"زنسکار" کے مظلوم مسلمان

"زنسکار" کے مظلوم مسلمان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

"زنسکار" مقبوضہ کشمیر کے صوبہ لداخ کے ضلع کارگل کی اونچے پہاڑوں میں گھری ، دور افتادہ اور میڈیا کی رسائی سے دْور ایک تحصیل ہے۔۔۔۔ضلع کارگل میں مسلمانوں کی اکثریت ہے مگر اس تحصیل میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور یہاں کے باشندوں کی اکثریت بدھ مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔۔۔۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تحصیل زنسکار کی آبادی 13,849 نفوس پر مشتمل ہے جن میں سے 95 فیصد لوگ بْدھ مت کے پیروکار ہیں جبکہ باقی 5 فیصد مسلمان ہیں۔


زنسکار میں گزشتہ 6 برسوں سے بدھ اکثریت کی جانب سے مسلم اقلیت کا اقتصادی اور سماجی مقاطعہ جاری ہے جس کی وجہ سے یہاں کے مسلمان انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔۔کئی مسلمان یہاں کے خراب حالات سے تنگ آ کر دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پہ بھی مجبور ہو چکے ہیں۔۔۔۔اس اقتصادی اور سماجی مقاطعہ کا پس منظر یہ ہے کہ سال 2012ء4 میں بدھ مت سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کی جانب سے اسلام قبول کرنے کے بعد یہاں مسلمانوں اور بْدھوں کے درمیان حالات کشیدہ ہو گئے تھے۔۔۔۔بْدھوں نے ایک منظم طریقے سے نہ صرف مسلمانوں کی املاک کو جلایا اور تباہ کیا بلکہ مسلمانوں پہ حملے بھی کئے جن کے دوران عورتوں اور بچوں سمیت کئی مسلمان بری طرح زخمی بھی ہوئے تھے۔۔۔۔اس دوران "زانسکار بدھسٹ ایسوسی ایشن" نے بْدھوں کو مسلمانوں کے اقتصادی اور سماجی مقاطعہ کی کال بھی دی جس کی وجہ سے ابھی تک بْدھوں کی جانب سے مسلمانوں کا اقتصادی اور سماجی مقاطعہ جاری ہے۔۔۔۔اب وہاں کی صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں کو بْدھوں کی دْکانوں اور گاڑیوں میں جانے کی اجازت نہیں ، کوئی بْدھ ٹھیکیدار مسلم مزدْوروں کو کام نہیں دیتا حتیٰ کہ بْدھ لوگ مسلمانوں سے بات بھی نہیں کرتے۔۔۔۔اقتصادی اور سماجی مقاطعہ کی وجہ سے مسلمانوں کے ذریعہء4 معاش کے تمام وسائل بشمول ٹرانسپورٹ ، ہوٹل ، دْکانیں اور کاروباری ادارے خسارے کا شکار ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے مسلمانوں کی مالی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہے۔


اقتصادی اور سماجی مقاطعہ کے باعث زنسکار کی مسلم آبادی غربت کے ساتھ ساتھ عدم تحفظ کا شکار بھی ہو چکی ہے۔۔۔۔اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والے مسلمانوں کو مختلف حیلوں اور بہانوں سے ہراساں کیا جاتا ہے۔۔۔۔اْنہیں کبھی تو پاکستان کا حامی قرار دے کر اور کبھی کوئی اور الزام لگا کر جھوٹے مقدمات میں پھنسا دیا جاتا ہے۔۔۔۔یہاں کی انتظامیہ کی اکثریت بھی بْدھ مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔۔۔ایس ایچ او ، نائب تحصیلدار ، تحصیلدار ،اور ایس ایم ڈی وغیرہ سب بْدھ ہیں جو مسلمانوں کے خلاف بْدھوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔


زنسکار کے مسلمانوں سے بْدھوں کے امتیازی سلوک کا یہ عالم ہے کہ قابض بھارتی فوج کے زیرانتظام تحصیل زنسکار اور تحصیل لیہہ کے درمیان چلنے والی "زنسکار لیہہ ہیلی کاپٹر سروس" سے بھی کوئی مسلمان استفادہ نہیں کر سکتا۔۔۔۔مسلمانوں کو مذکورہ ہیلی کاپٹر سروس کے ٹکٹ ہی نہیں دئیے جاتے جس کی وجہ سے وہ برفباری میں بھی زنسکار سے لیہہ تک پیدل جاتے ہیں۔۔۔۔مسلمانوں کے بچوں کے لئے تعلیم کا انتظام نہ ہونے کے برابر ہے۔۔۔۔چند سرکاری سکولوں کے علاوہ بیشتر تعلیمی ادارے نجی ہیں جو بْدھوں کی ملکیت ہیں۔۔۔۔کسی بھی سرکاری سکول میں ہر سال صرف 2 مسلمان بچوں کو داخلہ مل سکتا ہے جبکہ نجی تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے بچوں کا داخلہ ممنوع ہے۔۔۔۔کوئی بھی مسلم ڈرائیور بیرونی سیاحوں کو لے کر بْدھوں کی بستیوں میں نہیں جا سکتا۔


بْدھوں کی جانب سے زنسکار کے مسلمانوں کے اقصادی اور سماجی مقاطعہ اور اْن کے ساتھ امتیازی سلوک کی وجہ نچلی ذات کے بْدھوں کا اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرنا ہے۔۔۔۔یوں تو بْدھ مذہب مساوات کا درس دیتا ہے مگر درحقیقت بْدھوں میں بھی ہندو مذہب کی طرح ذات ، طبقات ، اور اچھْوت کا تصور موجود ہے۔۔۔۔لداخ میں بیشتر بْدھ اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ 5 فیصد بدھ نچلی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں جن میں مون ، گربا اور بیڑا نامی ذاتیں شامل ہیں۔۔۔۔مون مذہبی اور غیر مذہبی تقریبات میں گانے بجانے کا کام کرتے ہیں ، گربا لوہے کا سازوسامان بنانے کا کام کرتے ہیں جبکہ بیڑا یہ دونوں کام کرتے ہیں۔۔۔۔مذکورہ تین نچلی ذاتوں کے لوگوں کو اعلیٰ ذات کے بْدھ اچْھوت سمجھتے ہیں۔۔۔۔اعلیٰ ذات کے بْدھ نچلی ذاتوں کے بْدھوں سے ہاتھ نہیں ملاتے ، اْن کے برتن استعمال نہیں کرتے حتیٰ کہ بعض علاقوں میں اعلیٰ ذات کے بْدھوں کے گھر بھی نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے بْدھوں کے گھروں سے دْور ہوتے ہیں۔۔۔۔بْدھ مذہب کے اس ذات ، طبقات اور اچھوت کے نظام سے تنگ آ کر نچلی ذات کے بْدھ اسلام قبول کر لیتے ہیں۔۔۔۔نچلی ذات کے بْدھوں کا اسلام قبول کرنا اعلیٰ ذات کے بْدھوں کے لئے اس وجہ سے ناقابل قبول ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آئندہ اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے بْدھ بھی اسلام قبول کرنا شروع کر دیں گے۔


لداخ کے بْدھ بھارت نواز ہیں۔۔۔۔بھارت کا سیکیولر آئین کہتا ہے کہ ہر شخص کو اپنی مرضی سے تبدیلیء4 مذہب کا حق حاصل ہے۔۔۔۔زنسکار سمیت کسی بھی جگہ مسلمانوں نے بْدھوں سے زبردستی اْن کا مذہب تبدیل نہیں کروایا بلکہ بْدھ اپنی مرضی سے اسلام قبول کرتے ہیں۔۔۔۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بھارت نواز ہونے کے ناطے یہاں کے بْدھ بھارت کے آئین کا احترام کرتے اور بْدھ مت چھوڑ کر اسلام قبول کرنے والوں کو ان کی مرضی سے جینے کا حق دیتے مگر افسوس کہ وہ ایسا نہیں کر رہے۔۔۔۔بْدھ مسلمانوں پہ دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ بْدھ مت کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنے والوں کو قبول نہ کریں۔۔۔۔بْدھوں کی جانب سے نہ صرف نومسلموں کی زندگی اجیرن بنا دی جاتی ہے بلکہ انہیں پناہ دینے والے مسلمانوں پہ بھی مظالم کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔


یاد رہے کہ زنسکار کے مسلمانوں پہ بْدھوں کی جانب سے روا رکھے جانے والے مظالم کی تاریخ بہت پرانی ہے۔۔۔۔اس سے قبل 1989ء4 میں بھی "زنسکار بدھسٹ ایسوسی ایشن" کی جانب سے وہاں کے مسلمانوں کا اقتصادی اور سماجی مقاطعہ کیا گیا تھا جو 3 سال جاری رکھنے کے بعد 1992ء4 میں ختم کیا گیا۔۔۔۔لداخ کے مسلمان مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ بْدھوں کی جانب سے ان پہ روا رکھے جانے والے مظالم کا ازالہ کیا جائے مگر ابھی تک کسی نے ان کی شنوائی نہیں کی۔۔۔۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زنسکار کی بْدھ انتظامیہ وہاں کے حالات پہ بار بار پردہ ڈال دیتی ہے اور وہاں کے مسلمانوں کی حالت زار کو دنیا کے سامنے آشکارہ نہیں ہونے دیتی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں زنسکار کے مظلوم مسلمانوں کی حالت زار کو دنیا کے سامنے لائیں اور انہیں بْدھوں کے مظالم سے نجات دلانے کی کوشش کریں۔

مزید :

رائے -کالم -