انرجی: پاکستان کی معاشی سیکیورٹی کی ضامن
وطن عزیز کو درپیش توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ کیونکہ توانائی کی کمی کی وجہ سے صنعتوں کا پہیہ جام اور مزدور کا چولہا ٹھنڈا ہے۔ بیروزگاری کے مسائل کی وجہ سے بہت سے سماجی‘ معاشی مسائل پاکستانی معاشرہ کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ توانائی ہی کسی ملک کی معاشی سیکیورٹی کی ضامن ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ ادوار میں توانائی کی ضرورت اور اہمیت کو بری طرح نظرانداز کیا گیا۔ جس سے روشنیاں گل اور صنعتیں بند ہونا شروع ہو گئیں۔ تاہم وزیراعلیٰ محمد شہبازشریف نے توانائی کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے اپنے وعدے کو ایفا کرنے کے لئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت محسوس کی اور بیرونی سرمایہ کاری سمیت تمام تر ممکنہ اقدامات کئے۔ وفاقی حکومت نے وزیراعظم محمد نوازشریف کی ہدایت پر آئی پی پیز کو سرکلر ڈیٹ کے اربوں روپے ادا کر کے عوام کو ریلیف مہیا کرنے کا پہلا قدم اٹھایا اور نیشنل پاور پالیسی کے ذریعے مسائل کے دیرپاحل کے منصوبوں کا آغاز کیا۔ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے مطابق صوبوں کو توانائی پیدا کرنے کے اختیارات حاصل ہونے پر حکومت پنجاب نے بجلی پیدا کرنے کے مختلف پراجیکٹ شروع کئے اور متبادل ذرائع سے توانائی پیدا کرنے کے منصوبوں پر عملدرآمد کے لئے الگ انرجی ڈیپارٹمنٹ قائم کیا۔ بجلی پیدا کرنے کا سب سے پہلا اور آسان ذریعہ ہائیڈل پاور پراجیکٹ ہے۔ دوسرا طریقہ نیوکلیئرپاور پلانٹ‘ تھرمل پاور اور سولر انرجی ذرائع سے بجلی کا حصول ہے۔ حکومت پنجاب نے چولستان میں 10ہزار ایکڑ رقبے پر دنیا کا سب سے بڑا قائد اعظم سولر پارک قائم کیا ہے۔ جہاں حکومت پنجاب اور جرمن کمپنی کے اشتراک سے شمسی توانائی کے 450میگاواٹ کے منصوبے شروع ہو رہے ہیں۔ قائداعظم سولر پارک میں 250 ایکڑ کے 25قطعات اراضی میں 50‘ 50 میگاواٹ کا سولر پاور پلانٹ کا منصوبہ لگایا جائے گا۔ پنجاب کے نہری نظام کے ذریعے تقریباً 600 مقامات پر توانائی کے حصول کے منصوبے زیرغور ہیں۔ پاک پتن میں نہر پر پن بجلی گھر کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے جبکہ ضلع سیالکوٹ‘ گوجرانوالہ‘ شیخوپورہ اور دیگر علاقوں میں بھی نہروں پر چھوٹے چھوٹے پن بجلی گھر بنانے کے منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں۔ جس کے لئے ایشین ڈویلپمنٹ بنک قرضے فراہم کرے گا۔ مرالہ‘ چیانوالی‘ ڈیک آﺅٹ اوکاڑہ اور پاک پتن کینال پر شروع ہونے والے 5 ہائیڈل پاور پلانٹس مجموعی طور پر 25میگاواٹ بجلی فراہم کریں گے۔زراعت کے فروغ کے لئے پانی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت پنجاب دیہات میں شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل کا پراجیکٹ شروع کر رہی ہے۔ جس کے لئے تقریباً ڈیڑھ ارب روپے مختص کئے جا چکے ہیں۔
پنجاب حکومت 550 میگا واٹ کے منصوبوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے مکمل کرے گی ۔ چمالانگ میں 300میگا واٹ ، سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں 100میگا واٹ ، فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ میں 100میگا واٹ اور ملتان میں 30میگا واٹ بجلی کوئلے سے حاصل کرنے کے منصوبے شروع کئے جارہے ہیں ۔ اسی طرح ڈیرہ غازی خان میںکوئلے سے 250میگا واٹ بجلی حاصل کرنے کے لئے چین کی کمپنی کے ساتھ معاہد ہ کیا گیا ہے ۔ پنجاب سمال انڈسٹریزکارپوریشن کی سائیٹ پر 10 سے 20 میگا واٹ کے بائیو ماس پاور اور کوئلے سے توانائی کے حصول کا منصوبہ بھی بنایا گیاہے۔ گنے کے پھوگ(Bagasse ) سے توانائی کے حصول کے لئے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی مشاورت سے پالیسی کو حتمی شکل دی جاچکی ہے اور گنے کے پھوگ سے توانائی کے منصوبوں کو نہایت شفاف طریقے اور تیز رفتاری سے مکمل کیا جائے گا ۔ پنجاب میں کول پالیسی کے اجراءکا اصل مقصد صوبہ پنجاب مےں توانائی کے مسائل کے حل کے لےے قابل عمل اور جدےد اقدامات کرنا ہیں ۔ کول پالیسی کے اجراءکا مقصد پنجاب میں ہنگامی بنیادو ںپر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے پراجیکٹ شروع کرنا اور اس کے لئے پرائیویٹ سیکٹر کو بھی سہولیات مہیا کرنا ہے ۔ کول پالیسی 2014ءکے اجراءکا مقصد پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے درآمدی کوئلے سے شروع کئے گئے درمیانی مدت کے منصوبوں کی مدد سے نیشنل گرڈ میں 6 ہزار میگا واٹ بجلی کا اضافہ کرنا ہے ۔ حکومت پنجاب پرائیویٹ کمپنیو ںکو بھی دعوت دے گی کہ وہ صوبے میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام کریں ۔
پنجاب میں کوئلے کے 235 ملین ٹن خائر دستیاب ہونے کا تخمینہ ہے ۔ لیکن ان ذخائر سے استفادہ کرنے میں وقت لگے گا ۔ اسی طرح تھرکول پراجیکٹ کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ سے کوئلہ باہر سے درآمد کرنے پر مجبور ہیں ۔ کیونکہ مقامی سطح پر نکالے گئے کوئلے میں سلفر کی کثیر مقدار او رراکھ کی وجہ سے پنجاب کا کوئلہ اس طرح موزوں ترین نہیں ہے جس طرح باہر سے درآمد کیاگیا کوئلہ بجلی پیدا کرنے کے لئے موزوں ترین ہے ۔ پنجاب کے کوئلے کو کارآمد بنانے کے لئے کوششیں جاری ہیں تاہم فی الوقت دیگر ذرائع پر بھی انحصار کرنا ہوگا ۔ بلوچستان سے نکلنے والا کوئلہ بجلی پیدا کرنے کے لئے موزوں ہے تاہم اس کی سپلائی کا تسلسل غیر یقینی ہے جس کی وجہ سے کول پراجیکٹس کو تسلسل کے ساتھ چلانے کے لئے کوئلہ درآمد کرنا پڑے گا ۔ اس سلسلے میں پالیسی یہ وضع کی جارہی ہے کہ باہر سے منگوائے گئے کوئلے اور مقامی سطح پر نکالے گئے کوئلے کو مکس کرکے ان تھر مل پراجیکٹس کو چلایاجائے گا ۔ صوبے میں کوئلے سے550 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو تیزی سے آگے بڑھایا جائے اور اس مقصد کے لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے ۔ کول پالیسی 2014ءکے تحت کول پاور پراجیکٹس کے لئے موزوں مقامات کی نشاندہی کی جائے گی اور پرائیویٹ سیکٹر کو شفاف عمل کے ذریعے یہ مقامات الاٹ کئے جائیں گے ۔ پرائیویٹ سیکٹر بھی موزوں مقامات کی نشاندہی کرسکتا ہے ۔ کول پاور پلانٹس کو چلانے کےلئے کوئلے کی بلا تعطل فراہمی نہایت ضروری ہے اس لئے انٹرنیشنل کول سپلائرز کے ساتھ معاہدے کئے جائیں گے ۔ بندرگاہ سے پاور پلانٹ تک کوئلے کی ترسیل کے عمل کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے طویل مدتی معاہدے کئے جائیں گے ۔ پاکستان ریلوے نے بندر گاہ سے پراجیکٹس سائٹس تک کوئلے کی بلا تعطل ترسیل کا معاہدہ کیا ہے ۔ کول پاور پلانٹس پاکستان انوائرمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997ءکے تحت قائم کئے جائیں گے۔ اس سلسلے میں تمام کمپنیاں ماحول دوست اقدامات کرنے کی پابند ہوں گی ۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت پنجاب توانائی کے حصول کے لئے غیرروایتی ذرائع اختیار کرنے پر بھی غور کر رہی ہے۔ پنجاب میں شمسی توانائی‘ نباتاتی فضلات‘ زرعی پیداوار مثلاً چاول کی پرالی‘ گندم کے بھوسے اور کپاس چھڑیوں کو بطور ایندھن استعمال کر کے بجلی پیدا کرنے کے لئے چین کے ایک ادارے کے ساتھ اشتراک عمل جاری ہے۔ حکومت پنجاب انرجی ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے 6 دیہات میں بائیوگیس پائلٹ پراجیکٹ لگائے گی جبکہ 9سرکاری لائیوسٹاک فارمز پر بھی بائیوگیس پلانٹس قائم ہوں گے۔ لاہور میٹ کمپنی‘ لاہور سلاٹر ہاﺅس شاہ پور کانجراں میں 500کلوواٹ بائیوگیس پراجیکٹ شروع ہو چکا ہے۔ پنجاب کے 19 انڈسٹریل اسٹیٹس میں سے 3 انڈسٹریل اسٹیٹس کو بائیوماس منصوبے کے ذریعے بجلی فراہم کی جائے گی۔
پنجاب میں وزیراعلیٰ کی ہدایت پر پنجاب پاور ڈویلپمنٹ کمپنی اور پنجاب پاور ڈویلپمنٹ بورڈ فنڈز کی فراہمی اور شراکتی منصوبوں کے لئے قائم کئے جا چکے ہیں۔ مختلف یونیورسٹیوں‘ ہاﺅسنگ سوسائٹیوں میں بھی بائیوماس کے ذریعے چلنے والے پاور پلانٹس چند ماہ میں بجلی کی پیداوار شروع کر دیں گے۔ چیف منسٹر‘ چیف سیکرٹری‘ سیکرٹری انرجی‘ سیکرٹری آبپاشی‘ تمام کمشنرز اور ڈی سی اوز ایک ایک کلوواٹ کا سولر سسٹم فراہم کر رہے ہیں جس سے 50کلوواٹ بجلی حاصل ہو گی۔ نندی پور پاور پراجیکٹ پاکستان کی تاریخ کا ایک عجیب و غریب افسوسناک منصوبہ ہے۔ سابقہ دور حکومت میں اس پراجیکٹ کے ساتھ روارکھے سلوک کی المناک داستان دہرانا بھی دلخراش ہے۔ لیکن وزیراعلیٰ محمد شہبازشریف کی شب و روز محنت کے صلے میں 450میگاواٹ کے پراجیکٹ کی پہلی ٹربائن ٹیسٹ پروڈکشن شروع کر چکی ہے اور جلد اس کی 100میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہو جائے گی۔ فیصل آباد کی انڈسٹریل اسٹیٹ میں ٹیکسٹائل پارک کے لئے چینی کمپنی روژی کے اشتراک سے 1320میگاواٹ بجلی کے حصول کے منصوبے کا پراجیکٹ جلد شروع ہو رہا ہے جبکہ ساہیوال میں بھی 1350میگاواٹ کول پاور پراجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ لوڈشیڈنگ وجہ سے پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے ۔ بجلی کی قلت کی وجہ سے سالانہ 300 ارب روے کا بھاری نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالر کے ایکسپورٹ آرڈر منسوخ ہورہے ہیں لیکن یہ قومی نقصان بھی توہے ۔ سندھ کے تاجر ، خیبر پختونخواہ کے کسان اور بلوچستان کے مزدور بھی لوڈشیڈنگ سے متاثر ہورہے ہیں جبکہ گیس کی قلت نے کراچی کے ساتھ ساتھ لاہور کی فیکٹریوں پر بھی اثر کرنا شروع کردیاہے ۔ ملک کے اندر اس وقت صنعتیں اپنی مجموعی پیداواری صلاحیت سے نصف پیداوار دے رہی ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں مزدور اور کارکن اپنے روزگار سے محروم ہورہے ہیں ۔ آنے والے کل کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئیں ہم کوشش کریں کہ اپنے آپ کو سیاستدان ، بیوروکریٹس ، بزنس مین ، دانشور کی حیثیت سے بلند ہوکر ایک سٹیٹس مین کی طرح سوچیں ۔ یہ خواہشات اور امیدیں اگرچہ بہت بڑی ہیں لیکن یہ منصوبے نا مناسب اورنا ممکن خواب نہیں ہیں ۔ ہم اپنے قومی ترانے سے ترغیب لیں ، اپنے سبز ہلالی پرچم کو بلند سے بلند تر کریں اوراپنی کمندیںستاروں پر ڈالیں ۔