بڑھتی ہوئی آبادی:خانہ بربادی

بڑھتی ہوئی آبادی:خانہ بربادی
بڑھتی ہوئی آبادی:خانہ بربادی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ہمارے بڑے بڑے سیاستدان، معیشت دان، دانشور اور اکابر پاکستان کے گھمبیر مسائل پر روشنی ڈالتے رہتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی، جہالت، غیر محفوظ پانی، زلزلے، سیلاب، بے روز گاری، توانائی کی شدّت سے بڑھتی ہوئی کمی،عام بدنظمی اور لاقانونیت ایسے مسائل ہیں،جن کا فوری حل ضروری ہے، ورنہ ملک ڈوبتا ہی چلا جائے گا، لیکن جو مسئلہ تمام مسئلوں کی جڑ ہے اور جس مسئلے کے بارے میں ہر حکومت کو اس کا احساس بھی رہا ہے، اُس کو حل کرنے کے لئے جس ہنگامی پروگرام کی ضرورت ہے، وہ ہمیں پچھلے 60 سال میں بھی نظر نہیں آیا۔ بے تحاشہ بڑھتی ہوئی آبادی کا ”جِن“ ہمار ی تمام ترقیاتی کوششوں کو ہڑپ کر جاتا ہے۔ دراصل بڑھتی ہوئی آبادی کی تباہ کاریوں کا احساس تمام دنیا کو1950ء کی دھائی میں ہوا۔ اس کی دو وجوہات تھیں …… 1939ء کی جنگ ِعظیم دوئم میں دنیا کے تمام ممالک شامل تھے،کیا یورپ، برطانیہ، امریکہ، جاپان، مشرقِ بعید، روس اور برطانوی ہندوستان، سب ممالک کی فوجیں میدانِ جنگ میں مصروف تھیں۔ 1946ء میں جب جنگ ختم ہوئی اور فو جی اپنے گھروں کو لوٹے تو اُنہوں نے سب سے پہلے دو کام کئے…… شادیاں کیں اور جو شادی شدہ تھے، اُنہوں نے بچے پیدا کرنے شروع کر دیئے۔ ہر دو صورتوں میں کثرت اولاد ہوئی اور دنیا نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ 1946 ء سے 1950ء تک دنیا کی آبادی میں ایک دم 19فیصد اضافہ ہو گیا، جبکہ دنیا کی آبادی کے بڑھنے کا سالانہ تناسب کبھی بھی 4-3 فیصد سے زیادہ نہیں تھا، یعنی دنیا کی آبادی موت اور پیدائش کا حساب رکھتے ہوئے، 5 سے 7 کروڑ سالانہ بڑھتی تھی، لیکن 1946ء سے 1950 ء تک آبادی کی غیر معمولی افزائش کو سماجی ماہرین نے بڑی فکر کی نظر سے دیکھا۔ اِن 4 سالوں میں جو بچے پیدا ہوئے، اُنہیں امریکہ نے Baby Boomers کا نام دے دیا،جبکہ 2014ء میں یہی Baby Boomers،65 سال سے زائد عمر کے ہوگئے تھے۔


اب ہم دوبا رہ پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان اور سرکاری مشینری کتنی ہی مخلص اور ایماندار کیوں نہ ہو، اُس کی تمام کارکردگی بڑھتی ہوئی آبادی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ 1959ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے بیرونی امداد کے ذریعے فیملی پلاننگ کا پروگرام بڑے زور و شور سے شروع کیا، این جی اوز بھی بنائی گئیں۔ فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان نے بڑی دلجمعی سے کام شروع کیا۔ بیگم شائستہ عنایت اللہ کے زمانے میں اس این جی او کو بہت شہرت ملی۔ ان کو بھی بے تحاشہ بیرونی فنڈز ملے، لیکن صد افسوس کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کا عفریت روکانہ جا سکا۔ اس کی وجہ غلط اور احمقانہ منصوبہ بندی تھی۔ ہمارے ملک میں کثرتِ اولاد عموماً غریب اور اَن پڑھ مزدور پیشہ خاندانوں میں ہوتی ہے۔بیرونی امداد، جو خاندانی منصوبہ بندی کے لئے ملی، وہ اگر استعمال ہوئی بھی تو پرنٹ میڈیا کے ذریعے، ہورڈ نگز کے ذریعے، پوسٹرز اور کتابچوں کی شکل میں اور زیادہ سے زیادہ پرانے زمانے کے سینما گھروں میں دکھائے جانے والے اشتہاروں کی صورت میں۔ یہ تمام طریقہ ہائے ابلاغ پڑھی لکھی یا شہری آبادی کے لئے تو موزوں ہو سکتے تھے، لیکن ہمارا اَن پڑھ مزدور یا کسان، ان تحریری پیغامات سے فائدہ نہیں اُٹھاسکتا تھا۔ بیرون ملک سے خاندانی منصوبہ بندی کے لئے کثیر امداد آرہی تھی اور وہ ایسی مدوں میں خرچ کی جارہی تھی جس کا عملی فائدہ بہت کم،بلکہ غلط ہو رہا تھا۔ ہمارا پڑھا لکھا اور خوشحال طبقہ جو کم از کم 4 بچے افورڈ کر سکتا تھا، اُس طبقے نے تو خاندانی منصوبہ بندی کر لی اور 2 یا 3 بچوں پر خوشی خوشی اکتفا کر لیا، لیکن جن لوگوں کو منصو بہ بندی کرنی چاہیے تھی وہ8 سے لے کر 11 بچے فی خاندان پیدا کر کے پاکستان کو ایک مستقل اقتصادی اور سماجی عذاب میں ڈال گئے۔ اب بھی یہی حال ہے۔ 2050ء تک پاکستان کی آبادی 30 کروڑ سے زیادہ ہو جائے گی اور اس شُتر بے مُہار طرز کی بڑھتی ہوئی آبادی کا زیادہ حصہ اَن پڑھ اور غبی نوجوانوں پر مشتمل ہو گا۔ نفسیات کی زبان میں غبی اُس کو کہتے ہیں جس کا آئی کیو سو (100) سے کم ہو۔ ایک سو کا آئی کیو عموماً اوسط ذہانت کا ہوتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کس طرح خانہ بربادی کا باعث بن رہی ہے اور آئندہ بنے گی، وہ مَیں آپ کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھا سکتا ہوں۔


لاہور کی اپنی آبادی 70 لاکھ کے قریب ہے۔ 20 لاکھ مزید افراد مضافاتی اضلاع سے ملازمت کے لئے عارضی طور پر لاہور میں رہتے ہیں۔ اگر ہم قومی اعداد و شمار کو لیں تو لاہور کی آبادی ہر سال 2.29 فیصد بڑھ رہی ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ 90 لاکھ کی آبادی میں سالا نہ دو لاکھ اور اکسٹھ ہزار(261,000) بچوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ ان بچوں میں سے 25 فیصد بچے اگر پہلے 2-3 سال میں مر بھی جائیں تو بھی خالص اضافہ 195750 نفوس کا ضرور ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب ہے کہ صرف لاہور شہر میں ہر 5 سال بعد 195750 لڑکے اور لڑکیاں مدرسے جانے کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں۔ ہر 18 سال بعد یہی بچے بالغ ہو کر ووٹ ڈالنے کے قابل ہو جاتے ہیں، شادی کے قابل ہو کر مزید بچے پیدا کر سکتے ہیں، روزگار کے متلاشیوں میں اسی حساب سے اضافہ ہوتا ہے۔ مکانوں کی ضرورت بڑھتی ہے، زیادہ پبلک اور پرائیویٹ ہسپتالوں کی ضرورت بڑھتی ہے۔ ذرائع نقل و حمل (Transport) کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے، یہاں تک کہ اضافی خوراک کی طلب بھی بڑھ جاتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے بُھوک، ننگ، بے روزگاری اور جُرم ہماری زندگیوں میں مستقل ڈیرہ ڈال دیتے ہیں۔اس چھوٹی سی مثال کو ذرا اور پھیلالیں۔ چونکہ ہر سال لاہور میں 195750 بچوں (لڑکا/ لڑکی) کا اضافہ ہوتا ہے تو یوں سمجھ لیں کہ ہر سال اتنے بچوں کو سکول میں داخلہ دینے کی حکومت کی استعداد ہونی چاہیے، اتنی ہی ملازمتیں، نسبتاً اتنے ہی ہسپتال اور مکان ہونے چاہئیں۔ کوئی بھی حکومت خواہ وہ میاں نواز شریف کی ہو یا عمران خان کی یاآصف علی زرداری کی۔کیا صرف ایک شہر لاہور میں ہر سال 2000 سکول بنا سکتی ہے؟


اگر فرض کر لیا جائے کہ ہر سکول میں 1000 طالب علم داخل ہوں توکیا لاہور کے 50 کلو میٹر کے حلقے میں وہ مکان بنانے کی سہولتوں کے ساتھ اراضی حاصل کر سکتے ہیں؟ لاہور کی مثال کو قومی سطح پر لے جایئے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق پاکستان کی آبادی اگلے 36 سالوں میں 30 کروڑ ہو جائے گی، یعنی اموات اور پیدائش کے فرق کو نکال کر ہماری آبادی ہر سال قریباً34 لاکھ بڑھے گی، یعنی 1.8 فیصد سالانہ۔ خیال رہے کہ ہماری شہری آبادی کی شرح اضافہ 2.9 فیصد سالانہ ہے۔ ذرا سوچئے،کیا 34 لاکھ بالغ لوگوں کو ہر سال روزگار دینا، اور اُن کے لئے خوراک پیدا کرنا، جبکہ سیلاب کی تباہ کاریاں بھی ہوں، زرعی اراضی کم پڑتی جارہی ہو اور ہندوستان ہر سال یا دو سال بعد آبی ریلہ پاکستان میں چھوڑ دیتا ہو، جس سے ہماری زراعت مزید تباہ ہو رہی ہو، اُن کے لئے مکان، سکول اور کالج، ہسپتال اور پبلک ٹرانسپورٹ کا انتظام کوئی بھی حکومت کر سکے گی؟ پھر کیا ہوگا؟ تعلیم و تربیت سے محروم اور بے کار نوجوان گلی محلوں میں جرائم نہیں کریں تو اور کیا کریں گے؟


صرف لاہور کی اگلے 10 سالوں میں بڑھتی ہوئی آبادی کی مثال لے لیں۔ یہ شہر کثرتِ آبادی کی وجہ سے فلاح و بہبود کی سہولتوں سے محروم ہوتا چلا جائے گا۔ میٹرو بس اور نہ ہی پرائیویٹ ٹرانسپورٹ ان لوگوں کی نقل و حرکت کا انتظا م کر سکے گی۔ شہر سے دور بنی ہوئی آبادیوں کے لئے مزید ٹرانسپورٹ درکار ہوگی،جس سے ماحولیاتی آلودگی اور بڑھے گی۔ 2014ء میں لاہور میں رجسٹرڈ کاروں کی تعداد 6 لاکھ تھی، موٹر سائیکلیں 650,000 اور دوسرے وہیکلز (رکشا، ٹرک، ویگنیں وغیرہ) 96,000 تھیں۔ لاہور کا ٹر یفک جام ابھی بھی پریشا ن کُن ہے، دس سال بعد تو الامان و الحفیظ ہو جائے گا۔ کوئی بھی سیاسی یا غیر سیاسی حکومت سکون سے حکومت نہیں کر سکے گی۔ آبادی کے اس قدر دباؤ کی وجہ سے سیاسی پارٹیاں نہ کوئی واضح منشور بنا سکیں گی اور نہ ہی اُس پر عمل کر سکیں گی۔ فلاح کے ہر کام کو بڑھتی ہوئی آبادی کا اژدھا نگلتا چلا جائے گا۔ بھوک اور وحشت ناک بیکاری سے تنگ نوجوان پھر دھرنے ہی دیں گے۔ وہ ڈائریکٹ ایکشن لیتے ہوئے حکومتی سسٹم کو ہی آگ لگا دیں گے۔خاندانی منصوبہ بندی کے حق میں جو شروع شروع میں پیش رفت ہوئی تھی، اس کو جنرل ضیاء الحق نے، جوفوجی وردی میں ایک ملّا تھا، حکومتی ترجیحات سے نکال باہر کیا۔ خاندانی منصوبہ بندی کے ادارے کو وزارت صحت کا ایک ڈویژن بنا دیا۔ جنرل ضیاء الحق کے 11 سال اسلام کے لئے بھی بھاری رہے اور پاکستان کے سیکولر مزاج عوام پر بھی بھاری گذرے۔ مولویوں نے خاندانی منصوبہ بندی کا ٹوٹا پھوٹا انفراسٹرکچربالکل ہی اُجاڑ دیا۔ آج کی حکومت اور آنے والی حکومتیں گڈگورننس کر ہی نہیں سکیں گی، کیونکہ ہر معاشی منصوبہ بندی کو بڑھتی ہوئی آبادی نا کام کر دے گی۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کثرتِ آبادی اور اس کی روک تھام ہے۔ اگر ہم ایسا نہ کر سکے تو ہمار مستقبل نہایت تاریک ہے۔ حکومت کا ویژن 2025ء صرف کاغذوں میں ہی رہ جائے گا۔سیاست چھوڑ کر خدارا اِس خوفناک اور تباہ کُن مسئلے کا حل نکالیں۔

مزید :

رائے -کالم -