ایران پر پابندیوں کا خاتمہ،پاکستان کردار ادا کرے
ایران کے صدر حسن روحانی نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے نام خط لکھ کر اُن سے ایران کے خلاف عائد امریکی پابندیاں ختم کرانے میں کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسا ہی ایک خط پاکستان میں متعین ایرانی سفیر سید محمد علی حسینی نے قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف کوبھی لکھا ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ وہ کرونا کے پھیلاؤ کی موجودہ تباہ کن صورتِ حال میں ایران کے خلاف پابندیاں ختم کرانے میں کردار ادا کریں،جن کی وجہ سے ایران میں ادویات کی قلت ہے اور پابندیوں کی وجہ سے مالی وسائل کے اخراجات میں بھی رکاوٹیں آ رہی ہیں،پاکستان ایران کی جانب سے رسمی درخواست ملنے سے پہلے ہی پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کر چکا ہے۔ یہ مطالبہ وزیرعظم عمران خان نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو اپنے ایک انٹرویو میں کیا تھا،اس وقت پاکستان سفارتی سطح پر پابندیوں کے خاتمے کے لئے کوشاں ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدارسنبھالتے ہی ایران کے خلاف یکطرفہ اقدامات کا جو سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ یہ پابندیاں بھی اس کا تسلسل ہیں اُن کے دور میں امریکہ اس جوہری عالمی معاہدے سے نکل گیا،جو اوباما کی صدارت کے زمانے میں ایران کے ساتھ پانچ بڑی طاقتوں کے ساتھ ہوا تھا۔ اوباما اس معاہدے پر بہت خوش اور مطمئن تھے اور انہوں نے مخالفت کے باوجود کانگرس سے اس معاہدے کی توثیق بھی کرا لی تھی،لیکن صدر ٹرمپ نے اپنی اسرائیل نوازی کی وجہ سے نہ صرف ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ منسوخ کیا،بلکہ اقتصادی پابندیاں بھی لگا دیں جو تاحال جاری ہیں،بلکہ حیرت ہے کہ کرونا کی وبا پھیلنے کے بعد بھی ان پابندیوں کو وسعت دی گئی ہے اور چند روز پہلے ایرانی تیل کا کاروبار کرنے والی یو اے ای کی کمپنیوں کے خلاف نئی پابندیاں عائد کی گئی ہیں،حالانکہ ضرورت یہ تھی کہ امریکہ نہ صرف یہ پابندیاں نرم کرتا،بلکہ انسانیت کی بھلائی کی خاطر ایران میں کرونا کا پھیلاؤ روکنے میں بھی معاونت کرتا،لیکن امریکہ نے یہ پابندیاں مزید بڑھا دیں اور ایران پر ”زیادہ سے زیادہ دباؤ“ ڈالنے کی پالیسی جاری رکھی۔ایران سے دوسرے ممالک کو جانے والوں کی وجہ سے وائرس تیزی سے پھیلا، ایران ان چند ممالک میں شامل ہے،جہاں وائرس کے مریض بھی بڑی تعداد میں ہیں اور اموات بھی بہت زیادہ ہوئی ہیں۔اگرچہ اس وائرس کی کوئی ویکسین تو دستیاب نہیں اور پہلے سے موجود دوسرے امراض میں استعمال کرائی جانے والی ادویات ہی سے ان مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے،لیکن ایرانی تیل کی فروخت اور دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت پر جو پابندیاں لگی ہوئی ہیں اس کی وجہ سے ایران کو اپنے مالی وسائل کے استعمال میں بھی مشکل پیش آ رہی ہے۔ جب سے یہ وبا پھیلی ہے ایران تن تنہا صورتِ حال کا مقابلہ کر رہا ہے۔تاہم اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ اپنے فیصلہ پر نظرثانی کرے اور دُنیا کے جو ممالک امریکہ کو اپنا فیصلہ بدلنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں اُنہیں یہ کردار ضرور ادا کرنا چاہئے۔صدر ٹرمپ، وزیراعظم عمران خان کو اپنا دوست کہتے ہیں تاہم وہ اپنے اس دوست کی بات کو کس حد تک مانتے ہیں۔اس کا پتہ پابندیوں کے خاتمے ہی سے چلے گا۔
دُنیا اِس وقت ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے اور قومیں ایک دوسری پر انحصار کر رہی ہیں ان حالات میں کوئی ملک الگ تھلگ نہیں رہ سکتا اور یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ چین سے جنم لینے والے وائرس نے کتنی تیزی کے ساتھ پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا،اس وقت براعظم افریقہ کے کچھ ممالک کے سوا پوری دُنیا اس وبا کی لپیٹ میں ہے،چین اور جنوبی کوریا نے کمال دانش مندی اور حکمت ِ عملی کے ساتھ اس وبا پر قابو پا لیا ہے، جس طرح یہ ملک وائرس کے ابتدائی شکار تھے اسی طرح انہوں نے اس پر قابو پانے میں بھی اولیت حاصل کر لی ہے اور اب دونوں ممالک میں نئے کیس سامنے نہیں آ رہے،اِس لئے ان ممالک کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے تجربات میں باقی دُنیا کو بھی شریک کریں اور اُنہیں عملی طور پر ایسے اقدامات سے آگاہ کریں،جن پر عمل کر کے اس وائرس کا مقابلہ کیاجا سکتا ہے۔
ایران مشرقِ وسطیٰ میں تیل پیدا کرنے والا سعودی عرب کے بعد سب سے بڑا ملک ہے،اس کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے،لیکن اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے اس کی معیشت کو بڑا دھچکا لگا ہے، کرنسی کی قیمت بہت گر گئی ہے اور پابندیوں کی وجہ سے زندگی کے بہت سے شعبے متاثر ہوئے ہیں۔ادویہ کی قلت بھی ہے اِس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ دُنیا آزمائش کی اس گھڑی میں اس کی مدد کو پہنچے۔ایران نے جن ممالک سے اپیل نہیں بھی کی اُن کا بھی احترامِ آدمیت کے ناطے یہ فرض بنتا ہے کہ وہ پابندیوں کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں،روس اور چین جیسی بڑی طاقتیں اپنے فیصلے آزادی سے کرتی ہیں۔اگر وہ ایرانی عوام کی مشکلات کے حل میں آگے بڑھیں گے تو امریکی پابندیاں اُن کے راستے کی دیوار نہیں بن سکیں گی،کیونکہ عالمی امور میں بارہا ایسا ہوا ہے کہ ان دونوں بڑی طاقتوں نے امریکی ناراضی کی پروا کئے بغیر فیصلے کئے ہیں،اب آ کر انسانیت کی بھلائی کی خاطر امریکی پابندیوں کی مخالفت کی جاتی ہے تو دُنیا میں اسے سراہا جائے گا۔
ایران نے ہمیشہ خارجہ امور میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے، کشمیر کے معاملے پر اس نے بھارت کی ناراضی کی پروا کئے بغیر وہی بات کی جو پاکستان کا معلوم موقف ہے، کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے مودی کے فیصلے کی بھی ایران نے کھل کر مخالفت کی اور مقبوضہ کشمیر سے لاک ڈاؤن ختم کرنے کا مطالبہ کیا، دہلی کے فسادات پر بھی ایران کے رہبر اعلیٰ سید علی خامنہ ای نے جرأت مندانہ بیانات دیئے اور ان فسادات کو بجا طور پر قتل ِ عام قرار دیا، اب اگر ایرانی قیادت نے وزیراعظم عمران خان کو پابندیوں کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرنے کے لئے کہا ہے تو پاکستان کو برادر اسلامی ملک کی توقعات پر پورا اترنا چاہئے اور پابندیوں کے خاتمے کے لئے جو کچھ بھی ہو سکتا ہے وہ ضرور کرنا چاہئے۔ ایرانی قوم ہر لحاظ سے اِس بات کی مستحق ہے کہ دُنیا اس کی مدد کے لئے آگے بڑھے یہ وقت تو گزر جائے گا، لیکن جو ملک ایران کی امداد میں کردار ادا کریں گے اُنہیں آئندہ عزت و احترام کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔