کرونا رُت میں خوشی کی خبر

کرونا رُت میں خوشی کی خبر
کرونا رُت میں خوشی کی خبر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کسی بھی اخباری رپورٹر کے لئے بریکنگ نیوز سب سے بڑا اعزاز ہوا کرتی ہے۔ تازہ خبر خوشی کی تھی، لیکن سب کچھ جانتے ہوئے بھی مجھے اِس اعزاز سے محروم کر گئی، مگر کیسے؟ یہ کہانی آگے چل کر، پہلے خبر ”لندن: بی بی سی کے سینئر براڈ کاسٹر اور ڈوکومنٹری فلم میکر یاور عباس، جو آئندہ ستمبر میں اپنی 100 ویں سالگرہ منانے والے ہیں، انسانی حقوق کی معروف علم بردار نور ظہیر کے ساتھ رشتہء ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ نور ظہیر ترقی پسند دانشور سجاد ظہیر اور رضیہ سجاد ظہیر کی صاحبزادی ہیں۔ یاور عباس کو 1942ء میں متحدہ ہندوستان کی گیارہویں سکھ رجمنٹ میں بطور سیکنڈ لیفٹننٹ کمیشن ملا۔ سات برس بعد جب وہ پاکستان میں میجر تھے، یاور عباس نے فوج سے علیحدگی اختیار کی اور بی بی سی سے وابستہ ہو کر لندن چلے گئے۔ شادی کی رسم فیلتھ ہیم کے رجسٹرار آفس میں ادا کی گئی۔“


صحافیانہ زاویے سے اِس خبر میں دلچسپی کے کئی پہلو ہیں۔ ایک تو دوسری جنگِ عظیم کی آزمودہ کار شخصیت جس نے ابتدا میں پروفیسر رگو پتی سہائے فراق گورکھ پوری سے الہٰ آباد یونیورسٹی میں انگریزی ادب پڑھا۔ پھر برما میں عسکری خدمات دیں بلکہ جنگ میں جاپانیوں کے ہتھیار ڈالنے اور کراچی میں 14اگست 1947ء کو ٹرانسفر آف پاور کی عکس بندی بھی کی۔ آگے چل کر ’انڈیا مائی انڈیا‘ سے لے کر مایہ ناز اسکواش کھلاڑیوں پہ محیط ’خانز آف پاکستان‘ جیسی دستایزی فلمیں اِن کے علاوہ ہیں۔ دلہن کو دیکھیں تو والد ہیں فیض کی صحبت میں قید کاٹنے والے سجاد ظہیر، پھر اُن کی دانشور اہلیہ رضیہ سجاد ظہیر۔ خود محترمہ نور ظہیر کی درجن بھر سے زائد تصانیف کون کون سی ہیں اور بھارت میں حالیہ مُودی مخالف احتجاجی مظاہرو ں میں اُن کا رول کیا رہا؟ اگر معلوم نہیں تو انٹرنیٹ کا بٹن دبا کر خود پڑھ لیجئے۔


اِن میں سے بعض معلومات تو یاور عباس اور نور ظہیر پر روزنامہ ڈان میں شادی کی تصویر سمیت ایک خصوصی فیچر میں شائع ہو گئیں، مگر ہر ڈرامہ آرٹسٹ جانتا ہے کہ اسٹیج پر دکھائے گئے کھیل کے پیچھے ایک بیک اسٹیج اسٹوری بھی ہوتی ہے۔ گویا رائٹر اور ہدایت کار ہر بڑے کردار کی تخلیق ایک بھرپور اکائی کے طور پر کرتے ہیں۔ یوں اُن کے ذہن میں صرف وہی کچھ نہیں ہوتا جو ناظرین کو دکھانا مقصود ہو، بلکہ وہ سب جو نظر نہ آتے ہوئے بھی مذکورہ انسانی وجود کی منطق کا حصہ ہو۔ اب میرے مرحوم والد کی طرح یہ نہ کہہ دیجئے گا کہ یار، مَیں نے سیدھی سی بات کی تھی، تم فلسفہ جھاڑ رہے ہو۔ تو سیدھی بات یہ ہے کہ جب یہ مراحل طے ہو رہے تھے جو شادی پہ منتج ہوئے تو اِن کے پیچھے واقعات کا ایک اور تسلسل بھی تھا، جسے پڑھ کر آپ کو دولہا دلہن سے خاصی محبت اور مجھ سے شدید ہمدردی ہو جائے گی۔


بہرحال، بیک اسٹیج کہانی سُننے کے لئے میری ایک شرط ہے۔ وہ یہ کہ آپ نے کبھی نہ کبھی ایسی کُڑک مرغی ضرور دیکھی ہو جو انڈے دینے کا عمل موقوف کرکے انڈوں میں سے چوزے نکالنے پہ مامور کر دی جاتی ہے۔ اِس مثال کو ٹھیک طرح سمجھ لیجئے،کیونکہ اِس کے بغیر قارئین کو اندازہ نہیں ہو سکتا کہ یاور عباس والی خبر کے سلسلے میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنے وقتوں کا مانا ہوا بی بی سی نامہ نگار اور آج کا کالم نویس کیسی چاہت اور کتنی احتیاط سے انڈے پہ بیٹھا رہا۔ کُڑک مرغی کے لئے انڈے سینے یا انکیوبیشن پیریڈ کی میعاد اکیس دن ہوتی ہے۔ چونکہ خبر کا انڈہ عام تخمِ مرغ کے مقابلے میں خاصا بڑا تھا اِس لئے آپ کے کُڑک رپورٹر کے لئے یہ دورانیہ اِس سے دوگنا ثابت ہوا۔ظلم یہ ہوا ہے کہ بالآخر چوزہ نکلا تو اُسے جھپٹا مار کر ایک اور مرغی لے اُڑی۔ سارا ڈربہ منہ دیکھتا رہ گیا۔


اب فلیش بیک میں جانے کی اجازت دیں تو مجھے اِس خبر کی بھنک فروری کی سات تاریخ کو پڑی، تاہم، لندن میں میرے معتبر ذرائع کا کہنا تھا کہ وہ ’منگیتروں‘ سے مل کر جزئیات کی تصدیق حاصل کریں گے۔ چنانچہ بی بی سی والے سید راشد اشرف اور دردانہ انصاری دونوں ملنے کے لئے گئے۔ اُن کی بدولت اسی ہفتے یہ منکشف ہو چکا تھا کہ ”سجاد ظہیر کی صاحبزادی نور ظہیر بہت ہی اچھی خاتون ہیں۔ یاور صاحب کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں اور چہرے پہ غرور کی ایک ہلکی سی جھلک بڑی مسحور کن ہے۔۔۔ یہ ایک خاص دن تھا، اس لئے کھانا اپنے ہاتھوں سے پکایا تھا۔ سب خوب ہنسے۔ راشد صاحب بھی بے انتہا خوش تھے۔ مَیں نے آپ کو یاد کیا۔ انشااللہ ایک اچھی سی تقریب رکھیں گے۔“ یہی نہیں، مجھے اِس موقع پر ملاقات کی تصویریں بھی موصول ہوئیں، جن میں لڑکے، لڑکی کا کلوز اپ بھی تھا۔


مزید پندرہ روز میں شادی کی تاریخ طے پاگئی تو میرے اندر کا اخبار نویس بھی جاگا کہ جناب، شغل میلہ اپنی جگہ مگر یہ تو ایک ممکنہ بین الاقوامی خبر ہے۔ سب سے پہلے دولہا میاں جنہیں آئندہ سالگرہ پہ ملکہ برطانیہ کی طرف سے سنچری بنا لینے پہ ملکہ برطانیہ کی تحریری مبارکباد کا انتظار ہوگا۔ انڈیا اور پاکستان دونوں ملکوں کا فوجی افسر، برطانیہ میں یادگار فلم سازی، رہا مصروف سڑکوں پہ کار دوڑانا تو لندن میں ڈھائی سال ہوئے اِس کا مظاہرہ بھی دیکھ چکا ہوں۔ساتھ ہندوستان کی احتجاجی تحریک میں نور ظہیر صاحبہ کا جرات آموز کردار، اُن سے اوپر سید سجاد ظہیر اور رضیہ سجاد ظہیر۔ انٹرنیشنل خبر اور ہوتی کیا ہے؟ پروگرام کے مطابق، جوڑے کے رہائشی علاقے فیلتھ ہیم میں شادی کی رجسٹریشن 27مارچ کو ہونا تھی اور ویڈنگ ریسیپشن اس سے اگلی شام۔ یہاں میرے لئے دو رکاوٹیں پیدا ہو گئیں۔ ایک ذاتی، دوسری پیشہ ورانہ۔


ذاتی رکاوٹ اِس مفروضے کا نتیجہ تھی کہ یاور صاحب کی خانہ آبادی کی تقریب میں کوئی بلائے یا نہ بلائے، شرکت تو کرنا ہی ہوگی۔ مشکل یہ پڑی کہ میرا برطانوی پاسپورٹ، جس سے جہاں گردی میں سہولت رہتی ہے تجدید کے لئے فیڈیکس کے توسط سے برطانیہ کے ہوم آفس کو بھیج چکا تھا، جس کی بروقت واپسی کی بس امید ہی کی جا سکتی تھی۔ اِس لئے شادی کے منتظمین کو خفیہ طور پہ مطلع کر دیا کہ اگر یہ مسئلہ حل ہو گیا تو کچھ عجب نہیں کہ عین وقت پہ مَیں فلائٹ پکڑوں اور ڈیوڈ پیج اور ولیم کرالے کے ہمراہ سیدھا رجسٹریشن آفس میں ٹپک پڑوں۔ یہ تو ہوئی ذاتی بات۔ دوسرا مسئلہ پیشہ ورانہ اور زیادہ نزاکت کا حامل تھا، اور اِسی نے ایک باطنی چپقلش کو جنم دیا۔ مراد ہے ایک بڑی خبر بریک کرنے کی جبلی خواہش اور اِس سے متصادم یہ اخلاقی تقاضا کہ یاور صاحب جیسے جلالی طبیعت کے بزرگ سے پوچھے بغیر نئی صدی کی دوسری دہائی کا یہ راز کیسے افشا کروں۔


تذبذب کے اِس عالم میں مجھے اپنے کزن اور جید اخبار نویس خالد حسن بہت یاد آئے جو زندہ ہوتے تو برجستہ کہتے: ”شاہ جی، کبھی خبر بھی رکی ہے؟“ پر اپنی اِس شریفانہ سوچ کا کیا کروں کہ پیشہ ورانہ فیصلہ سازی مجموعی اخلاقی اقدار کے سیاق و سباق کے اندر رہ کر ہوتی ہے، اِس سے کٹ کر نہیں۔ پھر یہ ڈر بھی تھا کہ اِس دوران یہ خبر کسی کچے پکے صحافی کے ہاتھ لگ گئی تو خدا معلوم کس کس زاویے سے رنگ آمیزی کرے۔ اندرونی اضطراب پر قابو پانے کے لئے دو اصحاب کو ٹیلی فون کال کی۔ ایک تھے بی بی سی پاکستان کے سربراہ ذیشان حیدر اور دوسرے پرانے ہمکار اور اب ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس۔ دونوں مستند پروفیشنل اور انسانی شرافت کا نمونہ۔ اتفاق رائے اِس پہ تھا کہ اسٹوری بریک کرنے سے پہلے یاور بھائی سے پوچھ لیا جائے اور اِس کے لئے ’قرعہء فال بنامِ منِ دیوانہ زدند‘۔


برطانوی دور کے میجر سے بات کرنے کے لئے جرات درکار ہوتی ہے اور یہ تو معاملہ بھی حساس تھا۔ اپنی خود اعتمادی کی بحالی کے لئے پہلے تو سید راشد اشرف کو فون کیا، جنہوں نے خوش ہو کر یاور صاحب سے پیشگی اجازت لینے کی تجویز منظور کر لی۔ ساتھ یہ انتباہ بھی کہ یاور عباس کو تمہارے سورس کا پتا نہ چلے ورنہ اُن کا مُوڈ خراب بھی ہو سکتا ہے۔ اب لرزتی انگلیوں سے یاور صاحب کا نمبر جو ملایا تو تین گھنٹیوں کے بعد وہی کھنکناتی ہوئی پُرجوش آواز ”از اِٹ شاہد ملک کالنگ؟“ ”یس سر۔“ ”بھئی دردانہ سے کہا ہے کہ آپ کا ایڈریس چاہئیے، انوی ٹیشن کارڈ بھیجنا ہے۔“ ”جی جی، مبارک“۔۔۔ ”بھئی، سجاد ظہیر کا نام تو آپ نے سنا ہوگا۔۔۔“ یوں خبر کی تصدیق اپنے آپ ہو گئی۔ پوچھا کہ اب تو اپنے ہفتہ وار کالم میں ذکر کر سکتا ہوں۔ جواب ملا ”ضرور کیجئے،مگر رجسٹریشن کے بعد، کیونکہ ہندوستان میں بعض لوگ رخنہ اندازی کر سکتے ہیں۔“


بے تابی سے 27 مارچ کا انتظار شروع ہو گیا۔ لیکن اسٹوری کی ڈیڈ لائن میں ابھی دس یوم تھے کہ نصف شب کو میسنجر پر ہلکا سا ٹَن ہوا۔ ساتھ ہی زرق برق لباس میں نیوبیاہتا جوڑے کی تصویر۔ انڈے پہ بیٹھی مرغی پھڑپھڑانے لگی تھی کہ پانچ منٹ کے اندر لندن میں پرانی ہندی سروس کے للِت موہن جوشی نے سوشل میڈیا پر خبر باضابطہ طور پہ بریک کر دی۔ رجسٹریشن کی تاریخ میں ڈرامائی تبدیلی اِس خدشے کے پیشِ نظر ہوئی کہ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے برطانیہ میں ستر برس سے زیادہ عمر کے شہریوں کی نقل و حرکت پر کسی بھی لمحے پابندی لگ جائے گی۔ میرے مخبر للِت جوشی، اور اگلے دن ڈان اور بی بی سی ورلڈ کے مخبر بن گئے۔ تازہ اطلاع کے مطابق، دولہا اور دلہن مختصر سی تقریب کے بعد اب آئسولیشن میں ہیں اور مَیں اُن کی تصویر دیکھنے کے عمل میں اپنا نیا برٹش پاسپورٹ ہاتھ میں تھامے ہوئے ہوں جو 17 مارچ کو عین شادی کے دن موصول ہوا تھا۔

مزید :

رائے -کالم -