گاپو چی گاپو چی گم گم
سالا ایک معمولی وائرس پوری انسانیت کو ہیجڑا بنا دیتا ہے۔ بس اتنی ہی اوقات ہے انسان کی، کیسے بھاگتا پھر رہا ہے موت کہتی پھرتی ہے کوکلا چھپاتی جمعرات آئی جے جیہڑا اگے پچھے تکے اوہدی شامت آئی جے۔ زندہ قومیں مر مر کے جیتی ہیں اور پھر اس حال میں تو جینا لازم ہوتا ہے جس حال میں جینا مشکل ہو جائے۔کرونا بے تو میرے حس مزاج کو بھی ریورس گیئر لگا دیتا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ کورونا سے بچنا ہے تو اپنے چہرے پر ہاتھ نہ لگائیں۔ اب اگر میں شہباز شریف بھیا کی طرح اپنی تھوڑی کے نیچے ہاتھ نہ رکھوں تو سوچ بھی ونگی سدھی آتی ہے۔ سوچتا ہوں کہ ہاتھ ہی کٹالوں پر تصور میں دیکھتا ہوں تو میں بطور ٹنڈا کچھ اتنا سمارٹ نہیں لگتا۔ کورونا نے تو ڈونلڈ کو بھی ٹرمپیاں بھلا دی ہیں، لیکن سجنوں تے مترو اگر تھوڑی سی احتیاط کر لیں تھوڑا سا حکومت سے تعاون کر لیں تو ہو سکتا ہے کچھ اچھا رزلٹ نکل آئے۔دو گھنٹے پہلے دوکان کھول کے دو گھنٹے پہلے بند کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ امتحان کی گھڑی ہے اور اس میں کمپارٹ کی کوئی کی گنجائش بھی نشتہ ہے۔ میرا سنتا سنگھ بھی کورونا کی وجہ سے پریشان ہے۔ اسے شک ہو گیا کہ اسے کورونا ہے ڈاکٹر کے پاس گیا ڈاکٹر بولا پچیس ہزار کا ٹیسٹ ہو گا میرے سنتا نے بہت منت کی کہ پیسے کم کرے ڈاکٹر نہ مانا۔ سنتا سنگھ اٹھا اور ڈاکٹر کے منہ پر زور سے نچھ ماری اور بولا ہن توں اپنا ٹیسٹ کرا، جے تینوں کو رونا نکلا تے سمجھ لواں گا مینوں وی اے۔ اے میرے دولت کے مارے انسان کہاں لے جاؤ گے یہ دولت کہ کہیں ماسک بلیک میں بک رہے ہیں کہیں سینیٹاٹزر مہنگے، دولت نظر آ رہی ہے اور جو یہ موت تمہارے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ جب کن تھلے وجے گی تو سنبھلنے کا وقت بھی ملے گا۔ سنتا سنگھ کو ڈاکوؤں نے پکڑ لیا۔ بولے پیسے نکالو ورنہ جان سے مار دیں گے۔ بنتا بولا جان سے مار دو دولت تو میں نے بوڑھاپے کے لئے رکھی ہے۔ چھڈو وی ویر جی، کیا کرنا ایسی دولت کا، یہ مصیبت کی گھڑی ہے مصیبت ماروں کی مدد کرو دعاواں لو۔ دولت نہیں یہ دعاواں بوڑھاپے میں کام آئیں گی۔
ہم تو پہلے ہی آہستہ آہستہ،سلولی سلولی، رمکے رمکے بلاول بھٹو کے فین بنتے جا رہے ہیں۔ اک واری فیر بلاول بازی لے گیا۔ اس نے ثابت کیا میچورٹی کے لئے شیخ رشید کی طرح بڈھا ٹھہرا ہونے کی ضرورت نہیں۔ واقعی اس وقت سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی ضرورت نہیں مل کر اس عذاب کے مقابلے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی ”تن حوصلہ“ پیدا کریں پنجاب کے ساتھ سندھ کے وزیر اعلیٰ کی تعریف بھی کر دیں کوئی حرج نہیں وہ پورے پاکستان کے وزیر اعظم نہیں۔ سنتا سنگھ نوکری کے لئے انٹرویو دینے گیا۔ انٹرویو لینے والے نے کہا کہ اچھا اس کا کیا مطلب ہے گاپو چی گاپوچی گم گم، سنتا سنگھ نے جواب دیا کیشی کی کیشی کی کم کم۔انٹرویو والے نے حیران ہوکہ کہا کیا مطلب سنتا بولا مطلب تسی مینوں نوکری نہیں دینی۔ کپتان کے منہ سے گاپو چی گاپوچی اچھا نہیں لگتا۔ حوصلہ تو اپنے فیاض الحسن چوہان نے دکھایا انہوں نے بھی کورونا کرائس کے بعد اپنی سیاسی تلوار بازی بند کر رکھی ہے۔ چوہان جیسے جنگجو سے پوچھیں تلوار اپنی میں رکھ کر ڈروٹ لینا کتنا اعصاب شکن ہوتا ہے۔ بے شک اس موقع پر شہباز شریف کی یاد آ رہی ہے لیکن بھیا میرے عوام کی خدمت کے لئے وزیر اعلیٰ ہونا ضروری نہیں، میاں صاحب نس کے آؤ اور بغیر وزیر اعلیٰ کی واسکٹ کے امتحان کی اس گھڑی میں عوام کے ساتھ کھڑے ہو یہ کیا کہ عوام مرے اور ان کا سابق خادم اعلیٰ لندن میں دریائے ٹیمز کے کنارے سٹابری چوپتا پھرے۔خیر ان کا شکریہ جیسے ہی انہیں پتہ چلا کہ پاکستان نے فلائٹس بند کردیں انہوں نے واپسی کا اعلان کردیا۔ ہوسکتا ہے وہ کسی تانگے یا چنگچی پہ آنے کا انقلابی منصوبہ بنائے بیٹھے ہوں۔عوام انکی یاد میں کہتی پھرتی ہے سنجے دل والے بوہے ہجے میں۔نئیو ڈھوئے وے توں جم جم آویں چنا تاریاں دی لوئے۔
یار آپ عثمان بزدار کو کیا سمجھتے ہیں؟ اگر وہ بھولے ہیں لیکن اتنے بھی نہیں کہ آپ انہیں ایزی لینا شروع کردیں، اور پوچھیں کہ کورونا کیسے وڈتا ہے تو پھر دو سال پنجاب کی وزارت اعلیٰ نہ نکال پاتے۔ آپ اپنی خبروں کے زریعے جتنی مرضی دندیاں وڈیں وہ اپنی دھن کے پکے ہیں۔ بھیا میرے ان کے معصوم چہرے اور سادہ سے انداز پر نہ جاو وہ اندر سے وہ 'پورم پور' ہیں۔ اتنے سیانے ہیں کہ کوئی بندہ اگر دل میں ہی سوچ لے کہ اس نے وزیر اعلیٰ بنتا ہے تو یہ سادہ بندہ اسے چک کے ایسی جگہ پھینکتا ہے جہاں ٹکور کے لئے وٹّا بھی نہین ملتا۔کوئی نیب زدہ ہوجاتا ہے کوئی دہشت زدہ۔سمجھ لیں وسیم اکرم کو بولنگ آگئی ہے۔ لائن لنتھ ٹھیک ہوگئی ہے۔ اب ان کے یارکر انڈپّر اور باؤنسر دیکھیں۔کورونا کے خلاف اگر عثمان بزدار دیہاڑی والے فٹ پاتوں فیکٹریوں کارخانوں میں کام کرنے والوں کو بچا گئے تو پھر انہیں پکڑنا مشکل ہوگا۔ یہ وسیم اکرم ٹی ٹونٹی کے ساتھ ٹیسٹ کا بھی کھلاڑی ہے۔