پولیس جسٹس آف پیس کو ناکام بنانے پر تُل گئی
لاہور(کامران مغل) ناقص تفتیش ،گواہان کی عدم پیشی اور مسلسل عدالتی حکم عدولی کی شہرت رکھنے والی پولیس نے "جسٹس آف پیس "کوبھی ناکام بنانے کی ٹھان لی سیشن اور ایڈیشنل جج ،جسٹس آف پیس کے طور پر جو بھی حکم جاری کرتے ہیں پولیس ان پر عمل درآمد میں لیت ولعل سے کام لے رہی ہے جس کے باعث ماتحت عدالتوں میں مقدمات کی سماعتیں تاخیر کا شکار ہونے لگی ہیںتفصیلات کے مطابق ایک محتاط اندازے کے مطابق صوبائی دارالحکومت کی ماتحت عدالتوں میں رواں سال2014 کے ابتدائی ساڑھے 4ماہ کے دوران پولیس کی جانب سے مظلوم کی دادرسی نہ ہونے کے باعث 2ً ہزار998 ضابطہ فوجداری کی دفعہ22/A/22/A کے تحت اندراج مقدمہ یا پولیس کی جانب سے ہراساں کئے جانے پر شہریوں نے درخواستیں دائر کیں جن کی سماعت مکمل کرنے کے بعد فاضل ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز نے مناسب احکامات جاری کرتے ہوئے پولیس کو ان کی تعمیل کرنے کے لئے واضح احکام جاری کئے مگر پولیس کی طرف سے عدالتی حکم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس کی تعمیل نہ کرنے پر سائلین کی جانب سے دائر کردہ عمل درآمد کی درخواستوں پر عدالتوں نے درجنوں ایس ایچ اوز اور پولیس افسران و اہلکاروں کے خلاف پولیس آڈر 2002ءکی دفعہ 155/C کے تحت قانونی کارروائی کرنے کے احکامات جاری کئے تاہم تا حال کسی بھی ایس ایچ او یا پولیس افسر کے خلاف عدالتی ریکارڈ میں کوئی مقدمہ پیش نہیں ہوا جبکہ اس دوران عدالتوں نے جبکہ سیشن عدالتوںنے 200 کے قریب مختلف تھانوں کے اور تفتیشی سنٹروں کے پولیس افسران اور ملازمین کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے مگر پولیس نے اپنے کسی بھی پیٹی بندھ بھائی کو گرفتار کرکے عدالتوں میں پیش کرنے کی جسارت نہیںکی علاوہ ازیں عدالتی حکم عدولی پر ہی عدالتوں نے جن تھانیداروں اور ایس ایچ اوز کی تا حکم ثانی تنخواہیں قرق کرنے کے احکامات جاری کئے ان کے حوالے سے بھی کوئی ایسی رپورٹ سامنے نہیں آسکی جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ کسی پولیس افسرکی عدالت کے حکم پر تنخواہ بند کی گئی ہواور اسی وجہ سے مقدمات التوا کا شکار ہوتے ہیںاس حوالے سے نمائندہ"پاکستان"سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سیکرٹری لاہور بار سید فرہاد علی شاہ نے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ کسی بھی شریف شہری کی درخواست پر پولیس مقدمہ درج کرنے سے اجتناب کرتی ہے جس کی وجہ سے اندراج مقدمہ اور ہراساں کرنے پر عدالتوںمیں درخواستیں دائر ہو رہی ہیں اور اس کے باعث عدالتوں میں پولیس کی اپنے فرائض سے رو گردانی سے عدالتوںپر بوجھ میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اضافہ بھی مقدمات کے التوا کا شکار ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ بن گیا ہے جبکہ پولیس کو اپنے قانونی فرائض کے مطابق ان کے پاس جو کوئی بھی شکایت لے کر جائے قانون کی دفعہ 154 کے تحت وہ کارروائی کرنے کے پابند ہیں لیکن ایسا نہ ہونے سے عدالتوں میں درخواستوں کا رش بڑھ جانے کے باعث زیر سماعت مقدمات کی سماعت کے لئے وقت بہت ہی کم ملتا ہے سابق سیکرٹری کامران بشیر مغل نے کہا کہ سینکڑوں مقدمات پولیس کی ہٹ دھرمی کے باعث التواءکا شکار ہورہے ہیںاور اسی وجہ سے قومی جوڈیشل پالیسی کو بھی پولیس نے ناکام بنا کر رکھاہے انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کو عدالتی احکامات کی تعمیل کرنے کا پابند بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے اور عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے والے کسی بھی پولیس افسر کو بلا امتیاز محکمہ کی جانب سے سخت سزائیں دی جانی چاہیے اور اسی سے ہی لوگوں کو فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ،وگر نہ ماتحت عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کسی صورت بھی کم نہیں ہوگا بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گاپاکستان مسلم لیگ (ن) لائرز فورم کے سیکرٹری اطلاعات مشفق احمد خان نے کہا ۔کہ پاکستان میں اور خاص طور پر پنجاب میں پولیس باقاعدہ ایک طاقت ورمافیا کی شکل اختیار کر چکی ہے جسے نہ تو کسی سے کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ خود کو کسی کا ماتحت سمجھتی ہے سینئر ایڈووکیٹ مدثر چودھری نے کہا کہ عدالت پولیس سے رپورٹ طلب کرتی ہے تو اس پر عمل نہیں ہوتا اور اس کے علاوہ جب عدالت کسی درخواست کی سماعت مکمل کرکے اس پر پولیس کو کوئی احکامات جاری کرتی ہے تو پولیس سرے سے ہی اس پر عمل نہیں کرتی جس کی وجہ سے عدالتیں پولیس افسران کی تنخواہیں قرق کرنے،ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے یا ان کے خلاف پولیس آڈر 2002 ءکی دفعہ 155/C کے تحت مقدمات درج کرنے کے احکامات جاری کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں لیکن افسوس کہ ان تمام عدالتی احکامات کے باوجود ان احکامات میں 70 فیصد سے زائد پر پولیس عمل نہیں کرتی ۔