جمہوریت ہار جائے گی؟؟ 

 جمہوریت ہار جائے گی؟؟ 
 جمہوریت ہار جائے گی؟؟ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 آجکل ایک ہی سوال زبان زدِ خاص و عام ہے کہ کون جیت رہا ہے؟ کون ہار رہا ہے؟؟ اگر تمام تر حالیہ واقعات کو سامنے رکھ کر اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو مختصراً یہ ہی سمجھ میں آتاہے کہ ہٹ دھرمی جیت رہی ہے، جمہوریت ہار رہی ہے۔ یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہوس اقتدار جیت رہی ہے امن، خوشحالی کی خواہش دم توڑ رہی ہے۔ پھر یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ”کارنامہ“ کسی ایک طرف سے انجام نہیں دیا جا رہا بلکہ تمام کے تمام فریق اس میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ جمہوریت کو چاہنے والوں میں بنیادی وصف قوتِ برداشت تسلیم کیا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں جمہوریت، جمہوریت کی مالا جپنے والوں میں اس کی اس قدر کمی ہے کہ الامان و الحفیظ۔ اختلاف یا مخافت تو چلو اس مقبول نظام حکومت کا حسن کہلاتا ہے لیکن یہاں تو بات دشمنی تک پہنچی رہتی ہے۔ ہر کوئی خنجر بدست دکھائی دیتا ہے۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جمہوریت کا نام لے کر اس کی بیخ کنی کرنے والوں میں ظاہری و نادیدہ سبھی قوتیں شامل ہوتی ہیں۔ اس سے بھی بڑا المیہ جمہور کا رویہ ہے جس کا جمہوریت پر یقین کچھ ہی عرصہ میں ڈانواں ڈول ہو جاتا ہے۔ پھر جب جمہوری نظام لپیٹ دیا جاتا ہے تو مختصر مدت کے بعد جمہوریت کی محبت عود کر آتی ہے۔
توبہ میری جام شکن، جام میرا توبہ شکن
سامنے ڈھیر ہے میرے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا


اسی ٹوٹ پھوٹ میں ہمارے ہاں جمہوری اقدار اور روایات بھی پاش پاش ہوتی رہتی ہیں۔ ہر قیمت پر اقتدار کی روش نے ہماری اخلاقیات ہی تباہ کر دی ہیں۔ زبان و بیان کو آلودہ کر دیا ہے اور تہذیب کے بخیئے ادھیڑ دیئے ہیں۔ جمہوریت میں جائز سمجھی جانے والی چیزوں کی بھی ہم اس طرح مت مار دیتے ہیں کہ اس بیچاری کے کرنے کا قانونی و آئینی طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ جب ارکان پارلیمینٹ کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ انہوں نے جن لوگوں کو مسند اقتدار پر بٹھایا تھا وہ توقعات پر پورا نہیں اترے۔ اب انہیں تبدیل کر دینا چاہئے تو عدم اعتماد کے ذریعے ان کو ہٹا کر نئی حکومت بنا دی جاتی ہے اس دوران معیشت کا پہیہ رکتا ہے نہ اخلاقیات کا جنازہ نکالا جاتا ہے۔ ایک معمول کی کارروائی ہوتی ہے جس میں میدان صرف پارلیمینٹ کے اندر سجتا ہے۔ ہمارے ہاں کا باوا آدم نرالا ہے ہمیں کسی کو لانے کی بھی جلدی ہوتی ہے اور پھر اکتا بھی جلدی جاتے ہیں۔ اتنی جلدی کہ حکومت اپنی آئینی مدت بھی پوری نہیں کر پاتی۔ یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے کچھ ہی دیر بعد یہ سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ قائد اعظمؒ کی رحلت اور قائد ملت کی شہادت کے بعد افراتفری سی مچ گئی۔ محلاتی سازشیں تھیں۔ آئے دن حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہتیں۔ پھر 1958ء کا مارشل لاء لگا تو یہ سلسلہ تھما۔ دو مارشل لاؤں کے بعد 1970ء کے انتخابات ہوئے نئی سول قیادت ابھری مگر ملک ٹوٹ گیا منتخب اسمبلی نے بچے کھچے پاکستان کا آئین تشکیل دیا۔ بعض ترامیم کے ساتھ یہی آئین آج بھی قائم و دائم ہے۔ 


اسی آئین میں عدم اعتماد کی شق موجود ہے جس کے ذریعے حکومت کو ختم کیا جا سکتا ہے یا یوں کہیں کہ وزیر اعظم کو ہٹایا جا سکتا ہے۔ وطن عزیز میں تحریک عدم اعتماد کا یہ تیسرا موقع ہے پہلی دو تحریکیں کامیاب نہیں ہو سکی تھیں۔ اب زور شور تو بہت ہے لیکن پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔ سپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو طلب کر لیا ہے۔ اس پر اپوزیشن نے بہت احتجاج کیا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس بلانے کی مدت سے تجاوز کیا ہے یوں وہ آئین شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف کاررائی ہو گی۔ حالانکہ اس آئین میں ”غیر معمولی حالات“ میں مدت سے تجاوز کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ سپیکر کی نظر میں او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس کی وجہ سے غیر معمولی حالات موجود ہیں سو انہوں نے اپنا اختیار استعمال کیا ہے جن لوگوں نے وزیر اعظم کے خلاف ووٹ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے وہ دو دن بعد بھی خلاف ہی ووٹ دیں گے۔ ایک دو دن میں ان کی کایا کلپ تو نہیں ہو جائے گی۔ ادھر وزیر اعظم نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لئے قومی اسمبلی کے اجلاس کا انتظار کرنے کی بجائے عوامی قوت کے مظاہروں کا راستہ اختیار کر لیا حالانکہ انہیں وزیر اعظم اس قومی اسمبلی نے بنایا تھا۔ پھر انہوں نے جلسوں میں جو لب و لہجہ اختیار کیا وہ ان کے منصب کے شایان شان نہیں تھا۔ وہ ان جلسوں میں کالج یونین کے صدارتی امیدوار دکھائی دیئے جس کی تربیت میں تہذیب کی کمی رہ گئی ہو۔ ارکان اسمبلی پر عوامی دباؤ ڈالنے کے دیگر طریقے بھی آزمائے جا رہے ہیں۔

انہیں خوفزدہ کیا جا رہا ہے جبکہ اپوزیشن حکومت کے منحرف ارکان کو سنبھالتی پھر رہی ہے۔ اُدھر عوامی مزاج کے وزیر داخلہ نے جہاں ایک طرف دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں وہاں حکومتی ارکان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مال اپوزیشن کا کھائیں اور ووٹ عمران خان کو دیں۔ وہ شیخ ہیں اور شیخ ہی یہ بات سوچ سکتا ہے لیکن ارکان (منحرف) اسمبلی تو شیخ نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ جس کا مال کھائیں اسی کو ووٹ بھی دیدیں۔ اس لئے حکومت کو یہ رسک نہیں لینا چاہئے بلکہ ان منحرفین کی شکایات سن کر ان کے ازالے کے فوری اقدامات کرنے چاہئیں اور جہاں جہاں سے پہلے فون کئے یا کرائے جاتے تھے ان سے بھی مراسم بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ہو سکتا ہے گوہر مقصود ہاتھ آ جائے ورنہ حالات بظاہر اچھے دکھائی نہیں دیتے۔ اس تحریک کے دو ہی نتیجے نکل سکتے ہیں یہ کامیاب ہو سکتی ہے یا ناکام۔ اگر نا کام ہو گئی تو وزیر اعظم اور ان کی ٹیم اقتدار کے مزے لوٹتی رہے گی اور مدت پوری کرکے یا اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات میں جا سکتی ہے (اس میں بھی کئی مسائل ہوں گے) اگر تحریک کامیاب ہو گئی تو وزیر اعظم اور ان کے رفقاء فارغ۔ لیکن کیا عبوری حکومت کو چین سے حکمرانی کرنے دیں گے؟ اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔


 وزیر اعظم نے اس کا ٹریلر چلا بھی دیا ہے۔ انتخابی جلسوں میں الیکشن کمیشن کے روکنے کے باوجود، نوٹس جاری کرنے کے باوجود انہوں نے شرکت کی اور پھر جو لب و لہجہ اختیار کیا وہ احتجاجی تحریک کا رنگ ڈھنگ لئے ہوئے ہے۔ یہ سلسلہ دراز بھی ہو سکتا ہے اور عبوری حکومت کو مفلوج بھی کر سکتا ہے۔ نتائج کو اگر ایک لمحے کے لئے ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو کامیابی کسی کی بھی ہو ہماری سیاست کے کھلاڑیوں نے جو حالات بنا دیئے ہیں اس کے نتیجے میں جمہوریت ہار جائے گی جمہوری روایات شکست کھا جائیں گی۔

مزید :

رائے -کالم -