ہارڈسٹیٹ: سیاسی اختلافات نہیں صرف قومی یکجہتی

   ہارڈسٹیٹ: سیاسی اختلافات نہیں صرف قومی یکجہتی
   ہارڈسٹیٹ: سیاسی اختلافات نہیں صرف قومی یکجہتی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایم کیو ایم کے رہنما امین الحق نے پارلیمنٹ میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کا باضابطہ اجلاس طلب کرلیا گیا ہے جس میں حکومت سے الگ ہو کر آزاد بنچوں یا اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش تھی کہ شہبازشریف وزیراعظم بنیں لیکن ایم کیو ایم کے ساتھ جو وعدے کئے گئے وہ پورے نہیں کئے گئے جن میں سندھ اور حیدرآباد پیکیج شامل ہیں  اس کے علاوہ دیگر امور پر بھی ہمارے تحفظات ہیں۔وفاقی حکومت اور مسلم لیگ (ن) کا ایم کیو ایم کے ساتھ رویہ درست نہیں ہے۔اس وقت مسلم لیگ(ن)، مسلم لیگ (ق)، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم سمیت کئی پارٹیاں کسی نہ کسی حیثیت میں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں۔استحکام پاکستان پارٹی بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔محمد شہباز شریف، رانا ثناء اللہ، اسحاق ڈار جیسے جغادری سیاستدان حکومت چلا رہے ہیں۔پیپلزپارٹی ویسے ہی منجھے ہوئے سیاستدانوں پر مشتمل ہے۔ آصف علی زرداری جیسا بھاری بھرکم سیاسی و کھلاڑی شخصیت ایوان صدر میں براجمان ہے۔ یوسف رضا گیلانی سینٹ کے سربراہ ہیں۔ ایاز صادق قومی اسمبلی کے سپیکر ہیں۔ خواجہ آصف وزارت دفاع سنبھالے ہوئے ہیں۔ محسن نقوی جیسی بااختیار اور فطین شخصیت کے پاس وزارت داخلہ کا قلمدان ہے جس طرف بھی دیکھیں باصلاحیت، بھاری بھرکم اور بااختیار شخصیات ذمہ دارپوزیشنز پر بیٹھی نظر آتی ہیں،مرکزی بینک اور وزارت خزانہ پر عالمی معیار کی تربیت یافتہ مقبول شخصیات کے اختیار میں ہیں۔ حکومت قائم ہوئے ایک سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے کارکردگی دیکھیں تو مناسب محسوس ہوتی ہے۔ معیشت کی گراوٹ کی رفتار تھم چکی ہے۔ ڈیفالٹ کے منڈلاتے بادل چھٹ چکے ہیں۔ حکومت عوام کو ریلیف دینے کی باتیں کرنے کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔ عالمی مالیاتی اور زرعی اداروں کے ساتھ معاملات طے ہو رہے ہیں۔ عمران خان دور حکومت میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک جیسے اداروں نے پاکستان سے حکومتی وعدہ خلافیوں کے باعث منہ موڑ لیا تھا، اب ان کے ساتھ ہمارے معاملات ایک بار پھر درستگی کی طرف جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کا قرض پروگرام آن ہے ہم ان کی شرائط کے مطابق معاملات کو تربیت دے رہے ہیں انہی کے بتائے ہوئے طریق کار کے مطابق عمل پیرا بھی ہیں ان کی خواہشات اور احکامات کے مطابق نتائج بھی ظاہر ہو رہے ہیں ان کے وفود ہماری کارکردگی کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ ہمیں ہماری شاندار کارکردگی پر ہمیں شاباش بھی ملتی ہے اور قرض کی اگلی قسط بھی ہمارے خزانے میں آ جاتی ہے۔عمران خان اپنے 44ماہی دور حکمرانی میں امریکی صدر جوبائیڈن سے دست پنجہ کرنے، ان کی کال سننے کے لئے بے قراررہے اس کا اظہار بھی کرتے رہے لیکن امریکہ ہم سے روٹھا رہا، عمران خان کو نہ امریکہ دورہ کرنے کی دعوت ملی اور نہ ہی امریکی صدر کی کال وصول ہوئی، حتیٰ کہ انہیں امریکی صدر کو کال کرنے کی اجازت بھی نہ ملی۔ پھر عمران خان نے امریکہ پر اپنی حکومت ختم کرنے کا الزام بھی لگا دیا۔ ٹرمپ سے اپنی یاری دوستی کا ذکر کیا یوتھیے ٹرمپ کی جیت سے امید لگائے بیٹھے تھے اور پھر شہبازشریف حکومت کو ٹرمپ کی کال کا انتظار کرنے لگےّ کال آئی، ٹرمپ نے ایوان اقتدار میں اپنے پہلے اور طویل تاریخی خطاب میں افغانستان میں امریکی فوجیوں کے قتل کے منصوبہ ساز کی گرفتاری کی اطلاع دی اور پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ عمران خان اور اس کے حواریوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا  اور ان کی عمران خان کی رہائی بارے امیدیں ختم ہو گئیں۔ قومی سلامتی کے اجلاس میں شرکت نہ کرکے پی ٹی آئی نے ایک بار پھر اپنی ملک دشمن سوچ کا اظہار کر دیا ہے۔پی ٹی آئی برے طریقے سے سیاستدانوں کو پہلے بھی اچھوت قرار دے چکی ہے اب وہ فوج پر فوکس کئے ہوئے ہے۔ جعفر ایکسپریس کے حادثے کے وقت پی ٹی آئی نے جو رویہ اختیار کیا وہ انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ ملک اس وقت دہشت گردوں کے نرغے میں ہے دو صوبوں میں جنگ جاری ہے۔ مسلح افواج ملکی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ حالت یہ ہے کہ کے پی کا وزیراعلیٰ جو پی ٹی آئی کا جیالا اور عمران خان کا بڈی کہلاتا ہے وہ بغیر فوج کی مدد کے ڈی آئی خان اپنے حلقے میں بھی نہیں جا سکتا اگر افغانی و پاکستانی دہشت گردوں کے مقابل فوج کھڑی نہ ہو تو وہ اپنے حمایتی گنڈ اپور کو بھی اغوا کرکے لے جائیں۔ حالیہ جاری دہشت گردی کی لہر میں وہ لوگ شامل ہیں جن کو اچھے طالبان قرار دے کر عمرانی دور حکمرانی میں یہاں پاکستان میں لابسایا گیا تھا۔ یہ دہشت گرد افغان و پٹھان ہیں اور ان کے ہاتھوں زیادہ تر ان کے پشتون بھائی ہی مارے جا رہے ہیں۔ پشتونوں کا صوبہ کے پی اور پشتون اکثریتی صوبہ بلوچستان ان کے ہاتھوں لہولہان ہے۔ بی ایل اے والوں نے اپنے بلوچ بھائیوں پر ہی زندگی جہنم بنا رکھی ہے۔ ویسے دہشت گردوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہوا ہے کہ وہ پنجاب کے عوام کو  بھی آگ و خون میں نہلا دیں لیکن انہیں سردست کامیابی نہیں مل رہی ہے ان دہشت گردوں کا حمایتی تو جیل میں ہے اور وہ باہر آنے کی پوری کوشش  بھی کر رہا ہے لیکن اسے کامیابی نہیں مل رہی ہے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکمران اتحادی سیاستدان جو آپس میں لڑ رہے ہیں کچھ لڑنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ شہبازشریف کی حکومت کو کمزور کرنے کی کاوشیں کررہے ہیں۔ پیپلزپارٹی ہو یا ایم کیوایم انہیں اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب عمرانی ٹولہ ایک بار پھر تگڑا ہو جائے اور پھر وہ ان سیاستدانوں کی پتلونیں اتارنے پر قادرہوجائیں۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں انہوں نے آصف علی زرداری کے ساتھ جو کچھ کیا اور اس سے پہلے شہبازشریف کے ساتھ بھی ایسا کچھ کرتے رہے ہیں اسے دیکھ کر ہمارے مقتدر سیاستدانوں کو عبرت پکڑنی چاہیے جب ایک بار پھر عمرانی گماشتے ان کا نکلنا محال کر دیں، ہمارے سیاستدانوں کے ساتھ عمران خان اور اس کے حواریوں نے اخلاقی طور پر جو کچھ کر دیا ہے اسے یاد کر کے جھرجھری آ جاتی ہے۔ پھر فروری 2024ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواران نے بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ بہت دور کی بات نہیں ہے پی ٹی آئی اور بانی اس وقت اپنے ہی اعمال کی گرفت میں ہیں۔زیر عتاب ہیں، عذاب میں مبتلا ہیں لیکن ان کا بیانیہ، غلیظ و ملک دشمن بیانیہ اب بھی اپنا آپ دکھا رہا ہے۔ 

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -