سپر فلڈ کی وارننگ!

سپر فلڈ کی وارننگ!
سپر فلڈ کی وارننگ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

متعلقہ محکموں کے دو سینئر افسروں نے حکومت کو خبردار کر دیا ہے کہ اس سال مون سون میں سپر فلڈ کی آمد آمد کا غالب امکان ہے اس لئے مشتری ہوشیار باش!۔۔۔ ان میں ایک سید مہر علی شاہ ہیں جو محکمہ ء منابعِ آب (Water Sources) کے قائم مقام سیکرٹری ہیں۔

انہوں نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے منابِع آب کو مطلع کر دیا ہے کہ امسال چونکہ بالائی علاقوں میں معمول سے زیادہ برف باری ہوئی ہے اور بارشیں بھی لگاتار ہوتی رہی ہیں(بلکہ اب جبکہ ماہ مارچ کا آخری عشرہ شروع ہے، کئی مقامات پر برف باری اور بارشیں اب بھی جاری ہیں) اس لئے ہو سکتا ہے کہ اواخر مارچ تک بارشیں تو رک جائیں لیکن موسم گرما بھی فوراً شروع ہو جائے گا۔ کچھ برسوں سے شائد گرین گیسوں کی ’برکت‘ ہے کہ موسم بہار آتا ہی نہیں۔

ہیٹر بند ہوتے ہیں تو اگلے ہی روز ائر کنڈیشنرز کھل جاتے ہیں۔ پیشگوئی کی جا رہی ہے کہ رواں سال اپریل اور مئی میں بلا کی گرمی پڑے گی۔ گلیشیئرز اور کیچ منٹ ایریاز کے آس پاس ذخائرِ برف پگھلنے میں دیر نہیں لگائیں گے اور دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانیوں کی شدت زور پکڑ جائے گی۔۔۔۔ اسی کیفیت کو ’سپرفلڈ‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔
سید مہر علی شاہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بریف کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے وقفے وقفے سے سیلابِ بلاخیز کی زد میں آتا رہا ہے۔ گزشتہ 8،10برسوں کا معمول یہی ہے کہ سیلاب آتے ہیں، جانی اور مالی نقصانات ہوتے ہیں، قوم چند ہفتوں کے لئے ہنگامی صورت حال سے دوچار ہوتی ہے، ہاہا کار مچائی جاتی ہے۔۔۔ اور پھر محاذ خاموش ہو جاتا ہے! چونکہ ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے اس لئے رہائشی عمارات اور مال مویشیوں کی تعداد بھی روبہ کثرت ہے۔ دوسرے لفظوں میں جانی نقصانات، عمارتوں کا انہدام اور مویشیوں کی اموات بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔
مہر علی شاہ کی تائید کرتے ہوئے فیڈرل فلڈ کمیشن کے چیئرمین مسٹر احمد کمال نے بھی اربابِ اختیار کو انتباہ کر دیا ہے کہ آنے والے مہینوں میں ایک بڑا سیلِ آب آنے کو ہے۔ اگر ابھی سے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو نقصانات ہولناک ہو سکتے ہیں، جس طرح ساری دنیا میں آب و ہوا اور موسم، تبدیلیوں کے پیامبر بنتے جا رہے ہیں، پاکستان بھی اس سے مبّرا نہیں۔ یہاں بھی ان تبدیلیوں کا دور دورہ ہو گا اس لئے ان دونوں حضرات نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ کم از کم 15ارب روپے کے فنڈز فی الفور ریلیز کئے جائیں تاکہ حفظ ماتقدم کے پروگراموں پر عملدرآمد ہو سکے۔
میرے خیال میں متعلقہ وزارت کے اہلکاروں کو وزارتِ خزانہ پر مسلسل زور دینا چاہیے کہ وہ جلد از جلد مطلوبہ فنڈز ریلیز کرے۔ 2017ء میں مشترکہ مفادات کی کونسل (CCI) میں مرکزی اور صوبائی سطح پر سیلاب کی روک تھام کے لئے ایک دس سالہ منصوبہ منظور کیا گیا تھا جس کی لاگت کا تخمینہ 326 ارب روپے تھا۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس منصوبے کو پانچ پانچ برسوں پر مشتمل دو مراحل میں مکمل کیا جائے گا۔ لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں۔ ڈیڑھ دو برس بعد حکومتیں (مرکزی اور صوبائی دونوں) بدل گئیں۔

اب تحریکِ انصاف کی آزمائش ہے کہ آیا وہ روائتی ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کرتی ہے یا اس وارننگ کو سنجیدگی سے قبول کرکے مطلوبہ فنڈز ریلیز کرنے میں تساہل سے کام نہیں لیتی۔۔۔میری نظر میں اگر حکومت کی طرف سے آج یہ رقوم دے بھی دی جائیں تو پھر بھی سیلاب کی آمد کی روک تھام کے لئے درج ذیل اقدامات ناگزیر ہونے چاہئیں:
1۔سب سے پہلے میڈیا کو آگے بڑھنا چاہیے اور سروں پر منڈلانے والے اس خطرے کے بارے میں ٹاک شوز اور دوسرے معلوماتی پروگرام نشر / شائع کرنے چاہئیں۔ ان پروگراموں میں نہ صرف متعلقہ وزارت کے سینئر افسروں کو بلوا کر ان کی آراء پر بحث و مباحثہ ہونا چاہیے بلکہ ریٹائرڈ اہلکاروں اور ماہرین کو ایک روڈمیپ تیار کرکے حکومت کے حوالے کرنا چاہیے۔اس روڈ میپ میں جن نکات پر توجہ کی ضرورت ہو گی وہ میرے خیال میں یہ ہونے چاہئیں:
*۔۔۔ ملک کے بعض حصے ایسے ہیں جو ہمیشہ سیلابوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ ان کا پِن پوائنٹ انتخاب کرکے ممکنہ نقصانات کی پیش بندی کے طور پر ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کیا جائے۔
*۔۔۔ٹوٹے ہوئے بندوں کی مرمت کو ترجیح دینی چاہیے۔ اور ساتھ ہی ان کے آگے پیچھے مزید بندوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔ یعنی یہ بند ’’لہر در لہر‘‘ (Multi Tiers) ہوں۔
2۔متاثرہ آبادی کے انخلاء کا ایک فول پروف پروگرام مرتب کیا جائے۔ فلڈ کی آمد کی اطلاع ملتے ہی مقررہ مقامات پر اس آبادی کو منتقل کرنے کے انتظامات کئے جائیں۔ اس کے لئے نئی کشتیاں خریدنی ہوں گی، پرانی کشتیوں کی مرمت وغیرہ کرنا ہوں گی، لائف جیکٹس کی فراہمی یقینی بنانا ہو گی اور ریسکیو کا دوسرا متعلقہ ساز و سامان (Equipment) پہلے سے تیار رکھنا ہو گا۔
3۔جن مقامات پر زیادہ سیلاب آتے ہیں، ان کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ وہ کس کس صوبے اور کن کن اضلاع میں واقع ہیں۔ ان کو نشان زد کرکے ان کے نواحی علاقوں میں ہنگامی خیمہ بستیاں بنائی جائیں۔ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا فاٹا کی بعض ایجنسیوں (جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان اور سوات وغیرہ) میں آپریشن راہِ نجات اور ضربِ عضب کے دوران پاک آرمی نے جس عجلت اور حسنِ انتظام سے متاثرہ آبادیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر نئی خیمہ بستیوں میں منتقل کیا تھا اسی عمل (Process) کی تقلید کی جائے۔

آبادیوں کو معلوم ہو کہ انہوں نے کس ترتیب سے کس جگہ منتقل ہونا ہے۔ ان مقامات پر بنیادی انسانی ضرورتوں کی فراہمی ایک صبر آزما اور مشکل کام ہے۔ اس کے لئے Committed عملے کی ضرورت ہے جس کا انتظام و انصرام ضلعی انتظامیہ کے حوالے کرنا چاہیے۔ پاک آرمی ’آن کال‘ ہو!
4۔کوئی فلڈ (یا سُپر فلڈ) راتوں رات نہیں آ جاتا۔ کیچ منٹ ایریاز میں لگاتار بارشیں اور برف کاپگھلاؤ فلڈ کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ اس کی مانیٹرنگ کا فول پروف انتظام ہونا چاہیے۔ جونہی اطلاع ملے کہ سیلاب کا رخ کسی علاقے کی طرف ہو رہا ہے تو فی الفور اس علاقے میں کئے جانے والے نظری اقدامات کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا جائے۔
5۔ ممکنہ مقاماتِ سیلاب کے آس پاس امدادی سامانِ کی ڈمپنگ کا کام ابھی سے شروع کر دیا جائے۔ ڈبہ بند خوراک، پینے کا پانی، غسل خانے ،نکاسیء آب، گیس اور بجلی کی فراہمی، میڈیکل سہولتوں کی ترسیل وغیرہ کے انتظامات دردِ سر ضرور ہیں، لیکن ان کا ابھی سے مداوا کر لینا چاہیے۔
6۔خدا کرے کہ یہ فلڈ نہ آئے اور آئے تو سپرفلڈ نہ بنے لیکن جیسا کہ اس کالم کے آغاز میں کہا گیا ہے مون سون اور برف کے پگھلاؤ کا عمل جس سرعت سے شروع ہو گا، اس کے لئے فلڈ ریلیف ٹیموں کو ابھی سے ٹریننگ دی جائے۔

فوج کے غوطہ خوروں کی ٹریننگ، آرمی یونٹوں کی بانٹ/ تقسیم، آرمی ہیلی کاپٹروں کی تیاری، فیلڈ ہیلتھ یونٹوں وغیرہ جیسے کام اگرچہ مشکل ہیں لیکن زندہ قوموں پر یہ آزمائشیں آتی رہتی ہیں۔ پاکستان پہلے بھی زلزلوں اور سیلابوں کا سامنا کرتا آیا ہے، اب بھی اِن شاء اللہ اگر ضرورت پڑی تو سرخرو ہو گا۔
7۔اس قسم کی ہنگامی صورت حال میں مالی اوورسائٹ (Financial Oversight) (نگرانی) ایک بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ ایک طرف لوگ زندگی اور موت کی کشمکش میں گرفتار ہوتے ہیں اور دوسری طرف کچھ لوگ لوٹ کھسوٹ کو اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں۔ چونکہ ہر امدادی کام وقت کی عجلت مانگتا ہے اس لئے روپے پیسے کے خرچ کا حساب کتاب رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

اس سیال (Fluid) صورتِ حال سے بدعنوان عناصر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس مرض کا کوئی تیربہدف علاج تو ممکن نہیں ہوتا لیکن اگر نگرانی کا انتظام کڑا ہو تو کچھ نہ کچھ بچت ضرور ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں صوبوں اور مرکز کو صرف 15ارب دے کر آرام سے نہیں بیٹھ جانا چاہیے۔ اگر خدانخواستہ واقعی کسی ’’سُپر فلڈ‘‘ سے پالا پڑ جائے تو اس کو سپر قربانی (Super Sacrifice) سے ہی کاؤنٹر کیا جا سکتا ہے۔
8۔اگرچہ پاکستان میں ’’خلقِ خدا‘‘پہلے ہی مہنگائی کے عفریت کا شکار ہے اس لئے اس سے کسی مزید مالی مدد کی قربانی مانگنا بہت مشکل ہو گا تاہم ’’وزیراعظم ریلیف فنڈ برائے سیلاب زدگان‘‘ کا ڈول ڈالا جا سکتا ہے۔بیرونی ممالک سے امداد کی درخواست اگرچہ پاکستانی روائت نہیں، پھر بھی مخیر ممالک آگے بڑھتے ہیں اور کچھ نہ کچھ ’’دال دلیا‘‘ ہو ہی جاتا ہے۔
9۔حال ہی میں بلوچستان کے کئی علاقوں (خصوصاً لس بیلا، خاران، نوشکی وغیرہ) میں سیلابوں نے تباہی مچائی۔ بہت سی جانیں ضائع ہوئیں اور بہت سے مکانات برباد ہو گئے۔ مصیبت کے ان لمحات میں پاکستان آرمی نے اپنی ریسکیو ٹیموں کو جس تیزی سے فعال کیا وہ قابلِ صد تحسین کام تھا۔ ہیلی کاپٹروں نے ان سیلاب زدہ علاقوں سے لوگوں کا انخلاء جس طرح ممکن بنایا، خدا نہ کرے، اس کو دہرانے کی ضرورت پنجاب اور سندھ میں بھی پڑ جائے، چنانچہ ہیلی کاپٹروں کے ایک لارجر بیڑے کو تیار رکھنا پڑے گا۔
سیلاب آتے ہیں تو اس دوران جو بربادی اور تباہی دیکھنے میں آتی ہے وہ تو ایک پہلو ہے۔ لیکن اس بربادی کا ایک دوسرا پہلو بعد از سیلاب کی صورتِ حال ہے۔ لوگ بُری طرح بے حال اور بدحال ہوتے ہیں، سراسیمگی ان کی رگ رگ میں سمائی ہوتی ہے، مال مویشی اور بیشتر خانگی سامان، سیلابی ریلوں میں بہہ جاتا ہے؟ فصلیں برباد ہو جاتی ہیں، دوبارہ آباد کاری کا مسئلہ ناقابلِ بیان دشواریوں کو محیط ہوتا ہے اور لٹے پٹے خاندانوں کو پھر سے آباد کرنا از بس مشکل کام ہوتا ہے۔ جیسا کہ وارننگ دی جا رہی ہے اگر یہ سپرفلڈ آیا تو پہلے سے ڈانواں ڈول پاکستانی معیشت مزید ڈگمگا سکتی ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ قوم کو اس امتحان میں نہ ڈالے۔

مزید :

رائے -کالم -