آپ کو تکلیف کچھ اور ہے
اوہ ! آپ شدید غصے میں ہیں ، آپ کا چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا ہے، ماتھے پر تیوریاں ہیں اوربس نہیں چل رہا کہ اچھی خاصی بھاری بھرکم گالیاں ان ٹریفک وارڈنوں کو سنا دیں جو ایک بڑی سڑک پر لوہے کے بیرئیر لگا کے کھڑے آپ کو آگے جانے سے منع کر رہے ہیں۔ آپ انہیں سنا رہے ہیں کہ آپ کا ایک قریبی عزیز بیمار ہے اور آپ نے اس کی عیادت کے لئے فوری طور پر ہسپتال پہنچنا ہے ۔ آپ برس رہے ہیں کہ تم ہمارے ٹیکسوں سے تنخواہیں لیتے ہو اور تمہارا کام رکاوٹیں پیدا کرنا نہیں بلکہ سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ ٹریفک اہلکار کچھ دیر آپ کو پیار سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، آپ کو بتاتے ہیں کہ پی ایس ایل کی سیکورٹی کی وجہ سے یہ سڑک بند ہے، آپ متبادل راستہ اختیار کرسکتے ہیں مگر آپ کے بڑھتے ہوئے غصے کے جواب میں ان کو بھی غصہ آنے لگتا ہے۔ آپ فوری طور پر جیب سے موبائل فون نکال کے ویڈیو بنانا شروع کر دیتے ہیں تو پولیس اہلکار منہ پھیر کے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آپ اپنی ویڈیو اپنے ارشادات کے ساتھ فیس بک پر اپ لوڈ کر دیتے ہیں اور اس صحافی دوست کا نمبر بھی ڈھونڈتے ہیں جو ریٹنگ کے بھوکے ایک چھوٹے ٹی وی چینل میں کام کرتا ہے۔
ارے یاد آیا، مجھے آپ کا چہرہ جانا پہچانا لگ رہا ہے کہ آپ نے گذشتہ برس چودہ اگست کو اپنی ایک ویڈیو شئیر کی تھی جس میں آپ نے کہا تھا کہ آپ اپنے ملک کی خاطر جان بھی دینے کو تیار ہیں۔ آپ نے کہا تھا کہ اس ملک میں خرابیوں کے ذمہ دار حکمران ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یہاں ایک ایسا عوامی انقلاب برپا ہو جو پاکستان کو ایک مہذب اور ترقی یافتہ ملک بنا دے۔ آپ نے اس موقعے پر یہ بھی کہا تھا کہ یہ پاکستان کو کیسا ملک بنا دیا گیا ہے جہاں کوئی کرکٹ تک کھیلنے نہیں آتا اور آپ نے اس موقعے پر بانوے کے ورلڈ کپ کو بھی یاد کیا تھا۔ اب یہ کیا ہوا کہ ملک میں کرکٹ ہو رہی ہے تو آپ سیکورٹی کے لئے دو، چاریا چھ کلومیٹر کا چکر کاٹ پر آنے کے لئے بھی تیار نہیں،جان آپ نے خاک دینی ہے، آپ نے اسی سڑک سے گزرنا ہے جو قذافی سٹیڈیم کو چھوتی ہوئی گزرتی ہے۔ درست، آپ نے ملک کے لئے جان دینے کی بات کی تھی کرکٹ کے لئے نہیں، توسوال ہے کہ کیا یہ کرکٹ ہندوستان یا افغانستان کے لئے ہو رہی ہے، میرے بھائی یہ کرکٹ بھی تو پاکستان کے لئے ہو رہی ہے ، پاکستانیوں کے لئے ہو رہی ہے۔
آپ قہقہہ لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اٹھارہ ہزار پولیس والے لگا کے بائیس کھلاڑیوں کو تین گھنٹے تک کرکٹ کھلا لی تو کیا کمال کر لیا۔ واقعی اتنی زیادہ سیکورٹی تشویشناک ہے مگر میں کیا کروں کہ میں نے چند روز قبل ہی قذافی سٹیڈیم سے آدھے گھنٹے کی ڈرائیو پر اسی شہر سے اپنے سیکورٹی اہلکاروں کی دس لاشیں اٹھائی ہیں۔ میں آپ کوکیا یاد دلاوں کہ اسی قذافی سٹیڈیم میں ابھی ایک ڈیڑھ برس پہلے ہی ایک انٹرنیشنل میچ کو سبوتاژ کرنے کے لئے ایک جہنم کا کیڑا انٹری پوائنٹ کے قریب پھٹ گیا تھا جس کے بارے میں میڈیا پر فوری طورپر یہی کہا گیا تھا کہ واپڈا کا ایک ٹرانسفارمر پھٹا تھا۔
آپ کا طنز سر آنکھوں پر مگر کیا بائیس کھلاڑیوں کے ساتھ وہ ہزاروں شائقین پاکستانی نہیں ہیں جو سٹیڈیم کے اندر موجود ہیں، کیا ان کروڑوں پاکستانیوں کو خوشی منانے کا حق حاصل نہیں ہے جو اس میچ کو اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ٹی وی سکرینوں پر دیکھ رہے ہیں۔ کیا آپ کو لاہور کی چند سڑکیں چند گھنٹوں کے لئے بلاک ہونے کا اتنا بڑا غم ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے تمام میچ دوبئی میں ہی ہوتے رہیں۔
مجھے علم ہے کہ لاہور کی سڑکوں پر ٹریفک کا دباو ہے اور میں اتفاق کرتا ہوں کہ بہت سارے لوگوں کو بہت ضروری کام بھی جانا ہوتا ہے مگر اب لاہور کی سڑکیں کھلی ہیں اور بہت سارے مقامات پر بہت سارے متبادل راستے بھی موجود ہیں۔ میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ شائد کلمہ چوک اور مسلم ٹاون موڑ کو مکمل بند کئے بغیر بھی سیکورٹی کو قائم رکھا جا سکتا تھا مگر میں سیکورٹی انتظامات پر حرف آخر نہیں ہوں۔ یہ کام ماہرین کا ہے کہ وہ کیا انتظامات کرتے ہیں۔ مجھے صرف یہ خیال کرنا ہے کہ میں ان دو دنوں میں میچ کے گھنٹوں کے دوران سڑکوں پر ٹریفک کے دباو کو مدنظر رکھتے ہوئے کہیں بھی پہنچنے کے لئے کچھ اضافی وقت لے کر چلوں اور خیال رکھوں کہ مجھے قذافی سٹیڈیم کو جوڑنے والی سڑکوں کوآخری ترجیح کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ یہ چھوٹی سی قربانی ہے جوکھیل کے میدان آباد کرنے کی بڑی خوشی کے لئے مانگی جا رہی ہے۔
معذرت کے ساتھ، مجھے کہنے دیجئے کہ مجھے آپ کے شور مچانے کی اصل وجہ کا علم ہے۔ آپ کرکٹ کے دشمن نہیں،آپ کو اصل تکلیف موجودہ حکومت کی کاوشوں سے پی ایس ایل کے انعقاد کی ہے لہذا آپ پچیس ، چھبیس سال پرانے ورلڈ کپ کو تو یاد کرتے ہیں، اسے تو سراہتے ہیں مگر پاکستان سے رخصت ہوجانے والی انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی پر آپ خوش نہیں ہیں ۔ میں آپ کو پہچان گیا ہوں کہ آپ وہی ہیں جنہوں نے پرویز مشرف کے نام نہاد صدارتی ریفرنڈم کو کامیاب بنایا تھا اور پھر اسی دور میں شروع ہونیوالی دہشت گردی اس عروج پر پہنچی تھی کہ سری لنکا کی ٹیم پر بدنام زمانہ حملہ ہو گیا تھا۔
میں آپ کا مسئلہ اچھی طرح جان اور پہچان گیا ہوں کہ اگر یہی کام آپ کی پسندیدہ سیاسی جماعت کی حکومت کر رہی ہوتی تو آپ اس کی اسی طرح واہ واہ کر رہے ہوتے جیسے آپ کو لاہور میں تیس ارب سے بننے والی میٹرو تو ایک آنکھ نہیں بھاتی مگر آپ پشاور میں انسٹھ ارب سے بننے والی بس سروس کو وقت کی اہم ترین ضرورت سمجھتے ہیں مگر آپ کے اس کرب کا کچھ اُپائے نہیں کیا جا سکتا کہ ا ب پی ایس ایل کی ٹکٹیں اس شہر میں چل رہی ہیں جہاں کبھی صرف بھتے کی پرچی چلا کرتی تھی۔ اب کراچی کے سٹیڈیم کو سیکورٹی دینے کے لئے وہاں بھی سڑکیں بند ہوں گی جہاں موجودہ حکومت سے پہلے بہت سارے علاقوں کو نو گو ایریا بنا کے رکھا ہوا تھا۔
کیا یہ دلچسپ امر نہیں کہ آپ جن سڑکوں پر ٹریفک پھنس جانے کا رونا رو رہے ہیں ابھی دو،چار برس پہلے آپ انہی سڑکوں کو وسیع اور کشادہ کرنے کے بھی خلاف تھے ۔ آپ کینال روڈ کے علاوہ جیل روڈ کے سگنل فری کوریڈور بننے کی راہ میں بھی رکاوٹ تھے مگر وقت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ آج آپ انہی سڑکوں کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔