پی ٹی آئی کے پہلے 100دن!
پاکستان کے مستقبل قریب کا منظر نامہ اگرچہ دھندلاہٹ میں لپٹا ہوا ہے لیکن گاہ گاہ اس دبیز گرد و غبار میں بھی نیم پوشیدہ، نیم ظاہر سواروں کی ہیولے نظر آنے لگتے ہیں۔ اگر اور کچھ نہیں توکیولری کی رفتار اور رخ کا اندازہ تو لگایا ہی جا سکتا ہے۔۔۔ اس تناظر میں تحریک انصاف کو جس کسی نے بھی یہ مشورہ دیا ہے کہ اپنے پہلے 100دنوں کا بلیو پرنٹ پبلک کے سامنے رکھ دو تو یہ مشورہ نہائت ہی صائب ہے۔
اس سے نہ صرف یہ کہ تحریک انصاف کے ان عزائم کا پتہ چل سکے گا جو اس کے جدید منشور کے نمایاں خدوخال ہوں گے، بلکہ پاکستانی سیاست میں ایک نئی روائت بھی قائم ہو جائے گی جو اس سے پہلے نہیں تھی اور اگر تھی بھی تو کسی ادارتی سطح پر نہیں تھی!
اس سے پہلے بالعموم وتیرہ یہ ہوتا تھا کہ جب کسی نئی حکومت کے 100دن گزر جاتے تھے تو پھر لوگ اس کی کارکردگی پر تبصرہ کرتے اور اس کے آئندہ کے منصوبوں کے اندازے لگایا کرتے تھے۔۔۔ یہی روائت دنیا بھر کی جمہوریاؤں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے، لیکن یہ گویا تانگہ آگے اور گھوڑا پیچھے والی بات ہوتی ہے۔
اب اگر یہ ہو رہا ہے اور گھوڑا آگے لگایا جا رہا ہے تو اس کا اثر یہ ہوگا کہ خداوندانِ پارٹی کے سامنے بطور خلاصہ کم از کم ایک تحریری پروگرام تو ہوگا جس پر عملدرآمد کا فوری طور پر آغاز کر دیا جائے گا۔
لوگوں کو بھی معلوم ہوگا کہ پارٹی کے اقتدار میں آنے سے پہلے کے عزائم کیا تھے اور 100دن گزر جانے کے بعد ان عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی طرف کوئی پیش رفت کی گئی ہے یا نہیں کی گئی۔۔۔ امید کی جانی چاہیے کہ پاکستان کی دوسری مین سٹریم سیاسی پارٹیاں بھی اسی روش کو اپنائیں گی۔
میرے خیال میں پارٹی قیادت کے لئے بہتر یہ بھی ہوگا کہ ہر محکمے (شعبے) کو پہلے سے ہی مجوزہ 100 دنوں کی کارکردگی کا ایک تدریجی خاکہ ایک چارٹ کی صورت میں تیار کرکے دے دیا جائے جو ہر وزیر کے دفتر میں آویزاں ہو۔
اس گراف میں پہلے 33 دنوں کی یومیہ آؤٹ پٹ مختلف رنگوں سے ظاہر کی گئی ہو۔ اس محکمے کے وفاقی یا صوبائی سیکرٹری کو یہ فریضہ بھی سونپا جائے کہ وہ اس گراف کے مطابق روزانہ یا ہفتہ واری پراگرس اپنے سٹاف سے تیار کروائے اور جب یہ 33دن گزر جائیں تو اپنے متعلقہ وزیر کو اس چارٹ پر بریفنگ دے اور بتائے کہ جو جو اہداف مقرر کئے گئے تھے وہ پورے ہوئے یا نہیں۔
اور اگر نہیں تو اس کی وجوہات کیا تھیں اور پیش آمدہ رکاوٹوں کو دور کرنے کی کیا تدابیر اختیار کی گئیں۔ اس کے بعد متعلقہ وزیر کا کام ہو گا کہ وہ اپنے وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کو اس پراگرس سے آگاہ رکھے۔
اس پراگراس کی خبر، میڈیا کے توسط سے عوام تک بھی جانی چاہیے تاکہ ان کو معلوم ہو کہ ان کے منتخب نمائندوں نے ان سے جو وعدے کئے تھے ان کی تکمیل کی کیفیت کس مرحلے میں ہے۔۔۔۔ اس کے بعد اگلے 33دنوں اور اس کے بعد آخری 33دنوں میں بھی یہی عمل دہرایا جائے۔
ویسے مجھے یہ بھی یقین سا ہے کہ میں نے جو کچھ سطور بالا میں لکھا ہے، یہ کوئی نئی تجویز نہیں۔ کسی بھی محکمے کے سیکشن آفیسرز، ڈپٹی سیکرٹری، سیکرٹری اور وزیر کے دفاتر کی دیواریں خالی نہیں رکھی جاتیں۔ ان میں یہ اور اس قسم کے دوسرے کئی اور چارٹس بھی آویزاں ہوں گے جن پر دوسرے کئی پراجیکٹوں کی تفصیل بھی ہر آفیسر کے سامنے کھلی ہوگی۔
اور چونکہ آج کل ساری دفتری کارروائی کمپیوٹرائز ہو چکی ہے اس لئے روزانہ کی بنیادوں پر ہر ذمہ دار اہلکار کو صرف چند بٹن دبانے پڑیں گے اور سب کچھ سامنے آ جائے گا۔
ایک عرصے سے ایسے سافٹ ویئرز متعارف کئے جا چکے ہیں جوکسی پراجیکٹ کی ہر تفصیل کو مختلف رنگوں میں سجا کر آپ کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ البتہ اگر مجھے کوئی شک ہے تواتناہے کہ آیا وہ گراف اور چارٹ وغیرہ زمینی حقائق سے بھی مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔
اگر کسی پراجیکٹ کی تکمیل کی راہ میں کوئی ایسی رکاوٹ آ جائے جس کو عوامی سطح پر ظاہر کرنا (مختلف مصلحتوں کے پیش نظر) ممکن نہ ہو تو بھی اس رکاوٹ کو منظر عام پر ضرور لانا چاہیے تاکہ بقول کسے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔جدید جمہوری معاشرے اپنے عوام کو اس طرح کی ’’مصلحت آمیز رکاوٹوں‘‘ سے بھی باخبر رکھتے ہیں۔
ایک اور نہایت اہم بات جو ’’نئے پاکستان‘‘ کی تعمیر و تشکیل کے لئے از بس ضروری ہوگی وہ پرانی روایات سے وہ انحراف ہے جس کا فرق 180ڈگری تک جا سکتا ہے۔
یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کسی نئے خیال، منصوبے یا پراجیکٹ کو لانچ کرنا چاہیں تو پرانی روایات آپ کا راستہ نہ روکیں۔ وہ ضرور راہ میں حائل ہوں گی۔ جب بھی کسی نئی عمارت کی تعمیر شروع کی جائے گی تو پرانی عمارت کی بنیادوں تک کو کھود کر ان کی جگہ نئی بنیادیں تعمیر کرنا ہوں گی۔
لاہور میں جب اورنج ٹرین کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا تو اس کے فوائد سے کسی کو انکار نہیں تھاکیونکہ جب جدید شہروں پر آبادی کا دباؤ بڑھتا ہے تو اس کے لئے میٹرو روڈز اور ریلویز بنائی جاتی ہیں۔
اب بھی آپ دیکھیں گے کہ جب یہ منصوبہ (اس سال کے آخر میں) پوری طرح آپریشنل ہو جائے گا تو آنے والی نسلوں کو یہ یاد بھی نہیں رہے گا کہ اس کی تعمیر کے لئے کتنی اکھاڑ پچھاڑ کی گئی تھی اور میڈیا نے ایک عرصے تک اس کی تکذیب میں کیا کیا مرثیے نہیں پڑھے تھے۔یہی حال لاہور شہر کی سڑکوں کا بھی ہے اور یہی کچھ لاہور نہر کے اطراف میں سڑکوں کی کشادگی کے لئے درختوں کی کٹائی کا بھی تھا۔
تاہم اس طرح کے منصوبوں کے لئے عوام کا اتفاق رائے ضروری ہوتا ہے۔
میرے خیال میں اورنج ٹرین منصوبے پر یہ اتفاق رائے کماحقہ ‘ حاصل نہیں کیا گیا اور عجلت میں اس کا آغاز کر دیا گیا۔ پھر عدالتوں نے بھی اس پراجیکٹ کو لٹکائے رکھا اور کئی ماہ تک ٹریفک کی مشکلات لاہور کے شہریوں کے لئے بلائے جاں بنی رہیں۔۔۔ چنانچہ لازم ہے کہ آئندہ جب بھی کوئی ایسا منصوبہ بنایا جائے تو اس کے نشیب و فراز اور فوائد و نقصانات پر اچھی طرح بحث و تمحیص کر لی جائے۔
ہم بشرطِ حصولِ اقتدار، پی ٹی آئی کے 100 دنوں کی بات کررہے تھے۔۔۔ میڈیا پر اس کے بارے میں طرح طرح کی چہ میگوئیاں شروع ہوچکی ہیں۔ یعنی ایک نیا موضوع میڈیا کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔
پوچھا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو کس نے اس خوش فہمی میں مبتلا کر دیاہے کہ آئندہ الیکشن وہی جیتے گی اور عمران خان ہی وزیر اعظم ہوں گے!۔۔۔ لیکن اتوار(20مئی) کو اسلام آباد کی پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں (شاہ محمود قریشی، اسد عمر، جہانگیر ترین، شیریں مزاری وغیرہ) نے اپنے مجوزہ 100دنوں کے ایجنڈے پر جو اظہار خیال کیا اور آخر میں عمران خان نے بھی جو خطاب کیا تو اس میں کسی بھی مقرر نے یہ بات نہیں کہی کہ ان کی پارٹی آنے والے انتخاب میں ہر حال میں اکثریت حاصل کرلے گی۔
پی ٹی آئی کے اس ایجنڈے میں 50لاکھ نئے مکانات کی تعمیر، ایک کروڑ نئی نوکریاں، کسانوں کے لئے پُرکشش زرعی پیکج، تھرمل بجلی کی جگہ ہائیڈل پاور کی جنریشن، ملک سے باہر گئے ہوئے ہنرمند(Skilled) پاکستانیوں کی بے پناہ صلاحیتوں سے استفادہ وغیرہ پر بڑی خوش آئند باتیں کی گئیں۔ لیکن یہ سب باتیں اور امیدیں نئی نہیں تھیں۔ پی ٹی آئی کے قائدین بارہا ان کا ذکر کرچکے ہیں۔
میرے نزدیک اگر کوئی نئی بات ہے تو یہ ہے کہ ایک سنجیدہ سیاسی پروگرام کی شروعات کی گئیں اور ان کو باقاعدہ انتخابی مہم کا حصہ بنایا گیا۔ لیکن ایک بات جو تحریک کے قائدین کو کھل کر کہنی چاہئے تھی وہ نہیں کہی گئی۔۔۔۔ میری مراد میڈیا پر نقد و نظر کی بے ہنگم بھرمار سے ہے۔ اس کا مداوا ضرور ہونا چاہئے۔
جونہی ملک میں کوئی نیا واقعہ یا حادثہ رونما ہوتا ہے، کوئی سیاسی پارٹی کسی موضوع پر اپنا نقطۂ نظر پیش کرتی ہے، کوئی سیاستدان کوئی نیا بیان داغ دیتا ہے، ہمارے ہمسائے سے کوئی ایسی خبر ملتی ہے جس کا کوئی منفی اثر پاکستان کے کسی بھی شعبے پر پڑتا ہے تو ہمارا میڈیا اندھا دھند اس پر ہنگامہ خیز ٹاک شوز کا سلسلہ شروع کردیتا ہے۔
ہر چینل کے پرائم ٹائم میں اسی واقعے/حادثے/خبر کی ایسی گردانیں شروع ہوجاتی ہیں جن کو سن سن کر سامعین باخبر ہونے کی بجائے کنفیوز ہو جاتے ہیں۔ جہاں ہمارے میڈیا نے عوام کو آگہی دینے اور ان کو زیادہ باخبر اور باشعور بنانے میں ایک بڑا کردا ادا کیا ہے وہاں اس میڈیا کے ایک طبقے نے عوام میں بے یقینی اور اضطراب بلکہ گمراہی کی ایک فضا پیدا کرنے میں بھی ایک اہم رول ادا کیا ہے۔ مختلف چینلوں پر ہر روز کسی ایک موضوع کو ’’قابو‘‘ کر لیا جاتا ہے۔
ان کے ٹاک شوز کے مہمان ملک کے چند جانے پہچانے مبصر، لکھاری، مقرر یا دانشور ہوتے ہیں جو سرشام (یاسرِ شب) تیار ہو کر اور بن سنور کر آ جاتے ہیں۔ میڈیا کے ناظرین و سامعین میں بھی ان حضرات و خواتین کا ایک امیج بن چکا یا بنا دیا گیا ہے۔
ان کی فہرست بنائیں تو ان کی تعداد دو درجن سے زیادہ نہیں ہوگی۔ لیکن ان میں بہت کم مبصر ایسے ہوں گے جن کا براہ راست یا بلواسطہ تعلق کسی سیاسی پارٹی سے نہیں ہوگا۔ اس لئے خواہ کچھ بھی ہو جائے انہوں نے اپنی پسندیدہ اور چنیدہ پارٹی کی لائن ضرور TOW کرنی ہوتی ہے۔
چونکہ موضوعِ زیر بحث پر ان کی معلومات اور طلاقتِ لسانی ان کی بنیادی خوبیاں ہوتی ہیں اس لئے لوگ ان کو سنتے اور ’’سرور‘‘ حاصل کرتے ہیں۔ لیکن جب لوگ ان کو کسی طویل عرصے تک سنتے رہتے ہیں تو ان کو یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ موضوعِ پر بات کرتے ہوئے آخری تان کہاں جا کر توڑتے ہیں؟۔۔۔ اس لئے سیانے لوگ ان کو مارک کر لیتے ہیں اور معلوم کر لیتے ہیں کہ ان کا قبلہ کدھر ہے۔
ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ آنے والے چند ہفتے پاکستان کی تاریخ میں اہم ترین ہفتے ہو سکتے ہیں۔ بقولِ اقبال جہانِ نو پیدا ہونے جا رہا ہے اور عالمِ پیر مر رہا ہے۔چنانچہ میڈیا کے مختلف چینل اپنے مخصوص مہمانوں کو لنگر لنگوٹ کسنے کا پیشگی نوٹس دے رہے ہیں کہ وہ تیار رہیں اور کمرِ ہمت کَس کر میدان میں اترنے کے فریضے کو حسبِ سابق اور با اندازۂ زایداز ضرورت نبھانے کے لئے آمادۂ پیکار ہو جائیں۔۔۔ ان حضرات و خواتین میں بعض ایسے بھی ہیں کہ انتخابات کے نتائج جو بھی آئیں، اس سے ان کو کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔
یہ اپنے مخصوص ایجنڈے کے حق میں طرح طرح کے انوکھے دلائل سامنے لا کرمیڈیا کے ناظرین کو ’’انفارم اور ایجوکیٹ‘‘ کرنا اپنا فرضِ عین گردانتے ہیں۔۔۔قارئین کو میرا مشورہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے ایسے تجزیہ کاروں اور مبصروں کو مارک کر لینا چاہیے تاکہ کسی غلط فہمی یا خوش فہمی سے بچا جا سکے۔