تصادم نامناسب ، مل بیٹھ کر بات کریں
یہ کوئی نئی بات نہیں، ہمارے پیارے پاکستان میں محب وطن تلاش کرنے کے لئے ناساکی خلائی دوربین کی ضرورت تھی اور اب بھی ہے کہ یہاں حکومت مخالف ہونا جرم ہے اور سب سے آسان الزام ملک دشمن ہے، کبھی امریکہ اور روس کے حوالے سے کفر اور مفاد پرستی کے فتوے لگتے تھے اب بھارت دوستی اور مودی کے یار والے الزام لگا دیئے جاتے ہیں۔
کل تک سابق وزیراعظم محمد نوازشریف مودی کے یار اور اس حوالے سے ملک دشمن تھے اور اس سے بھی پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو سیکیورٹی رسک قرر دیا گیا تھا، اب بات اور آگے بڑھی ہے اور بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو کو مودی کا یار اور ملک دشمن قرار دے دیا گیا۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات کہتے ہیں کہ بلاول نے وزراء کے استعفے مانگے اور کالعدم تنظیموں کے حوالے سے مطالبات کئے یہ سب بھارت کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہیں اور ان کے بیانات بھارت میں بڑے شوق سے سنے اور پڑھے جاتے ہیں، یہ محترم سرفراز چیمہ پڑھے لکھے اور مہذب دکھائی دیتے ہیں اس کے باوجود انہوں نے یہ راگ چھیڑا تو پھر جواب بھی سننا ہی پڑے گا اور یہ جواب تو ان کے بیان کے بدلے وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے ہو گا کہ ابھی چند روز قبل اسی بلاول بھٹو نے پوچھا تھا کہ عمران خان بھارتی وزیراعظم مودی کے خلاف کیوں بات نہیں کرتے؟
ہمارے نزدیک تو یہ سب مضحکہ خیز ہے۔ ماضی میں بھی بے نظیر بھٹو کو نشانہ بنایا گیا تو وہ دوبار وزیراعظم بنیں، اب محمد نوازشریف کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے تو وہ تین بار اس ملک کے وزیراعظم رہ چکے۔
اس لئے بات کو ذرا غور کرنے کے بعد کہنا چاہیے کہ سرفراز چیمہ کی یہ بددعا بلاول کو دعا کے طور پر ہی نہ لگ جائے اور وہ بھی وزیراعظم ہی بن جائیں۔ جہاں تک پاک بھارت تعلقات کا مسئلہ ہے تو یہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہے اور بھارتی زعماء کی طرف سے ہمیشہ پاکستان کی مخالفت کی گئی اور اب تو نریندر مودی کو اپنی کرسی کی پڑی ہوئی ہے،اس معاندانہ رویے کے باوجود پاکستان کی یہ مستقل ریاستی پالیسی ہے کہ ہمسایوں سے تعلقات خوشگوار اور اچھے ہونا چاہئیں، تحریک انصاف والے زور سے محمد نواز شریف کے خلاف مودی کے یار کا الزام لگاتے تھے لیکن اقتدار ملنے کے ساتھ ہی یہ سب تبدیل ہوا اور وزیراعظم عمران خان تو دوستی کے لئے پکار پکار کر کہہ رہے اور ان کی اس پالیسی کا دفاع شاہ محمود قریشی کرتے نہیں تھکتے۔
اگر ریاستی پالیسی یہی ہے تو پھر ملک دشمنی کا طعنہ دیتے یا الزام لگاتے وقت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اپنے ملک کے اندر غدار پیدا کرنا اور پھر انہی کو گلے لگانا بھی تو روائت ہے۔ بلوچستان کے فراری ہتھیار ڈال کر اعلان کریں تو وہ قومی دھارے میں شامل اور اگر پشتون تحفظ موومنٹ والے ملک کے محافظوں کو کھلے بندوں مطعون کریں اور ان کے خلاف باقاعدہ نعرے بازی کریں تو تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا حکومت ان سے مذاکرات کا اعلان کرتی ہے اور اب کے پی کے حکومت پی ٹی ایم سے بات چیت کرے گی۔
اسی حوالے سے خود وزیراطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کو قومی دھارے میں لائیں گے۔ خود اسی حکومت نے ان تنظیموں کو دہشت گردی کے الزام میں کالعدم قرار دیا ہے۔ ان حالات میں اگر بلاول یہ کہے کہ کالعدم تنظیموں کی مالی امداد اور تعاون کی تحقیقات کی جائے تو اس میں ملک دشمنی والی بات کون سی ہے؟سرفراز چیمہ ہی کو بتانا چاہیے۔
ہمارے کئی دوست جو پیپلزپارٹی کے ہمدرد نہیں لیکن ان کے اندر پاکستانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔وہ آج صبح بلاول بھٹو کی تعریف کررہے تھے ان کے مطابق بلاول بہت پتے کی باتیں کرتے ہیں، یہ صاحب جو بلاول کے والد کو پسند نہیں کرتے،بلاول کے لئے دیدہ دل وا کئے ہوئے ہیں۔
ویسے ذرا تعصب کو بالائے طاق رکھا جائے تو کل تک جو حضرات بلاول کو بے بی کہتے تھے آج مان گئے کہ بلاول میں صلاحیت ہے اور اس کا انداز نانا والا بھی بنتا چلا جا رہا ہے،والدہ کی تربیت تو بہرحال ہے۔ اب بحث یہ ہے کہ بلاول بھی والد کے ساتھ منی لانڈرنگ کیس میں ملوث ہو گئے ہیں اور وہ بھی والد کے ساتھ پیشی بھگت کر آئے ہیں، اس مرحلے پر بلاول نے جو تقریر کی، جیالوں سے خطاب کیا وہ اثرات مرتب کرنے والا ہے کہ بلاول نے سادہ انداز سے گفتگو کی، وہ فی البدیہہ تقریر کر رہے تھے اور لکھی تحریر نہیں پڑھی۔ اس طرح وہ نہ صرف اردو بہتر بولے بلکہ ان کا انداز بھی لیڈروں والا ہو گیا۔
یوں بھی اگر انہوں نے بال بڑھا لئے تو ساتھ ہی وزن بھی بڑھ گیا، اب وہ بھرپور جوان ہیں اور احتساب عدالت کے باہر انہوں نے جس انداز سے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کی وہ ان کے بھی حوصلہ مند ہونے کی دلیل ہے اور پارٹی میں پسند کئے جا رہے ہیں تو دوسرے لوگ بھی اب تعریف کرنے لگے ہیں۔ اس سب کے باوجود ہم اس کی تائید نہیں کرتے کہ عدالتوں کے باہر اس طرح ہو، لوگوں کو مظاہرے کے لئے نہیں آنا چاہیے۔ ضروری حضرات آ جائیں تو الگ بات ہے۔
یہ تصادم ٹھیک نہیں، جیالوں کو نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنی جماعت کو ’’گورنمنٹ اِن ویٹنگ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ اس لئے بہتر نہیں کہ سرحدوں کے حالات بھی معمول پر نہیں ہیں، معاشی حالت خراب ہے تو بیرونی دباؤ بھی موجود ہے اس لئے پارلیمنٹ کو چلنا چاہیے، ابھی گزشتہ روز عرض کی تھی کہ قومی مصالحت کی ضرورت ہے، لیکن آج ہی ایک دوسری صورت نظر آ گئی کہ اپوزیشن نے حکومت کی بریفنگ میں شرکت سے انکارکر دیا اور ایک خط کے ذریعے حکمران جماعت سے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان قومی مسئلہ ہے، اسے قومی اسمبلی ہی میں زیر غور لایا جائے، یہ بھی ناممکن تو نہیں قومی اسمبلی کا اجلاس بھی ان کیمرہ ہو سکتا ہے اگر بتانے کے مسئلہ پر تحفظات یا مجبوری ہے تو۔