پاک سرحد پرجدید ترین بھارتی اسلحہ کی تعیناتی
بھارت پاکستان سے متصل اپنی سرحدوں پر ایئر ٹینک تعینات کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ فضائی ٹینکوں کی تعیناتی کا یہ منصوبہ گرمیوں میں مکمل کر لیا جائے گا۔ہیوی ڈیوٹی کامبیٹ ہیلی کاپٹر اپاچے جسے ائیر ٹینک بھی کہا جاتا ہے جلد ہی پاکستان سے متصل سرحد پر تعینات کیا جائے گا۔
بھارتی فوج نے ہیوی ڈیوٹی اور جدید ترین صلاحیتوں سے لیس ہیلی کاپٹروں کے اسکواڈرن میں اضافہ کیا ہے۔اعلی معیار کے نائٹ ویڑن سسٹم سے لیس اپاچے کو ایک منٹ میں 138 اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائلوں سے لیس کیا جا سکتا ہے، جو اسے فضائیہ کا ایک زبردست اثاثہ بناتا ہے۔فوج کی مغربی کمان میں اپاچے ہیلی کاپٹروں کو تعینات کرنے کی تیاریاں جاری ہیں، جس کی پہلی کھیپ فروری 2024 میں امریکا سے موصول ہونی تھی لیکن اس میں تاخیر ہوئی ہے۔اب اپاچے ہیلی کاپٹروں کی پہلی کھیپ مئی میں موصول ہونے کا امکان ہے۔بھارتی فوج نے امریکی کمپنی بوئنگ کے ساتھ اپاچے ہیلی کاپٹروں کی خریداری کا معاہدہ کیا تھا۔تقریبا 5,691 کروڑ بھارتی روپے کے اس سودے کے تحت بوئنگ بھارتی فوج کو 6 ہیلی کاپٹر فراہم کرے گا۔
بھارتی حکومت کا اسلحہ خریدنے کا جنون اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب عوامی بجٹ سے بھی اسلحہ خریدا جا رہا ہے۔ بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بھارتی حکومت اسلحے کی دوڑ میں اتنی آگے نکل چکی ہے کہ صحت جیسی بنیادی سہولت کا پیسہ بھی اسلحہ پر خرچ کر رہی ہے۔ بھارتی بجٹ میں صحت کے لئے مقرر کردہ بجٹ کا بھی 50فیصد اسلحہ خریدنے پر صرف کر دیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت میں 40 فیصد اموات ذیابیطس، دل کے امراض، کینسر یا دماغی خلل کے باعث ہوتی ہیں، جبکہ اسی طرح کے اَمراض میں مبتلا 60 فیصد بھارتی شہری 70سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔بھارت میں ذیابیطس اور کینسر کے مریضوں کی تعداد میں زیادہ تیزی کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔بھارت کے غربت کے شکار بہت سے دیہات میں سے ایک موسے پور جس کی آبادی تقریباً 900 نفوس پر مشتمل ہے، لکھنو¿ سے قریب ہی واقع یہ گاؤں طبی سہولتوں سے محروم ہے۔
بھارت کی آبادی اس وقت سوا ارب کے قریب ہو چکی ہے، لیکن 80 کروڑ عوام ایسے ہیں کہ جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، 15 کروڑ شہری ایسے ہیں کہ جن کے پاس رہنے کے لئے سرے سے گھر، مکان یا خیمہ تو کجا معمولی جگہ بھی نہیں اور یہ 15 کروڑ انسان رات کو پارکوں، سڑکوں، فٹ پاتھوں پر وقت گزارتے ہیں۔ دنیا میں سب سے بڑا جھونپڑیوں کا سلسلہ بھارت میں ہے۔ بھارت کی دوسری طرف اندرونی صورت حال یہ ہے کہ وہاں آزادی کی سو سے زائد تحریکیں چل رہی ہیں۔ ملک کے 200 سے زائد اضلاع، 10 ریاستیں مکمل طور پر ماؤنواز آزادی پسندوں کے کنٹرول میں ہیں۔ وہاں بھارتی حکومتی ”پر“ تک نہیں مار سکتی۔ اس صورت حال کے باوجود بھارت کی اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سلوک کی حالت یہ ہے کہ سوائے 6لاکھ آبادی رکھنے والے بھوٹان کے ہر کسی کے ساتھ اس کی چپقلش اور مخاصمت ہے۔ چین تک اس سے پریشان ہے۔
چین نے بھارت کو کبھی جنگ کی دھمکی نہیں دی اور نہ کبھی بھارت پر حملہ کیا ہے۔ یوں اس خطے میں بھارت کے لئے کوئی ایسا ملک نہیں کہ جس سے بھارت کے وجود کو خطرہ ہو پھر کیا وجہ ہے کہ بھارت اپنی عوام کی حالت سدھارنے، غربت کے خاتمے اور ملک میں جاری آزادی کی تحریکوں کو اچھے طریقے سے ختم کرنے کی بجائے بے تحاشہ جدید سے جدید اسلحہ جمع کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ کشمیری مجاہدین یا ماؤنوازوں اور دیگر آزادی پسندوں کے خلاف تو بھاری اسلحہ استعمال نہیں کرے گا۔ اس کے بعد صرف پاکستان ہی رہ جاتا ہے کہ جس کے ساتھ بھارت کے سمندری حدود سرکریک سے لے کر کشمیر، سیاچن تک سرحدوں پر تنازعات ہیں، جس کے وہ دو ٹکڑے کر چکا ہے، جس کے کئی حصوں پر اس نے قبضہ جما رکھا ہے۔
بھارتی حکومت پر اسلحے کے ڈھیر لگانے کا بھوت سوار ہو چکا ہے۔ بھارت نے اپنے جنگی (دفاعی) بجٹ میں 18 فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے۔ اس مد میں بھارت اگلے سال 40 ارب ڈالر اضافی خرچ کرے گا۔ بھاری رقوم سے دنیا بھر سے جنگی اسلحہ، آبدوزیں، ٹینک، جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر وغیرہ خریدے جائیں گے۔
بھارت نے آئندہ 10 برسوں میں اپنے جنگی بحری جہازوں کی تعداد 200 تک کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس وقت بھارت کے پاس 136 بحری جنگی جہاز موجود ہیں۔ ان جہازوں کی تیاری کے لئے ملک میں موجود تمام ڈاکس آرڈ دے دیئے گئے ہیں۔ روس کا تیار کیا گیا دو اعشاریہ تین ارب ڈالر کا طیارہ بردار بحری جہاز بھارت کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ طیارہ بردار یہ جہاز عمودی پرواز کے لئے Yak۔38 اورK Mig29 لڑاکا طیارے کو لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جہاز پردو ہزار اہلکاروں کی گنجائش ہے۔
اس کی پالیسی صرف اور صرف یہ ہے کہ کسی طرح پاکستان مضبوط و مستحکم نہ ہو۔ اس کے لئے وہ اتنے اسلحہ کے انبار جمع کر رہا ہے۔ ان سنگین حالات میں اب ہمیں ضرور سوچنا چاہئے کہ بھارت کے ان خوفناک اور خطرناک عزائم پر کیسے قابو پانا اور مقابلہ کرنا ہے۔ بھارت کی ساری تیاری کا مرکز و محور صرف اور صرف پاکستان ہے۔ ہم جنگ کے طالب ہیں نہ رسیا، لیکن اپنی خودداری کسی صورت قربان نہیں کر سکتے۔اگر بھارت اپنے سارے ملک کی پروا نہ کرتے ہوئے صرف اور صرف پاکستان کے خلاف جنگی تیاریوں میں مصروف ہے تو ہمیں بھی سوچنا چاہئے کہ ہم نے کب تک یوں بھارت کے سامنے جھک کر اور بزدلانہ پالیسی اختیار کر کے جینا ہے
بھارت اپنے حجم اور وسائل کے اعتبار کے خطے کا سب سے بڑا ملک ہے۔ بڑا ملک ہونا کوئی خرابی کی بات نہیں۔ بشرطیکہ وہ اپنے ہمسایوں کے لئے اندیشوں اور خدشات کا سر چشمہ نہ ہو۔ بد قسمتی سے بھارت اپنی توسیع پسندی پر مبنی پالیسی کی وجہ سے اپنے ہمسایہ ممالک کے لئے خطرے کی علامت بنا رہتا ہے، جس کا سب سے بڑا ثبوت تو یہی ہے یہ خطہ جنوبی ایشیا کا کوئی ملک ایسا نہیں، جو بھارت کے رویے سے کسی نہ کسی طرح نالاں نہ ہو۔