کرکٹ میچوں کی سیکیورٹی کے تقاضے اور ٹریفک پلان

کرکٹ میچوں کی سیکیورٹی کے تقاضے اور ٹریفک پلان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے لاہور میں دو روزہ پلے آف میچوں کا سلسلہ مکمل ہو گیا، اب 25 مارچ کو کراچی میں فائنل میچ ہوگا، پی ایس ایل کے ان میچوں کی بدولت لاہور میں کرکٹ کا جنون عروج پر رہا۔ لاہوریئے سٹیڈیم کے اندر اور باہر میچوں سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوتے رہے، دوسرے میچ میں تیز بارش کی وجہ سے گراؤنڈ میں پانی بھر گیا تھا جسے ہنگامی طور پر نکال کر گراؤنڈ کو کھیل کے قابل بنایا گیا اور میچ16، 16 اوورز تک محدود کرنا پڑا۔ شہری طویل عرصے سے یہ مطالبہ کرتے چلے آ رہے تھے کہ پی ایس ایل کے تمام میچ پاکستان کے اندر ہی کرائے جائیں لیکن اس میں کلّی نہیں جزوی کامیابی ہوئی، دو پلے آف میچ لاہور میں ہوئے اور فائنل کراچی میں ہوگا تاہم سالِ رواں کے تجربے کے بعد امید کرنی چاہئے کہ پی ایس ایل کے اگلے ایڈیشن میں اگر تمام نہیں تو زیادہ سے زیادہ میچ پاکستان میں کرائے جائیں گے، یہ اگرچہ انٹرنل کرکٹ ہے لیکن ٹیموں کے اندر چونکہ غیر ملکی کھلاڑی بھی ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے پاکستان آنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، اس لئے میچ یو اے ای میں کرانے پڑتے ہیں۔ وہاں بھی چونکہ پاکستانی بڑی تعداد میں موجود ہیں، اس لئے شارجہ ہو یا دبئی، گراؤنڈ پاکستانی شائقین سے بھرے رہتے ہیں۔
کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نجم سیٹھی، ان کے ساتھیوں، پی ایس ایل اور شریک کھلاڑیوں کو یہ کریڈٹ بہرحال جاتا ہے کہ ان کی مساعی کی بدولت پاکستان میں کرکٹ واپس آ گئی ہے، غیر ملکی ٹیموں کے خدشات بھی دور ہو رہے ہیں، ورلڈ الیون گزشتہ برس لاہور میں میچ کھیل چکی ہے، اس سے پہلے زمبابوے کی ٹیم بھی پاکستان میں کھیل کر جا چکی ہے تاہم جو ٹیمیں کسی وجہ سے اب بھی تحفظات رکھتی ہیں۔ پی ایس ایل کے موجودہ میچوں کے بعد ان کے تحفظات بھی دور ہو جانے چاہئیں۔ وہ غیر ملکی کھلاڑی اور کرکٹ پر رواں تبصرہ کرنے والے مبصرین جو لاہور میں شہریوں کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوئے، ان کے چشم دید مشاہدات نے انہیں باور کرایا کہ پاکستان پرامن ملک اور پاکستانی امن پسند شہری ہیں، اگر چند دہشت گرد کسی شہر میں دہشت گردی کرتے ہیں اور بے گناہ انسانوں کا خون بہانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دہشت گردی نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے رکھا ہے، یہ اِکا دُکا واقعات نہ تو پاکستانیوں کی معمول کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں اور نہ ہی شہروں کی مجموعی فضا ان واقعات سے مکدّر ہوتی ہے، زندگی کا پہیہ بالکل اسی طرح رواں دواں رہتا ہے جس طرح دنیا کے دوسرے ملکوں میں ہے۔
اگر دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں کوئی دہشت گرد یا سر پھرا کسی کلب میں گھس کر یا بچوں کے کسی سکول میں اندھا دھند فائرنگ کرکے درجنوں لوگوں کو خون میں نہلا دیتا ہے یا کسی دوسری جگہ کوئی ایک یا چند لوگ کوئی ایسی واردات کر دیتے ہیں جو دہشت گردی کی ذیل میں آتی ہو تو کیا اس ملک میں کھیلوں کی ساری سرگرمیاں معطل ہو جاتی ہیں اور زندگی کے معمولات کو بریک لگ جاتی ہے، اگر کسی سکول میں پچاس لوگوں کو فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا یا کسی نائٹ کلب میں بیٹھے بے فکروں پر کسی ابنارمل شخص نے فائر کھول دیا تو اس کے بعد جس طرح زندگی وہاں رواں دواں رہتی ہے اسی طرح پاکستان میں بھی دہشت گردی کی وارداتیں پاکستانیوں کے حوصلے نہیں توڑ سکتیں۔ بعض غیر ملکی کھلاڑی اگر اس طرح کی وارداتوں سے یہ تاثر لیتے ہیں کہ وہ یہاں غیر محفوظ ہیں، اس لئے انہیں یہاں آ کر نہیں کھیلنا چاہتے تو وہ درست نتیجے پر نہیں پہنچتے۔ اس کی گواہی پی ایس ایل کے دو روزہ میچ دیتے ہیں جن کا انعقاد پرامن ہوا اور اہلِ لاہور نے نہ صرف ان میں بھرپور شرکت کی بلکہ کھلاڑیوں کو دل کھول کر داد بھی دی۔
یہ درست ہے کہ سیکیورٹی وجوہ کی بنا پر شائقین کو مشکلات کا سامنا رہا، انہیں اپنی گاڑیاں پارکنگ لائن میں کھڑی کرکے متبادل انتظامات کے تحت یا پیدل چل کر گراؤنڈ میں پہنچنا پڑا، میچ شروع ہونے سے کئی گھنٹے پہلے سے جو شائقین صبر و تحمل سے گراؤنڈ میں بیٹھے کھیل شروع ہونے کا انتظار کرتے رہے، انہوں نے بھی یہ ثبوت مہیا کر دیا کہ کھیل میں دلچسپی کی وجہ سے انہیں اگر اپنے وقت کی قربانی دینا پڑی تو یہ زیادہ مہنگا سودا نہیں ہے۔ سیکیورٹی اداروں اور پولیس نے کھلاڑیوں اور تماشائیوں کی حفاظت کے لئے سٹیڈیم کے اندر اور باہر جو انتظامات کئے تھے وہ غیر معمولی تھے لیکن آج کے زمانے میں جب پوری دنیا دہشت گردی کے نت نئے واقعات کی زد میں رہتی ہے، ایسے انتظامات کے بغیر گزارہ بھی نہیں، دنیا بھر میں اب ایسے انتظامات معمول بن چکے ہیں۔ ہر ملک اپنے اپنے حالات کی وجہ سے ہر قسم کے انتظامات کرنے کے لئے مجبور ہے اور پابند بھی۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج کل دنیا بھر میں جس طرح کے انتظامات ہوتے ہیں پہلے کھیلوں کے میدان اس سے آشنا نہیں تھے، چونکہ پاکستان میں کرکٹ کے میدانوں کی ویرانی کا دور سری لنکا کی مہمان ٹیم پر حملے سے ہی ہوا تھا اور جنہوں نے یہ منصوبہ بنایا تھا وہ یہی چاہتے تھے کہ پاکستان کے کھیل کے میدان اجڑ جائیں اور غیر ملکی کرکٹ ٹیمیں ان سے روٹھ جائیں۔ اس لئے وہ اپنے اس مشن میں وقتی طور پر کامیاب تو ہو گئے لیکن ظاہر ہے کرکٹ کو مستقل طور پر تو خیرباد کہنا ممکن نہیں تھا۔ اس سازش میں کوئی ملک بھی شریک ہو سکتا ہے اور اس کی تنظیمیں بھی، جن کے اپنے مقاصد ہو سکتے ہیں لیکن اس سازش کو ناکام بنانا ضروری تھا چنانچہ کئی برس کے بعد اب پاکستان اس سازش کو ناکام بنا چکا ہے اور سازشیوں کے نام بھی کوئی راز نہیں رہ گئے اور جو سازشی پس چلمن چھپنے کی کوشش کر رہے تھے ان کے چہروں سے نقاب اتر چکا۔
لاہور میں کرکٹ میچوں کے دوران سیکیورٹی کے جو انتظامات کئے گئے تھے، ان کی وجہ سے شہر میں ٹریفک جام کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے، سٹیڈیم کے اردگرد کاروبار بھی بند رکھنے پڑے، ٹرانسپورٹ کو بھی وقتی طور پر بند کرنا پڑا، جس کی وجہ سے رہائشیوں کو مشکلات بھی ہوئیں جو اگرچہ برداشت کی گئیں لیکن کہیں کہیں ایسی شکایات بھی پیدا ہوئیں جن کا ازالہ سیکیورٹی حکام موقع پر درست فیصلوں کے ذریعے کر سکتے تھے، مثلاً اگر کوئی ایمبولینس راستہ مانگ رہی تھی یا کوئی پرائیویٹ گاڑی کا مالک کسی ناگزیر ضرورت کے تحت کسی مخصوص علاقے سے گزرنے کی اجازت مانگ رہا تھا تو موقع کی مناسبت سے یہ فیصلہ کرنا مقامی طور پر متعین حکام کا کام تھا، ایسے امور میں درست اور مناسب فیصلے کرکے لوگوں کی مشکلات آسان کی جا سکتی ہوں تو ضرور کرنی چاہئیں لیکن مشاہدے میں آیا ہے کہ حکام غیر لچکدار روّیہ اختیار کرکے ضرورت مندوں کی مشکل میں اضافے کا باعث بھی بنتے ہیں اور کہیں کہیں باہمی توتکار بھی ہو جاتی ہے، بدمزگی کے واقعات بھی ہو جاتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ غیر لچکدار روّیہ اختیار کرنے کے بجائے ایسی صورت پیدا کی جائے کہ کوئی جائز راستہ نکالا جاسکے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ کسی پولیس افسر یا اہلکار کو جس طرح کی ہدایات اعلیٰ حکام دے دیتے ہیں وہ ان پر ڈٹ جاتے ہیں اور وقت کی نزاکت کا لحاظ رکھ کر کوئی فیصلہ نہیں کرتے، جس سے بعض اوقات جائز شکایات بھی پیدا ہوتی ہیں۔ سیکیورٹی حکام کو موجودہ انتظامات کی روشنی میں اگلے چند دنوں کے بعد ان تمام امور پر نظرثانی کرکے یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ کہاں کہاں تبدیلی کی گنجائش اور ضرورت ہے اور آئندہ جب کبھی میچ ہوں، ایسی صورت میں زیادہ بہتر ٹریفک پلان بنانا چاہئے۔

مزید :

رائے -اداریہ -