گدھ خاموش ہیں
اعلیٰ سطح پر ہونے والی بدعنوانی کی کہانیوں پر حیرت تب ہوتی ہے، جب اُن پر کوئی اعلیٰ سطح کی شخصیت حیرت کا اظہار کرے، ورنہ ارباب ِ اختیار میں سے ہر کسی کو علم تھا کہ کامن ویلتھ گیم کی آرگنائزنگ کمیٹی آرٹ پیپر کی قیمت پر ٹوائلٹ پیپر، اور پلاٹینم کی قیمت پر گھاس اُگانے کے لئے مٹی خریدرہی ہے۔یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں تھا ، چہ جائیکہ اسے مجرمانہ سرگرمی قرار دیا جاتا، کیونکہ اس کے تمام تر اخراجات کا بوجھ عوام نے اٹھانا تھا۔ بدعنوانیوںکی یہ تمام کہانیاں عوام کے علم میں ہیں اور وہ ان پر غصے سے پیچ و تاب کھاتے رہتے ہیں، جبکہ میڈیا میں بھی تنقید جاری رہتی ہے۔ ہر کوئی اپنا اپنا کام کرتا رہتا ہے۔
چار سال پہلے اسی مہینے میں پولیس نے نیرا رادیا(Nira Radia) اور کچھ لابی کرنے والے، بلکہ کرنے والی کی فون کالزپکڑی تھیں۔ ان کی گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سونیا گاندھی اور ڈاکٹر من موہن سنگھ پر دباﺅ ڈال رہے تھے کہ وہ اے راجہ کو ٹیلی کام منسٹر بنائیں۔ بعد کے واقعات سے ثابت ہوا کہ وہ ا س مقصد میں کامیاب رہے۔ سب جانتے ہیںکہ چالاکی سے دولت حاصل کرنے والے کولکتہ کے بزنس مین سنتوش بگرودیاکو کوئلے کی وزارت کیوں دی گئی؟ اس کا واحد مقصد کوئلوں کو چاندی میں تبدیل کرنا تھا۔ عام حالات میں انسانوں کے وزیر بننے کی دووجوہات ہوتی ہیں سیاسی پس ِ منظر اور ذاتی اوصاف۔ تاہم بگرودیا کے معاملے میں صرف اُن کی ”مالی معاملات “ میں مہارت دیکھی گئی۔ اسی طرح حالیہ ٹی ٹوئنٹی میچوں میں سے ہر کوئی خرابی کی بو سونگھ رہا تھا۔ کچھ جواریوں نے صرف اسی وجہ سے کرکٹ میں دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔ ایک اونچے درجے کے کھلاڑی، جن کے پاﺅں تلے سے زمین سرک چکی ہے اور جن کو اب لیگ سے نکالاجا چکا ہے، بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ اُن کی پسندیدہ ٹیم کبھی نہیں ہارتی۔ اب پتہ چلا ہے کہ اُن کو کرکٹ کی سمجھ سے زیادہ بک میکروںکی ساجھے داری حاصل تھی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ آئی پی ایل میں شامل ہر شخص بدعنوان نہیںہے ۔ زیادہ تر منیجر تفریح، کھیل کے انوکھے پن جدت اور پیسہ کمانے کے ایک پُرلطف طریقے سے استفادہ کرنے میدان میں اترے ہیں۔ کھیلنے والے زیادہ تر کرکٹر اپنے خواب میں بھی اتنی دولت نہیں دیکھ سکتے تھے جو اُن کو بیس اوور کے اس کھیل میں حاصل ہورہی ہے۔ جب وہ اپنے بینک بیلنس پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اُنہیں یقین نہیں آتا کہ یہ ان کا ہی ہے تاہم اس دولت کی ایک قیمت چکانا پڑتی تھی خاموشی۔ ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو تمام کھیل بگڑ جائے گا۔ اب جب پولیس تحقیقات کر رہی ہے تو عوام کے سامنے ہر روز نت نئی معلومات آرہی ہیں کہ کس طرح بک میکروںکے ہاں ہنگامہ خیز پارٹیاں ہوتی تھیں اور کس طرح بہت مضبوط کردار کے کھلاڑی وہاں جانے سے انکار کر دیتے تھے۔ 6 اپریل کو بکی چندارش پٹیل کی طرف سے گرگون کے کنٹری کلب میں دی جا نے والی پُرلطف پارٹی میں کچھ کھلاڑیوںنے شرکت کیوں نہیں کی؟وہ جانتے تھے کہ یہ چالباز لوگوں کا اجتماع ہے۔ جبکہ کچھ کھلاڑی وہاں بہت خوش نظر آرہے تھے۔
یہ ٹھیک ہے کہ کچھ شریف کھلاڑی وہاں نہیں گئے، لیکن اس کے بعد اُنہوںنے کیا کیا؟اُنہوںنے اس مسئلے پر لب بندی میں ہی عافیت سمجھی اور اپنے کپتان یا کوچ کو کچھ نہیں بتایا۔ کرکٹ میں ہونے والی طے شدہ دھوکہ بازی نتائج کو تبدیل کر دیتی ہے ۔ چلیں ہم عام لوگ تو اس سرکس میںہونے والی چالبازیوںسے ناواقف تھے۔ لیکن جو نامی گرامی کھلاڑی واقف تھے، اُنہوںنے کیا کیا؟ کیا وہ جانتے بوجھتے ہوئے خاموش نہیں رہے؟کیا اُن کے پیش ِ نظر صرف ”کھیل “ کی بہتری تھی کہ یہ ڈرامہ جاری رہے؟یہ لوگ اپنی اپنی ٹیم کے ساتھ رابطے میں تھے۔ جبکہ ہر شخص ان کو دیکھ رہا تھا کہ وہ بڑی مستعدی سے ادھر اُدھر پھر رہے ہیں۔ جبکہ اُن کو بھر پور ٹی وی کوریج حاصل تھی۔ کیا آئی پی ایل کے چیف راجیو شکلا ، جو ایک صحافی اور سٹیٹ منسٹر بھی ہیں ، اس تمام صورت ِ حال کو جانتے تھے اور صرف اس سونے کے انڈے، اکثر رات کو دو مرتبہ، دینے والی مرغی کو ذبح ہونے سے بچانے کے لئے خاموش رہے؟نہ میں جانتا ہوں اور نہ ہی آپ (بشرطیکہ آپ آئی پی ایل سے وابستہ نہیں ہیں) اور امکان ہے کہ ہمارے لئے یہ راز،راز ہی رہیں گے۔ فی الحال منظر ِ عام پر آنے والا مجرم فاسٹ بالر سری سانتھ ہے ، جو ہو سکتا ہے کہ حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی غلطی کا اعتراف کر لے۔ کیونکہ وہ بقول شیخ سعدی ہنوز طفل است“لیکن کیا اُس کے اعتراف سے پس ِپردہ بڑے بڑے نام منظر ِ عام پر آجائیںگے؟ اس کی امید نہ رکھیں۔
اب جبکہ عوام کا موڈ کھیل کے جوشیلے پن کی بجائے غصے اور مایوسی میں ڈھل رہا ہے،یہ احساس بھی جاگزیں ہے کہ اس سکینڈل کے منظر ِ عام پر آنے نے شاید بہت سے دیگر اور کہیں زیادہ سنگین معاملات پر پردہ ڈال دیا ہے۔ اب یہ ہوگا کہ چند ایک سامنے والے کم حیثیت کے افراد کو محض اشک شوئی کی خاطر قربانی کا بکرا بنا دیا جائے گا اور باقی کا کام حسب سابق چلتا رہے گا۔ اُن کو امیدہے کہ عوام کی یادداشت سے کمزور کم ہی چیزیں ہوتی ہیں۔
دہلی پولیس کمشنر نیراج کمار کو اپنی تقرری کے وقت سے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ اس وقت اُنہیں ہماری آشیر باد کی ضرورت ہے، کیونکہ انہوںنے نہ صرف اس کینسر کو بے نقاب کیا۔ بلکہ اس اجتماعی خاموشی کے نقار خانے میں پتھر پھینکنے کی ہمت کی۔ یہ یقینا آسان کام نہیں تھا، کیونکہ آج کل ڈگمگاتی ہوئی حکومت پر ہاتھ ڈالنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن کرکٹ کے کھلاڑیوں پر انگلی اٹھانا بچوںکا کھیل نہیں۔ اس کے علاوہ مسٹر کمار کو علم ہے کہ ابھی انہوںنے صرف اُوپر کی سطح سے پردہ ہٹایا ہے، ابھی بہت سے پردہ نشینوں کے نام برسر ِ الزام آسکتے ہیں، کیونکہ جب پولیس اپنا اپریشن شروع کرتی ہے تو پھر بہت سی جگہوں پر سے کھال چھل ہی جاتی ہے، تاہم بات یہ ہے کہ یہ بیماری صرف بیس اوور کے کھیل تک ہی محدود نہیںہے۔ قومی کھیل بھی شک و شبہ سے بالا تر نہیںہے کیونکہ ٹیسٹ کرکٹرز کی بک میکروںکے ساتھ تصاویر منظر ِ عام پر آئی ہیں، چنانچہ مسٹر کمار کے سامنے کام بہت دقیق اور وقت طلب ہے۔ اسی دوران بدبو کو دبانے کے لیے بہت سی پرفیومز کا استعمال شروع ہو چکا ہے ۔ بس دیکھتے ہیں، کہ عوام کی قوت ِ شامہ کو کس طرح چکمہ دیا جاتا ہے۔
نوٹ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔