتی بائیولوجیکل لیبارٹریاں دیکھیں، جنہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ مستقل منتقل کیا جاتا رہتا ہے۔ ایک اور عراقی خفیہ افسر میجر محمد حارث کا دعویٰ سامنے لایا گیا کہ بائیولوجیکل ہتھیاروں کی تجربہ گاہوں کو ٹرکوں پر نصب کرنے کا نظریہ انہوں نے ہی پیش کیا تھا۔سی آئی اے کے لئے خفیہ ذرائع عراق کے وزیر خارجہ نازی صابری کو قرار دیا گیا۔تاہم بعد میں عراق جنگ ختم ہونے پر وسیع تباہی کے ہتھیاروں کے سلسلے میں پہلی سرکاری تحقیقات کی قیادت کرنے والے لارڈ بٹلر نے کہا تھا کہ ٹونی بلیئر نے خود کو اور اپنی قوم کو گمراہ کیا،اس وقت کے اسلحہ انسپکٹر ہنس بلکس نے بھی کہا کہ عراق جنگ بہت بڑی غلطی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی تھی‘ وہاں کوئی کیمیائی ہتھیار موجود نہیں تھے اس لئے عراق جنگ پر ٹونی بلیئر کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔
عراق کی طرح افغانستان کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ نے چالیس ممالک کو ساتھ ملاکر اسامہ بن لادن کی موجودگی کے بہانے افغانستان پر چڑھائی کردی، ڈیزی کٹربم برسائے اور لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ افغانستان پر حملہ کے لئے نائن الیون کے واقعہ کو بنیاد بنایا گیا حالانکہ امریکہ کے پاس اسامہ کے خلاف بھی کسی قسم کے کوئی ثبوت نہیں تھے۔ نہ ہی کسی عدالت میں اس حوالہ سے کیس چلا اور نہ ہی کسی عالمی عدالت کی جانب سے انہیں اس واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا‘ مگر پھر بھی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے برادر اسلامی ملک پر حملہ کر دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اتحادیوں کا اصل نشانہ افغانستان نہیں پاکستان ہے اور وہ اس کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ، بھارت اور ان کے اتحادیوں کو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کیے گئے ملک کا ایٹمی قوت بننا کسی طور برداشت نہیں ہے ۔ اس وقت بھی جب امریکہ اور اس کے اتحادی خطہ سے بری طرح شکست سے دوچار ہو کر جارہے ہیں۔ وہ کچھ نہ کچھ کارروائی کر کے یہاں سے جانا چاہتے ہیں، تاکہ اپنے عوام کو مطمئن کر سکیں کہ ہم افغانستان سے شکست کھا کر نہیں، بلکہ کامیاب ہو کر نکل رہے ہیں، دوسرا یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ہزیمت کے سب سے بڑے ذمہ دار پاکستان اور اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ہیں، اس لئے اس کے خلاف جھوٹاپروپیگنڈا کر کے اپنا غصہ نکالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
نیویارک ٹائمز میں پاکستان اور افغانستان کی بیوروچیف کالوٹا گال کو پاکستان سے دوبار منفی سرگرمیوں کی بنیاد پر نکالا جاچکا ہے اوریہ خاتون صحافی چیچنیا میں جنگ کے دوران رپورٹنگ کی آڑ میں بھی سی آئی اے کے لئے کام کرتی رہی ہے۔ اس لئے ا س متنازعہ صحافی کی باتوں پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا۔ اپنی کتاب میں وہ پاکستان اور آئی ایس آئی کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی ہے۔ پاکستانی سکیورٹی اداروںنے نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کو واضح طو رپر من گھڑت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کسی ادارے یا شخصیت کے علم میں نہیں تھی۔ متنازعہ صحافی کارلوٹا کو کچھ عرصہ قبل کوئٹہ میں ناپسندیدہ سرگرمیوں پر چونکہ نکالا گیا تھا اور دوبار ہ پاکستان آنے پر پابندی لگا دی گئی اس لئے یہ رپورٹ ذاتی رنجش پر تیار کی گئی۔
امیر جماعت الدعوة حافظ محمد سعید کا، جن پر اسامہ سے روابط کا الزام لگایا گیا ہے، یہ کہنا بھی بالکل درست ہے کہ ایسے موقع پر جب حکومت طالبان مذاکرات کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں، ملک میں امن و امان کی فضا ہموار ہوتی نظر آرہی ہے اور وہ خود بھی ملک میں اتحادویکجہتی پید اکرنے کے لئے احیائے نظریہ پاکستان مہم چلا رہے ہیں، ملک بھر کی مذہبی و سیاسی جماعتوں سے رابطے کئے جارہے ہیں اور یوم پاکستان کے موقع پر تمام صوبوں و آزادکشمیر میں نظریہ پاکستان مارچ، جلسوں اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے تو جان بوجھ کر یہ شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے، تاکہ پاکستان عدم استحکام کی صورت حال سے دوچار رہے اور یہاں امن قائم نہ ہو سکے۔ جہاں تک حافظ محمد سعید کے حوالے سے پروپیگنڈا کا تعلق ہے تو اس سے قبل بھی جب امریکہ نے حافظ محمد سعید کے سر کی قیمت دس ملین ڈالر مقرر کی اور حافظ محمد سعید نے امریکہ کو چیلنج کیا کہ اگر اس کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو وہ دنیا کے سامنے لائے میں دنیا کی ہر عدالت میں اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا جواب دینے کے لئے تیار ہوں تو امریکہ نے فوری طور پر پینترا بدل لیا اور کہا کہ ہم نے تو صرف ثبوت حاصل کرنے کے لئے آپ کے سر کی قیمت مقرر کی تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب بھی امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے پروپیگنڈے پر مبنی شائع ہونے والے مضمون کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ تاہم حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اسے نظر انداز نہ کرے، بلکہ امریکی میڈیاکے جھوٹ کا پول کھولتے ہوئے ساری دنیا میں اس کے مکروہ عزائم اور کردار کو بے نقاب کرنا چاہیے۔ ٭