انتخابات، نتائج اور سونامی!

آفات بھی کمزور اور غریب کو ہی نشانہ بتاتی ہیں۔ کمزور چھتیں اور جھونپڑیاں طوفان میں اُڑ جاتی ہیں، کچے مکان گِر جاتے ہیں اور سیلابوں میں لاچار اور غریب ہی ڈوبتے ہیں، فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں اور مویشی بہہ جاتے ہیں۔ تحریک انصاف کے سونامی کو قدرتی آفت کہنا، اس لئے غلط ہے کہ یہ قوم کے لئے زحمت کی بجائے رحمت بھی ثابت ہو سکتی ہے، لیکن نام کی حد تک تو یہ واقعی سونامی ہی ہے اور اسے آفت سمجھا جا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے سونامی اور قدرتی سونامی میں کس قدر مماثلت ہے کہ اس سونامی نے بھی کمزور کو ہی نقصان پہنچایا ہے۔ اُسی کے مکان گرائے ہیں۔ آشیانے چھینے ہیں اور تہہ و بالا کر کے اُن کا کچومر نکالا ہے۔ عمران خان اپنے جلسوں میں فرماتے رہے ہیں کہ اس بلے نے شیر کو بہت پھینٹی لگانی ہے، لیکن بلے کی شکل میں تحریک انصاف کے سونامی نے شیر کا تو کچھ نہیں بگاڑا، بلکہ اس کی لہروں نے شیر کو طاقتور ہی کیا تھا۔ شیر ایک مخصوص علاقے تک ہی محدود تھا، لیکن سونامی کی پکار اور للکار نے شیر کو پورے ملک کا مالک بنا دیا ہے ، اب یہ پورے ملک کی بادشاہت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ بلا تو پنجاب کے شیر کو پھینٹی لگانا چاہتا تھا، لیکن شیر اتنا طاقتور اور سخت جان ثابت ہوا کہ بلے نے اسے للکارنا ہی مناسب نہیں سمجھا اور عافیت اسی میں جانی کہ پنجاب میں قیام کرنے کی بجائے اُس نے سرحد ہی عبور کرلی اور خیبر پختونخوا میں پہنچ کر ایسی تباہی مچائی، جس کی مثال نہیںملتی۔
پہلے سے لہولہان اور زخموں سے چُور اے این پی بلے کے لئے ترنوالہ ثابت ہوئی اور بلے نے اس کے ساتھ وہ حشر کیا جو طاقتور کمزور کے ساتھ کرتا ہے۔ دوسری طرف بلے نے ایم کیو ایم کو دیکھتے ہی پہلی گیند پر ہی بولڈ ہونا مناسب سمجھا۔ رہی بات پیپلز پارٹی کی تو وہ انتخاب کے اعلان کے فوراً بعد ہی پُراسرار طور پر غائب ہوگئی تھی اور ہنوز غائب ہے۔ اس لئے سونامی بلے نے اس کا پیچھا کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا اور اسے اس کے حال پر ہی چھوڑ دیا۔ ویسے بھی مرے ہوئے کو مارنا کون سی بہادری ہے۔ بلے والے سونامی نے اے این پی کو خیبر پختونخوا میں بظاہر تو نقصان پہنچایا ہے، لیکن دراصل یہ سونامی اے این پی کے لئے کوئی بہت بڑی غیبی امداد ثابت ہوئی ہے۔ اس پارٹی نے سیاسی جوانمردی کے نام پر جو قربانیاں پیش کی ہیں، اُن کی ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ جوان بیٹوں کو کھونے والوں اور بھائیوں کی قربانیاں دینے والوں کے لئے ہمدردی کرنے کے لئے الفاظ ڈھونڈنا بھی محال ہے۔ یہ پارٹی تن و تنہا ایک ایسی دلدل میں پھنس چکی تھی، جس میں سے صحیح سلامت نکلنا بھی اس کے بس میں نہیں تھا۔
عمران خان کے سونامی نے اس پارٹی کی جیت بڑے عذاب سے جان گلو خلاصی کرا دی ہے۔ اسے اب اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اسے جو ذہنی اور جسمانی جھٹکے لگے ہیں، اُن کے اثرات کم کرنے کے لئے آرام کرنا چاہئے۔ خیبر پختونخوا کے عوام نے تحریک انصاف کو اپنے مسائل حل کرنے کے لئے واضح مینڈیٹ دیا ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ سے اس مینڈیٹ کے اثرات زائل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا نقصان جوڑ توڑ کرنے والوں کو بھی ہوگا اور یہ ملک کے لئے بھی بہتر نہیں ہوگا۔ ملکی مفاد میں یہ بات ہے کہ تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے دی جائے اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ اس صوبے کے عوام تبدیلی چاہتے ہیں اور نئی پارٹی کو آزمانے کے متمنی ہیں، انہیں یہ موقع ضرور ملنا چاہئے۔ جو پارٹیاں پہلے خیبر پختونخوا میں کسی نہ کسی شکل میں حکومت کر چکی ہیں، انہیں دوبارہ حکومت بنا کر عوام کے زخموں پر نمک پاشی سے اجتناب کرنا چاہئے۔
ایک بات اور بھی ہے۔ تحریک انصاف تھانہ کلچر کے خاتمے اور کورٹ کچہری اور پٹوار جیسے فرسودہ نظام کے خاتمے کی بات کرتی ہے۔ امریکی غلامی سے نجات اور ڈرون حملوں کے خاتمے کے نعرے بھی لگاتی رہی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ قبائلی طرز کے نظام انصاف سے کافی متاثر ہیں۔ وہ جو اقدامات کرنا چاہتے ہیں، بہتر یہ ہے کہ اُن کا آغاز خیبر پختونخوا سے ہی کیا جائے۔ عوام نے کمال حکمت سے کام لیتے ہوئے تحریک انصاف کے حوالے صرف ایک صوبہ ہی کیا ہے۔ بڑے بڑے منصوبوں کے پہلے پائلٹ پراجیکٹ بنتے ہیں، اگر یہ پائلٹ پراجیکٹ کامیاب ہو جائیں تو پھر ان کی بنیاد پر وسیع منصوبوں کا آغاز کیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں اپنے منشور پر عمل کرنے کا موقع فراہم کرنا اس لحاظ سے ضروری ہے کہ اگر بطور پائلٹ پراجیکٹ یہ خیبر پختونخوا میں کامیاب ہوگیا تو اسے دیگر صوبوں میں نافذ کرنے کا موقع فراہم کیا جا سکتا ہے، بصورت دیگر سونامی والوں سے معذرت کی جاسکتی ہے اور باقی تین صوبے اُن کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں اور اُن سے گزارش کی جاسکتی ہے کہ ہمیں اپنے حال پر ہی رہنے دیا جائے۔
امید ہے کہ تحریک انصاف کا سونامی اس گزارش کو شرف قبولیت بخشے گا اور زور زبردستی سے کام نہیں لے گا۔ یہ بھی اُن کی مہربانی ہوگی، ورنہ صوبہ پنجاب تو ویسے ہی شریفوں کا صوبہ ہے۔ مزاحمت کرنا اور للکارنا تو خیبر پختونخوا والوں کا ہی کام ہے۔ تحریک انصاف کا سونامی بظاہر تو نام کا ہی سونامی ہے، لیکن اگر اس کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو اس میں سونامی کی بہت سی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ جس طرح سونامی میں طوفان بھی ہوتا ہے، چھوٹی بڑی لہریں بھی ہوتی ہیں، بارش ہوتی ہے، تیز ہوائیں بھی چلتی ہیں اور زلزلے بھی آسکتے ہیں، اسی طرح اس سونامی میں بھی رجعت پسندی ہیں، انقلابی بھی ہیں، سیکولر حضرات بھی ہیں۔ قبائلی طرز کے نظام کے حامی بھی ہیں اور ممی ڈیڈی جنریشن بھی شامل ہے۔ یہ جنریشن بھی کنفیوژن کا شکار ہے۔ پینٹ کوٹ پہنتی ہے۔ مغربی طرز زندگی کی دلدادہ ہے، لیکن ان کے مائینڈ سیٹ پر اس لباس اور طرز زندگی کے کوئی اثرات نہیں ہیں۔ سونامی میں اس طرح کے متضاد خیالات، رویوں اور طبقات کا شامل ہونا خوش آئند بھی ہو سکتا ہے اورملک میں عدم برداشت اور تنگ نظری جیسے رویوں کے خاتمے کا باعث بھی بن سکتا ہے یا پھر بدقسمتی سے اگر اسے درست سمت پر نہ چلایا گیا تو پھر یہ حقیقی سونامی کا روپ بھی دھار سکتا ہے۔
انتخابات کے بارے میں دھاندلی کا شور مچانے والوں سے عرض ہے کہ ماضی میں دھاندلیوں کے نتیجے میں غیر قانونی رویوں نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ دھاندلی کی شکایت کرنے والوں کو قانونی راستہ ہی اختیار کرنا چاہئے۔ انتخابات کے نتیجے میں شیر کافی طاقتور ہو چکا ہے۔ سیٹ ونرز کی سیاست کی وجہ سے اب ہر حلقے میں شیر سے بھی طاقتور قسم کی مخلوق وجود میں آچکی ہے۔ زیادہ طاقت بھی ظلم کو دعوت دیتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ یہ طاقتور مخلوق عوام کو انصاف فراہم کرے اور پولیس اور تھانہ کچہری کی اصلاح کر کے عوام کو انسانیت فراہم کرے۔ مہنگائی کم کرے اور عوام کو سکون پہنچائے، لیکن اتنی طاقتور مخلوق کو کسی قانونی ضابطے کے تابع لانا بھی مشکل کام ہے۔ ماضی میں تو شیر میٹرو بس اور موٹر وے وغیرہ پر ہی چہل قدمی کرتا رہا ہے اور پولیس، تھانہ کچہری کے پاس سے گردن جھکا کر گزر جاتا تھا۔ اب دیکھنا پڑے گا کہ اب پہلے سے طاقتور شیر کس طرز عمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ٭